کہانی کے دلدادہ افراد کیلئے ’’دل زدہ‘‘

دھرتی سے جڑے ممتاز راشد لاہوری کی کہانیوں کے کردار ہمارے چار سو بکھرے ہوئے ہیں۔

دل زدہ ممتاز راشد لاہوری کا مکمل افسانوی مجموعہ ہے۔ ان کے اس افسانوی مجموعہ میں 45 افسانے ہیں۔ ان کے یہ افسانے چھوٹے چھوٹے واقعات پر مبنی ہیں۔

MANCHESTER:
خاموشی بہت بڑی حقیقت ہے، خاموشی ہی زندگی کا سر چشمہ ہے اور زندگی کا دریا خاموشی کے سمندر میں جا گرتا ہے۔ درمیان کا مختصر سا وقفہ، مختصر سا یہ سفر چھوٹی چھوٹی خوشیوں، بڑے بڑے حادثوں، احمقانہ خواہشوں اور لاعلاج پریشانیوں سے اٹا پڑا ہے۔ زندگی کے بارے میں ممتاز راشد لاہوری کا فلسفہ بھی شاید یہی ہے کہ وہ اپنی ساری کہانیاں انہی دو خاموشیوں کے درمیانی وقفہ یعنی مختصر اور نا پائیدار زندگی سے اخذ کرتے ہیں۔

ان کی کہانیاں نہ تو سوئے افلاک کی اس قدسی فضا کی حامل ہیں جہاں تک پڑھنے والے کا ذہن پرواز کرسکے اور نہ زمینی اتفاقات اور قیاسات کی بیساکھیوں پر چلتے ہیں کہ باشعور قارئین کی نازک سوچ پر گراں گزریں۔ ان کی کہانیاں، ان کے افسانے ہماری روز مرہ حقیقی زندگی کی خوشیوں، حادثوں، خواہشوں اور پریشانیوں کی سچی تصویریں ہیں۔ ان کا تعلق ہماری اپنی زمین سے ہے، ہمارے سماج سے ہے، ہمارے دور سے ہے جس میں ہم آپ سانس لے رہے ہیں۔

دھرتی سے جڑے ممتاز راشد لاہوری کی کہانیوں کے کردار ہمارے چار سو بکھرے ہوئے ہیں۔ ممتاز راشد لاہوری بنیادی طور پر شاعری کی راہ کے مسافر ہیں۔ درجن بھر شعری مجموعے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ حفیظ جالندھری مرحوم نے ایک بار کہا تھا کہ کسی ادیب کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ شاعر بھی ہو لیکن ہر شاعر لازمی طور پر ادیب بھی ہوتا ہے۔ مرحوم کا یہ قول ممتاز لاہوری پر مکمل طور پر پورا اترتا ہے۔ شاعری میں اپنا سکہ منواتے ہوئے انہوں نے نثر کی دو کتابیں لاہور کے نئے پرانے رنگ اور پاکستانی نغمہ نگاران بھی قارئین کی نظر کی ہیں۔ بات کا بتنگڑ بھی نیم افسانوی مجموعہ تھی جس میں ممتاز راشد نے اپنی نثری اسلوب کی جھلک دکھائی تھی کہ اس میں بھی چند افسانے شامل تھے۔ دل زدہ ان کا مکمل افسانوی مجموعہ ہے۔ ان کے اس افسانوی مجموعہ میں 45 افسانے ہیں۔ ان کے یہ افسانے چھوٹے چھوٹے واقعات پر مبنی ہیں۔

گونگا اور کالو، بلاشبہ ان کا دیہی ماحول میں جاگیردارانہ نظام میں جنم لینے والا کامیاب ترین افسانہ ہے۔ ممتاز راشد لاہوری نے اپنا زیادہ وقت غیر ممالک میں گزارا ہے لیکن، اس افسانے میں انہوں نے مختصر الفاظ میں جاگیردارانہ غلام گردشوں میں جنم لینے والی کہانیوں کو کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے گویا اسی دھرتی کے جاگیردارانہ نظام کے وہ خود حصہ رہے ہوں اور کہانی کہنے کا یہ انداز انہی کا خاصا ہے۔

مختصر سے بیانیہ میں صورتحال پورے جذبات کے ساتھ ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ کہانی کا کردار نمبر دار مہر شیرا حویلی کے اندر موجود خواتین میں سے کسی کے ساتھ رات کو گھر کی دیوار پھلانگ کر مراسم بڑھانے پر اپنے ایک ملازم کالو کو قتل کرکے قتل کا الزام دوسرے گونگے ملازم پر اِس اُمید پر لگوا دیتا ہے کہ اُسے ہر قیمت پر بچا لیا جائے گا، ایک پیرا ملاحظہ کیجئے۔
''پولیس کے سپاہی گونگے کو گرفتار کرکے اسے ہتھکڑی لگا کر ابھی مہر شیرا کی حویلی کے باہر بیٹھے تھے۔ گونگا خاموش اور پُرسکون تھا۔ مہر شیرا لسی پانی سے سپاہیوں کی ٹہل سیوا کرچکا تو سپاہی گونگے کو لے کر تھانے کی طرف چل دئیے۔ تھوڑی دور تک مہر شیرا بھی ساتھ گیا واپس مڑتے ہوئے اس نے رک کر گونگے کے شانے پر ہاتھ رکھا۔ مہر شیرا کی آنکھوں میں جھانکنے کے بعد گونگے کے چہرے پر اطمینان کا تاثر مزید گہرا ہوگیا تھا۔ اسی شام مہر شیرا گاؤں کے دو معماروں کو بلا کر حویلی کی چار دیواری کو مزید اونچا کرنے کا تخمینہ لگوا رہا تھا''۔


ممتاز راشد لاہوری نے مکالمہ کی بجائے بیانیہ میں اپنی کہانی کو معنی عطا کئے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ انہوں نے مکالمہ کا استعمال نہیں کیا۔ جس افسانے کو انہوں نے کتاب کا نام دیا ہے وہ ''دل زدہ'' ہے جو سراپہ مکالمہ ہے۔ ان کے افسانے بند صندوق، دلیر لڑکی ڈرپوک ماں، ڈھلتی عمر کا میک اپ اور چوبیسویں صدی کے معدوم رشتے، ایسے افسانے ہیں جنہیں ممتاز راشد لاہوری نے خوشگوار موڑ دے کر ختم کردیا ہے۔ ان کا اختتام پڑھتے ہوئے ایک دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پر پھیل جاتی ہے۔ ان افسانوں میں دلیر لڑکی ڈرپوک ماں کے بارے میں ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ افسانہ ختم کرنے کا یہ انداز کسی حد تک بین الاقوامی قرار دیا جا سکتا ہے۔

ممتاز راشد لاہوری نے اپنے افسانوی مجموعہ کا انتساب تاجدار افسانہ سعادت حسن منٹو کے نام کیا ہے اور یقیناََ درست ہی کیا ہے کہ انہی کی اختصار نویسی کی تقلید کی ہے۔ گونگا اور کالو، گدلا پانی، شہرِ تصور، ایک محرومی کا ازالہ، روٹھی ہوئی بیوی، نئے گھر کا نامکمل نقشہ، پھیکی چائے، پڑھتے ہوئے ممتاز لاہوری کی انسانی نفسیات پر گہری نظر کی داد دینی پڑتی ہے۔ بند صندوق اس افسانوی مجموعہ کا ایک اور اہم افسانہ ہے جو عصمت چغتائی کی خالہ بی کا صندوق یاد دلا دیتا ہے۔

ممتاز لاہوری نے 45 افسانوں میں 45 ذائقے قاری کو چکھا دئیے ہیں۔ وہ اختصار نویسی میں ماہر ہیں شاید ایسا اس لئے ہے کہ وہ شاعر ہیں جہاں دو مصروں میں پورا جہان باندھنا پڑتا ہے۔ کہانی کا حسن اسے بنائے رکھنے میں ہے لیکن کہیں طوالت کے چکر میں کہانی میں مضمون کی لذت آگئی ہے جیسا کہ ان کی کہانی مست قلندر ہے، تصوف کے سلسلوں کا بیان اسے افسانے کی حدود سے باہر لے جاتا محسوس ہوتا ہے۔ ممتاز راشد لاہوری کو افسانوں کی بنت میں توازن کو برقرار رکھنا چاہیئے۔

کہانی کے دلدادہ افراد کے لئے دل زدہ ایک اچھا اضافہ ہے۔ رحمانیہ کتاب مرکز، 298 الحمرا ٹاؤن، رائے ونڈ روڈ لاہور کی شائع کردہ اس کتاب کی قیمت 250 روپے ہے۔ کتاب کے حصول کے لئے میاں عدیل ممتاز 119، آصف بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story