کاروباری برادری ٹیکس نظام میں اصلاحات کے لیے ایک بار پھر صف آرا
نظام پر عمل درآمد کا طریقہ کار اور ایف بی آر کا رویہ وہی رہتا ہے، سراج قاسم تیلی
ISLAMABAD:
بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی نے کہاہے کہ ملک میں ٹیکس کلچر کا فقدان ہے اوراس کلچرکوصرف نیٹ میں شامل ٹیکس گزاروں تک ہی محدود رکھا جاتا رہا ہے جبکہ ایف بی آر کے کلچر کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کرتا۔
ہفتے کوکراچی چیمبر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چہرے بدل جاتے ہیں لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے نظام پر عمل درآمد کا طریقہ کار اور ایف بی آر کا رویہ وہی رہتا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے مشیر کو مشورہ دیا کہ وہ ایمانداری اور سچائی کے ساتھ کام کرتے ہوئے تاکہ ٹیکس کلچر میں بہتری لائی جاسکے جو نہ صرف ٹیکس گزاروں تک محدود ہو بلکہ ٹیکس اکھٹا کرنے والی اتھارٹی کے رویے اور کام کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جا سکے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ایف بی آر پہلے سے ٹیکس دینے والوں کے ساتھ غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ہراساں کرتا ہے جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔
ٹیکس کلکٹرز کے رویے اور نیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بری نیت اور بے جا اختیارات کی وجہ سے ایماندار ٹیکس گزاروں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ زیادہ تر بے جا اختیارات سیلز ٹیکس قوانین میں متنازع ایکسائز قوانین کو شامل کرکے دیے گئے ہیں۔ کراچی چیمبر کی کوششوں کی وجہ سے یہ کالے قوانین سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں ختم کرواے گئے تھے اور ایکسائز قوانین صرف 6آئٹمز پر لاگوتھے لیکن اب انہی قوانین کو گزشتہ 3بجٹ کے دوران فنانس بل کے ذریعے دوبارہ مسلط کردیا گیا ہے جو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیش کیے تھے جس کے نتیجے میں ایف بی آر حکام نے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ہراساں کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس قوانین1994میں پہلی بار متعارف کروائے گئے جبکہ برطانیہ سے بے عیب کمپیوٹرائزڈ نظام کونافذ کیا گیا جو اچھا کام کررہا تھا اور لوگ ایمانداری کے ساتھ سیلز ٹیکس ادا کررہے تھے لیکن بدقسمتی سے1997میں اس نظام میں بتدریج تبدیلیاں کی گئیں جس نے سیلز ٹیکس کے وصولی کے نظام کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا اور کرپشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایسا جان بوجھ کر کیا گیا، اگر وہ نظام چلتا رہتا تو پورا پاکستان سیلز ٹیکس د ے رہا ہوتا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ مذکورہ نظام کو اس کی اصل شکل کے ساتھ اگربحال کردیا جائے تو موجودہ مسائل کو حل کرنے میںمدد ملے گی پر کرپٹ عناصر ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
سراج تیلی نے کہاکہ ایف بی آر میں دو قسم کی کرپشن ہے جن میں سے ایک ایسے افسران ہیں جو مالی فوائد کے لیے بدعنوانی کرتے ہیں نیز ایسے حکام بھی ہیں جواذیت پسند ہیں اور لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر حکومت ایف بی آر کو بند کرنے کا اعلان کردے اور عوام سے کہا جائے کہ وہ تھوڑا سا ٹیکس بڑھا کرجمع کرائیں تو وہ رضاکارانہ طور پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینے کے لیے آگے بڑھیں گے کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوگا کہ اب انہیں نہ تو ہراساں کیا جائے اور نہ ہی ایف بی آر کے کرپٹ حکام کو کچھ اضافی ادا کرنا پڑے۔ اس کے نتیجے میں یقینی طور پر ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ اصلاحاتی اقدامات کونیچے سے اوپر تک متعارف کرانا ہوگا ا ور کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی جبکہ ایماندار افسران کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پر مشتمل کمیٹی کا قیام عمل میں لاتے ہوئے ایف بی آر کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا۔پورا ایف بی آر کرپشن زدہ نہیں کئی ایماندار افسران بھی ایف بی آر کا حصہ ہیں لیکن وہ کرپٹ اور بااثر افسران کے دباؤ کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو ٹیکس گزاروں کے لیے ایسی ایمنسٹی اسکیم متعارف کروانا چاہیے جس میں اس امر کو یقینی بنانا جائے کہ ایف بی آر کا کوئی بھی افسرپابندی کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے والوں کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا جبکہ ایف بی آر کو ریونیو میں اضافے کے لیے دیگرذرائع کی جانب توجہ دینے کی ہدایت کی جائے۔ ایسی صورت میںان کے پاس کوئی اورآپشن نہ ہو گا، ماسوائے اس کے کہ وہ ٹیکس نادہندگان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
سراج قاسم تیلی نے کہاکہ ایف بی آرکے پاس ایسے لاکھوں ٹیکس نادہندگان کی تفصیلات موجود ہیں جو شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اور ذاتی جائیدار رکھتے ہیں، بینک اکاؤنٹس اور کریڈٹ کارڈ کااستعمال بھی کرتے ہیں اور ان کے بچے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ انہوںنے وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو سے درخواست کی کہ وہ ایسے ٹیکس نادہندگان کی مذکورہ فہرست کو اخبارات میں شائع کرنے کی ہمت کریںکیونکہ یہ عناصر یا تو با اثر ہیں یا پھر سیاسی اثر ورسوخ رکھنے کے علاوہ بیوکریسی کے منظور نظر ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کے مشیر سے یہ درخواست بھی کی کہ ریونیو کے حساب سے شہر کی سطح پر ایف بی آر کو تفصیلات مرتب کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ سچ اور حقیقت سامنے آسکے کہ شہر کراچی اور دیگر علاقوں اور صوبوں سے کتنا ریونیو جمع کیا جاتا ہے اور یہ ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے۔
وائس چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی ہارون فاروقی نے کہاکہ ڈیڑہ سال کی انتھک کوششوں کے بعد ٹیکس ریفارمز کمیشن نے حکومت کو اپنی اہم تجاویز دیں لیکن بدقسمتی سے کمیشن کی ایک بھی تجویز کو گزشتہ سال کے بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا اور ٹی آر سی کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔انہوں نے حکومت سے کہاکہ وقتاً فوقتاً بے شمار ٹیکس پالسیوں کو ناکام بنانے کی ذمے دار وجوہات کی نشاندی کی جائے۔
انہوں نے ایف بی آر کے انفورسمنٹ سیکشن کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کے لیے کالے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کیاجاتا ہے جنہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر سیکشن127کے تحت اختیارات کو ضرور ختم کرنا چاہیے۔ وائس چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی انجم نثار نے کہا کہ ٹیکس ریفارمز کمیشن کی جانب سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کی گئی تجاویز پر غور کیا جائے جن سے نہ صرف ٹیکس دہندگان کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں بلکہ ملک کے ریونیو میں بھی یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔انہوں نے سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے خصوصی طور پر ریٹیل سیکٹر کا ذکرکیا جو بڑی تعدادمیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور ریونیو میں اضافے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر نے ملک میںصرف 7سے8لاکھ ٹیکس دہندگان ہونے پر تشویش کا اظہار کیا جنہیں ریونیو اہداف حاصل کرنے کیلیے مزید نچوڑا جاتا ہے۔انہوں نے نان فائلرز کیلیے متعارف کروائی گئی ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے کہا کہ دعویٰ کیا گیا کہ اس اسکیم سے لاکھوں لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے گا لیکن یہ اسکیم بہت بری طرح ناکام ہوئی اور اس کا حقیقت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف چند سو لوگ ہی ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے۔
بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی نے کہاہے کہ ملک میں ٹیکس کلچر کا فقدان ہے اوراس کلچرکوصرف نیٹ میں شامل ٹیکس گزاروں تک ہی محدود رکھا جاتا رہا ہے جبکہ ایف بی آر کے کلچر کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کرتا۔
ہفتے کوکراچی چیمبر میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چہرے بدل جاتے ہیں لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے نظام پر عمل درآمد کا طریقہ کار اور ایف بی آر کا رویہ وہی رہتا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے مشیر کو مشورہ دیا کہ وہ ایمانداری اور سچائی کے ساتھ کام کرتے ہوئے تاکہ ٹیکس کلچر میں بہتری لائی جاسکے جو نہ صرف ٹیکس گزاروں تک محدود ہو بلکہ ٹیکس اکھٹا کرنے والی اتھارٹی کے رویے اور کام کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جا سکے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ایف بی آر پہلے سے ٹیکس دینے والوں کے ساتھ غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ہراساں کرتا ہے جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔
ٹیکس کلکٹرز کے رویے اور نیت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بری نیت اور بے جا اختیارات کی وجہ سے ایماندار ٹیکس گزاروں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ زیادہ تر بے جا اختیارات سیلز ٹیکس قوانین میں متنازع ایکسائز قوانین کو شامل کرکے دیے گئے ہیں۔ کراچی چیمبر کی کوششوں کی وجہ سے یہ کالے قوانین سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں ختم کرواے گئے تھے اور ایکسائز قوانین صرف 6آئٹمز پر لاگوتھے لیکن اب انہی قوانین کو گزشتہ 3بجٹ کے دوران فنانس بل کے ذریعے دوبارہ مسلط کردیا گیا ہے جو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیش کیے تھے جس کے نتیجے میں ایف بی آر حکام نے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ہراساں کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیلز ٹیکس قوانین1994میں پہلی بار متعارف کروائے گئے جبکہ برطانیہ سے بے عیب کمپیوٹرائزڈ نظام کونافذ کیا گیا جو اچھا کام کررہا تھا اور لوگ ایمانداری کے ساتھ سیلز ٹیکس ادا کررہے تھے لیکن بدقسمتی سے1997میں اس نظام میں بتدریج تبدیلیاں کی گئیں جس نے سیلز ٹیکس کے وصولی کے نظام کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا اور کرپشن کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایسا جان بوجھ کر کیا گیا، اگر وہ نظام چلتا رہتا تو پورا پاکستان سیلز ٹیکس د ے رہا ہوتا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ مذکورہ نظام کو اس کی اصل شکل کے ساتھ اگربحال کردیا جائے تو موجودہ مسائل کو حل کرنے میںمدد ملے گی پر کرپٹ عناصر ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
سراج تیلی نے کہاکہ ایف بی آر میں دو قسم کی کرپشن ہے جن میں سے ایک ایسے افسران ہیں جو مالی فوائد کے لیے بدعنوانی کرتے ہیں نیز ایسے حکام بھی ہیں جواذیت پسند ہیں اور لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر حکومت ایف بی آر کو بند کرنے کا اعلان کردے اور عوام سے کہا جائے کہ وہ تھوڑا سا ٹیکس بڑھا کرجمع کرائیں تو وہ رضاکارانہ طور پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس دینے کے لیے آگے بڑھیں گے کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہوگا کہ اب انہیں نہ تو ہراساں کیا جائے اور نہ ہی ایف بی آر کے کرپٹ حکام کو کچھ اضافی ادا کرنا پڑے۔ اس کے نتیجے میں یقینی طور پر ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
انہوں نے کہاکہ اصلاحاتی اقدامات کونیچے سے اوپر تک متعارف کرانا ہوگا ا ور کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی جبکہ ایماندار افسران کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پر مشتمل کمیٹی کا قیام عمل میں لاتے ہوئے ایف بی آر کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہوگا۔پورا ایف بی آر کرپشن زدہ نہیں کئی ایماندار افسران بھی ایف بی آر کا حصہ ہیں لیکن وہ کرپٹ اور بااثر افسران کے دباؤ کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو ٹیکس گزاروں کے لیے ایسی ایمنسٹی اسکیم متعارف کروانا چاہیے جس میں اس امر کو یقینی بنانا جائے کہ ایف بی آر کا کوئی بھی افسرپابندی کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے والوں کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کرے گا جبکہ ایف بی آر کو ریونیو میں اضافے کے لیے دیگرذرائع کی جانب توجہ دینے کی ہدایت کی جائے۔ ایسی صورت میںان کے پاس کوئی اورآپشن نہ ہو گا، ماسوائے اس کے کہ وہ ٹیکس نادہندگان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
سراج قاسم تیلی نے کہاکہ ایف بی آرکے پاس ایسے لاکھوں ٹیکس نادہندگان کی تفصیلات موجود ہیں جو شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اور ذاتی جائیدار رکھتے ہیں، بینک اکاؤنٹس اور کریڈٹ کارڈ کااستعمال بھی کرتے ہیں اور ان کے بچے بیرون ملک یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ انہوںنے وزیراعظم کے مشیر برائے ریونیو سے درخواست کی کہ وہ ایسے ٹیکس نادہندگان کی مذکورہ فہرست کو اخبارات میں شائع کرنے کی ہمت کریںکیونکہ یہ عناصر یا تو با اثر ہیں یا پھر سیاسی اثر ورسوخ رکھنے کے علاوہ بیوکریسی کے منظور نظر ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کے مشیر سے یہ درخواست بھی کی کہ ریونیو کے حساب سے شہر کی سطح پر ایف بی آر کو تفصیلات مرتب کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ سچ اور حقیقت سامنے آسکے کہ شہر کراچی اور دیگر علاقوں اور صوبوں سے کتنا ریونیو جمع کیا جاتا ہے اور یہ ہر ایک کو معلوم ہونا چاہیے۔
وائس چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی ہارون فاروقی نے کہاکہ ڈیڑہ سال کی انتھک کوششوں کے بعد ٹیکس ریفارمز کمیشن نے حکومت کو اپنی اہم تجاویز دیں لیکن بدقسمتی سے کمیشن کی ایک بھی تجویز کو گزشتہ سال کے بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا اور ٹی آر سی کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔انہوں نے حکومت سے کہاکہ وقتاً فوقتاً بے شمار ٹیکس پالسیوں کو ناکام بنانے کی ذمے دار وجوہات کی نشاندی کی جائے۔
انہوں نے ایف بی آر کے انفورسمنٹ سیکشن کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کے لیے کالے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کیاجاتا ہے جنہیں ختم کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر سیکشن127کے تحت اختیارات کو ضرور ختم کرنا چاہیے۔ وائس چیئرمین بی ایم جی و سابق صدر کے سی سی آئی انجم نثار نے کہا کہ ٹیکس ریفارمز کمیشن کی جانب سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کی گئی تجاویز پر غور کیا جائے جن سے نہ صرف ٹیکس دہندگان کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں بلکہ ملک کے ریونیو میں بھی یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔انہوں نے سرمایہ کار دوست ماحول پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے خصوصی طور پر ریٹیل سیکٹر کا ذکرکیا جو بڑی تعدادمیں روزگار کے مواقع فراہم کرنے اور ریونیو میں اضافے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر یونس محمد بشیر نے ملک میںصرف 7سے8لاکھ ٹیکس دہندگان ہونے پر تشویش کا اظہار کیا جنہیں ریونیو اہداف حاصل کرنے کیلیے مزید نچوڑا جاتا ہے۔انہوں نے نان فائلرز کیلیے متعارف کروائی گئی ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے کہا کہ دعویٰ کیا گیا کہ اس اسکیم سے لاکھوں لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے گا لیکن یہ اسکیم بہت بری طرح ناکام ہوئی اور اس کا حقیقت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف چند سو لوگ ہی ٹیکس نیٹ میں شامل ہوئے۔