یونیورسٹی سے بنگلے تک
’’پاکستان بنانے والوں کی اولاد‘‘ ہونے کا دعویٰ کرنے والے جانتے ہیں
1978 میں کراچی یونیورسٹی سے شروع ہونے والی کہانی مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کے بعد ڈیفنس کے ایک بنگلے تک آگئی ہے۔ مہاجروں کے حقوق کے نام پر جوانی میں اپنی تحریک کی ابتدا کرنے والے اب ادھیڑ عمری کی آخری سرحدوں تک آگئے ہیں۔ ان چالیس برسوں میں کراچی و حیدرآباد کے اردو بولنے والوں نے کیا پایا اور کیا کھویا؟ یہ تاریخ کا اہم سوال ہے۔
''پاکستان بنانے والوں کی اولاد'' ہونے کا دعویٰ کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کے باپ دادا مسلم اقلیتی صوبوں میں رہتے تھے۔ ایک نئے وطن کی سمجھ ممبئی اور یوپی کے مسلمانوں کو سب سے پہلے آئی۔ انھوں نے سرنگ کے کنارے پر روشنی دیکھی۔ اس دانشمندی نے انھیں قائداعظم اور آل انڈیا مسلم لیگ سے قریب تر کردیا۔ جب وطن بنا تو وہ اپنے باپ دادا کے گھر و کاروبار اور آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑ کر پاکستان آگئے۔ قربانی دینے کے علاوہ ادب و آداب میں سب سے آگے رہنے والوں کا سندھیوں، پنجابیوں، پٹھانوں، بنگالیوں اور بلوچوں نے خیر مقدم کیا۔
یہ تمام قومیں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں۔ اگر ان میں کوئی مشترک قدر تھی تو وہ کلمے کا رشتہ تھا۔ اسلام کی رسی تھی جس نے انھیں جوڑے رکھا تھا۔ اسلام اور پاکستان کے نام پر ان صوبوں نے اپنی زبان، لباس، ثقافت کو پیچھے رکھ دیا تھا۔ پنجاب اور بنگال نے تو مذہب کے نام پر اپنی تقسیم تک گوارا کرلی۔ پنجابیوں نے کُرتا لاچا پہننے والے اور لسّی پینے والے ہم زبان سکھوں سے کنارا کشی اختیار کرلی۔ دھوتی پہننے، مچھلی چاول کھانے اور رابندر ناتھ ٹیگور کو پڑھنے والے بنگالیوں نے اپنے جیسے ہندوؤں سے ناتا توڑ لیا۔ پھر کیا ہوا؟ پھر یہ تعصب کہاں سے آگیا؟ مہاجر قومی موومنٹ کیوں بنی؟ یہ تاریخ کے اہم سوالات ہیں۔ مورخ قلم ہاتھ میں تھامے ان سوالوں کے جواب کا منتظر ہے۔
روٹی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ گندم کا دانا اور آدمؑ کا جنت سے دنیا میں آنا ایک بڑا واقعہ ہے۔ نظریہ ہوتا ہے تو بھوک مرجاتی ہے لیکن جب منزل مل جاتی ہے تو بھوک پھر ستانے لگتی ہے۔ اس کا علاج انصاف ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے کہ ہر شخص اپنے ''مقدر رزق'' کے حوالے خود ہی جج بنا ہوتا ہے۔ خرابی یہیں سے جنم لیتی ہے۔ پاکستان میں پہلی خرابی نے ڈھاکا سے جنم لیا۔ اردو کو واحد قومی زبان نہ مان کر بنگالیوں نے اختلاف کی بنیاد رکھی۔ اردو نہ تو پنجابیوں کی زبان تھی اور نہ سندھیوں کی۔ یہ نہ تو پٹھانوں کی بولی تھی اور نہ بلوچوں کی۔ یہ سب کی زبان تھی اور کسی کی نہ تھی۔ یہ رابطے کی زبان تھی۔
بنگالی اپنے صوبے میں اپنی زبان کو بھرپور انداز میں فروغ دے سکتے تھے۔ بنگالیوں کی جلدبازی نے مسلم لیگ کے قدم اکھاڑ دیے۔ مشرقی پاکستان میں ''جگتو فرنٹ'' کی کامیابی نے غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے اعلیٰ افسران کو موقع دیا کہ وہ بلیّوں کی لڑائی میں بندر کا کردار ادا کریں۔ اگر مسلم لیگ ملک کے دونوں بازوؤں میں مضبوط ہوتی تو شکایت کا فورم مضبوط ہوتا اور انصاف... یعنی معاشی انصاف کے راستے نکلتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اردو بولنے والے افسران چھائے ہوئے تھے۔ مہاجر دکاندار و صنعت کار بھی آہستہ آہستہ خوشحالی دیکھ رہے تھے۔
ایوب خان کو برسر اقتدار آنے کا موقع ملا۔ کراچی کے اردو بولنے والوں کی فیلڈ مارشل سے کبھی نہ بنی۔ فاطمہ جناح کی صدارتی انتخابات میں حمایت نے بھی فوجی جنرل اور مہاجروں کو دور کردیا۔ گوہر ایوب کے جشن فتح نے مزید دوری پیدا کی۔ دارالخلافے کی کراچی سے منتقلی نے بنگالیوں کے ساتھ ساتھ کراچی کے اردو بولنے والے افسران کو بھی متاثر کیا۔ یوں ناانصافی کا تاثر لینے والے سندھ کے شہری علاقے کے باشندوں نے اپنے آپ کو مرکز سے دور سمجھا۔ دہلی اور آگرے سے قربت کے بعد کراچی کی قربت اور پھر دارالخلافے سے دوری عشروں کا نہیں بلکہ صدیوں کا صدمہ تھا۔
یحییٰ خان نے سیکڑوں سرکاری افسران کو ملازمت سے برخاست کردیا ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے جہاں ڈھائی تین لاکھ انسانوں کو کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا تو دوسری طرف بنگال میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے معاشی تنگی کا سامنا کیا جن میں گجراتی، میمن صنعتکار بھی شامل تھے۔ ایسے میں بھٹو برسر اقتدار آئے۔ یہ پانچ سال سندھ کے شہری علاقے کے باشندوں کے لیے کشمکش کے سال تھے۔ یہیں سے مہاجروں کی طلبا تنظیم اور قومی موومنٹ کے خیال نے جنم لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پنجاب کے علاوہ سندھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ کراچی کی سات نشستوں میں سے پیپلز پارٹی کے حصے میں صرف دو سیٹیں آئی تھیں۔ حفیظ پیرزادہ اور عبدالستار گبول کو شہر قائد کے پرانے باسیوں نے ووٹ دیے تھے۔ پروفیسر غفور احمد، شاہ احمد نورانی، ظفر احمد انصاری اور محمود اعظم فاروقی مذہبی پارٹیوں کے اردو بولنے والے مہاجر تھے۔ بھٹو نے بھی اقتدار کے ابتدائی مہینوں میں افسران کو نکال باہر کیا۔ پھر ''لسانی بل'' نے دوریاں پیدا کیں۔ صرف سندھی کو صوبے کی زبان قرار دینے کے بعد ہنگامہ آرائی کو دیکھتے ہوئے اردو کو بھی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔
73 کے آئین میں کوٹہ سسٹم کے ذریعے سندھ کو دیہی اور شہری میں تقسیم کردیا گیا۔ یوں پے در پے واقعات نے صوبے کے قدیم و نئے باشندوں میں فاصلے پیدا کردیے۔ جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو کراچی بھی پیش پیش تھا۔ یہ وہ حالات تھے جن کو سامنے رکھتے ہوئے الطاف حسین کی قیادت میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا۔
کراچی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں پہلے سال دو سو اور پھر آٹھ سو ووٹوں نے ظاہر کردیا تھا کہ شہری سندھ کا پڑھا لکھا اردو بولنے والا موجودہ حالات سے خوش نہیں۔ یہ 70 کا عشرہ تھا۔ 80 کی دہائی میں جب غیر جماعتی انتخابات کے بعد جنرل ضیا الحق کا مارشل لا اٹھا اور آزادی ملی تو ایم کیو ایم نے کراچی کے نشتر پارک میں ہجوم اکٹھا کر دیا۔ یہ حیرت انگیز بات تھی۔ یہ کام جماعت اسلامی، جمعیت علما پاکستان اور پیپلز پارٹی ہی کرسکتی تھیں۔ لوگ حیران رہ گئے۔
ایم کیو ایم نے 87 سے لے کر دو ہزار سولہ کے بلدیاتی انتخابات سمیت ہر انتخابات میں اپنی برتری ثابت کی ہے۔ پوری تنظیم قائد کے گرد گھومتی ہے۔ طاقتور حلقوں اور ایم کیو ایم کی جنگ ایک نئے موڑ پر آگئی ہے۔ آفاق و عامر کے بعد کمال و انیس کی منظر سیاست پر آمد کیا رنگ دکھائے گی؟ چوبیس برسوں کے فاصلے پر ان دو ملتے جلتے واقعات میں کچھ فرق ضرور ہے۔ اہل سیاست و دانش اس فرق کو دلچسپی و غور سے دیکھ رہے ہیں۔ جوانی کا عروج اور بڑھاپے کی سرحد پہلا فرق ہے۔ قائد کی خرابی صحت کے علاوہ معاملات پر ماضی کی طرح گرفت نہیں۔ آفاق و عامر کو جب بانوے میں لایا گیا تو سندھ کے شہری علاقے کے باشندوں کو ایک خوبصورت مستقبل دکھائی دے رہا تھا۔
اکیسویں صدی کے سولہویں برس میں مس+تق+بِل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں جب کہ ایک ماضی ہے جس پر بہت زیادہ فخر نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام تر خامیوں کے باوجود بھی سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کا اعتماد ایک قائد پر برقرار رہے۔ کسی مصنوعی طریقے سے اسے چھیننے کی کوشش کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جائے گا۔ ضیا دور میں پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوششیں ناکام ہوچکی تھیں۔ سیاسی عروج و زوال عوام کی پسند و ناپسند پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھنی چاہیے اور ضرور سمجھنی چاہیے پاکستان کے طاقتور حلقوں کو۔ ایم کیو ایم کی قیادت کو جاننا چاہیے کہ سیاسی پارٹیاں انتخابات یا خاندانی وراثت کے بل بوتے پر آگے بڑھتی ہیں۔ شہری سندھ کے کروڑوں عوام کس امید پر تنظیم سے وابستہ رہیں؟
امید اور امیدیں۔ آپ کے باپ دادا کو پاکستان میں روشنی کی کرن نظر آئی تو انھوں نے ہجرت کی۔ شہری سندھی عوام کو ایم کیو ایم سے امیدیں تھیں تو انھوں نے اعتماد کا ووٹ بخشا۔ اس اعتماد کے جواب میں قائد اور تنظیم نے اپنے ووٹرز کو کیا دیا؟ اہم اور نازک سوال کا جواب مورخ دے گا۔ ایم کیو ایم کی سمجھدار قیادت کو اس سوال کے جواب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انھیں کراچی یونیورسٹی سے اپنے آغاز سفر کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
مہاجروں کو سوچنا چاہیے کہ آج ڈیفنس کے ایک بنگلے سے ان کے اپنے ہی کیوں شکایتوں کے تیر برسا رہے ہیں؟ جبر اور زور زبردستی کی پالیسی کمزوری تو نہیں بن رہی؟ اردو بولنے والے دانشوروں کو ایک نظر ادھر بھی ڈالنی چاہیے۔ جامعہ کراچی سے شروع ہونے والا سفر بلدیات و اسمبلیوں اور سینیٹ سے ہو کر گزرا ہے۔ وہ سفر جو نائن زیرو اور لندن کے انٹرنیشنل سیکریٹریٹ تک پہنچا کر یہ ''نشان منزل'' تھے۔ سوال ہے کہ اس سفر نے آفاق و عامر کے ''بیت الحمزہ'' اور کمال و انیس کے ڈیفنس کے بنگلے پر پڑاؤ کیوں ڈالا؟ کیا اردو بولنے والے تنقیدی نگاہ ڈالیں گے اس روٹ پر جسے کہا جاسکتا ہے جامعہ سے ڈیفنس تک یا یونیورسٹی سے بنگلے تک۔