علم کیا علم کی حقیقت کیا
علم بذات خود ایسی گنجلک اور پیچیدہ حقیقت ہےکہ ہزاروں سال سے اس پر قیاس آرائیاں ہورہی ہیں لیکن کوئی مطلق تعریف نہ ہوسکی
KARACHI:
ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ بچہ اس دنیا میں آیا دو تین برس گزرے تو اسے اسکول کا دیدار کرا دیا گیا۔ دن گزرتے گئے، اس کا ارتقا ہفتوں سے مہینوں اور پھر سالوں تک جا پہنچا۔ ظاہر ہے اتنی محنت کسی فالتو شے پر تو ہونے سے رہی اور حقیقت میں یہ شے بڑی قیمتی ہے جس کو ہم ''علم'' کے نام سے جانتے ہیں، لیکن ہوتا کیا ہے کہ ہم اس کے حصول میں اس قدر منہمک ہوجاتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ حاصل کیا کیا جارہا ہے۔ جی ہاں اصل سوال تو سب سے پہلے یہ ہے کہ جس چیز پر آپ زندگی لگا دیتے ہیں آخر وہ علم ہے کیا؟
مجھے یاد ہے کہ اس سوال کہ پیچھے میں بہت سرگرداں رہا کہ کوئی اہلِ علم یہ بتادے کہ جناب علم کیا ہے؟ کوئی قابلِ اطمینان جواب نہ پایا تو خود تحقیق میں لگ گئے۔ شروع شروع میں تو یہاں بھی لاچاری اور ضعفِ فکری نے گھیرلیا کہ بھائی اسقدر دقیق نظریات اور پھر نظریات کی گہرائی تو برداشت لیکن گوناگوں آراء کا دلدل ۔۔۔۔۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ نظریات جس قدر زیادہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں، علم کا ارتقاء بھی اسی حساب سے ہوتا ہے۔ محض ایک حتمی نظریہ موجود ہو تو عملی طور پر یہ کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا کرتا لیکن، جب مختلف آراء ہوں تو ایک تنقیدی اور تعمیری سوچ کے ذریعے پرکھنے کے بعد ایک زیادہ حقیقت پسند نظریہ قائم کیا جاسکتا ہے اور اسطرح علم کی ترقی چلتی رہتی ہے۔
علم کیا ہے؟ یہ سوال اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ علم کی تاریخ پرانی ہے اور اتنا ہی جدید ہے جتنا کہ آج کی ارتقائی علمی و تحقیقی ماہیت، قدیم یونان کے فلسفہ دانوں نے یہ سوال اٹھایا کہ علم کہتے کسے ہیں؟ علم حاصل کیسے کیا جاتا ہے؟ علم حاصل کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟ علم حاصل کرنے کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ جس کے بعد فلسفہ کی ایک شاخ وجود میں آئی جسے ''ایپسٹومولوجی'' (Epistemology) کہتے ہیں۔ یہ یونانی زبان سے اخذ شدہ الفاظ Episteme اور logos کا مجموعہ ہے جس کے معنی علم کی حقیقت یا تھیوری آف نالج (Theory of knowledge) کے ہیں۔
علم کی جو منطقی تعریف ہے ''کسی بھی شے کا عکس انسان کے دماغ یا فکر میں بننا'' اگر اس تعریف کی تفسیر کی جائے تو سب سے پہلے تو انسانی تفکر کو آئینے کی تمثیل بنایا گیا، یاد رہے آئینہ بالکل برابر اور مکمل شبیہہ پیش کرتا ہے اور قابلِ غور بات تو یہ ہے کہ جیسے ہی آئینہ کے سامنے کھڑی شے کی شکل و ماہیت بدلتی ہے اسی لمحے عکس میں بھی تبدیلی ظاہر ہوجاتی ہے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ اس کا آئنیہ فکر کس قدر پاک و شفاف ہے؟ وہ کس قدر منطقی غلطیوں سے ماورا ہوکر سوچتا ہے۔ جس قدر انسانی عقل میں نکھار ہوگا، نظریات کی اتنی ہی بہتر تصویر اس کو نظر آئے گی۔
یہ تعریف میرے خیال میں پھر بھی سب سے وسیع اور آفاقی ہے کیونکہ یہ تمام علوم کو سموئے ہوئے ہے اس کےعلاوہ بھی علم کی تعریفات موجود ہیں جس کے تحت ''معلومات اور حقائق کا مجموعہ''، ''ادراکِ تعقلی و فکری'' وغیرہ۔ دراصل علم بذات خود ایک ایسی گنجلک اور پیچیدہ حقیقت ہے کہ ہزاروں سال سے اس پر قیاس آرائیاں ہورہی ہیں لیکن ایک مطلق تعریف کبھی نہ ہوسکی۔ یگانہ چنگیزی نے اسی خیال کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے،
بہرحال ایسی تفاسیر موجود ہیں جو ہماری ضرورت کو پورا کردیتی ہیں۔ علم کی تعریف متعین ہونے کے بعد علم کی اقسام، علم کا حصول زیر بحث آتے ہیں۔ علم کی بنیادی اقسام تین ہیں،
ذاتی علم ایسی معلومات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو آپ جانتے ہیں۔ جیسے کہ پاکستان کا وزیراعظم یا صدر کون ہے؟ یا آپ کے گھر میں کتنے افراد ہیں؟ ذاتی علم کی کڑیاں جڑنے سے ہی کسی نظریے کے درست یا غلط ہونے کی تحقیق کی جاسکتی ہے۔ یہ معلوم ہونا کہ افلاطون کا شاعری کے بارے میں کیا نظریہ تھا؟ یا نیوٹن کا کششِ ثقل کے بارے میں کیا رائے تھی؟ معلومات کا حصہ رہتی ہے لیکن جیسے ہی تحقیقی نکتہ نگاہ سے اس کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق ہوجائے تو یہ علم کا باقاعدہ حصہ بن جاتی ہے۔
سلسلہ وار یا پروسیجرنل نالج تجربات پر مشتمل ہے جو سلسلہ وار جاری رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر سائیکل کیسے چلاتے ہیں؟ کیلکولیٹر چلانے کا طریقہ کیا ہے؟۔
حقائق کا علم زیادہ تر تحقیقی، فلسفیانہ اور سائنسی کام اس کا حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو کسی بات، کسی نظریے کی حقیقت بیان کرتا ہے کہ آیا یہ درست ہے یا غلط، اور اسی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے علمِ منطق کو استعمال کیا جاتا ہے اور مختلف زاویوں سے پرکھا جاتا ہے۔
علم کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟ اس پر فلسفہ میں تین بنیادی گروہ موجود ہیں۔ ایک ریشنل ازم (Rationalism)، اور دوسرا امپریسیزم (Empiricism)۔ ان دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور متصادم ہیں، جب کہ تیسرا آئیڈیلزم (Idealism) ہے۔
ریشنل ازم کا بنیادی نظریہ ہے کہ کچھ علم انسان کو فطرت کی طرف سے ہی ودیعت کیا جاتا ہے، جس سے انسان عام چیزوں کو محسوس کرتا ہے اور علم کا بڑا حصہ ایسا موجود ہے جو بنیادی حسیات سے درک نہیں کیا جاسکتا، جیسے کہ ایک دائرہ میں 360 ڈگری ہونا، دو جمع دو چار ہونا۔
جبکہ اس کے برعکس امپریسیزم کا نظریہ کے مطابق انسان جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ اپنی حسیات سے ہی درک کرتا ہے۔ انسان کی پانچ حسیات ہی اس کی کائنات کو جاننے کے لئے ضروری اور مددگار ہیں۔ اس نظریے کے سرخیل فلاسفرز میں ڈیوڈ ہیوم، جان لاک رہے ہیں۔
پھر آئیڈیلزم کے مطابق انسان کی روح پہلے تمام چیزوں کو درک کرلیتی ہے لیکن جیسے ہی اسکا تعلق جسم سے ہوتا ہے تو سب کچھ بھول جاتی ہے۔ انسان دنیا میں جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ بنیادی طور پر صرف یاد دہانی ہی ہوتی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
ان نظریات کےعلاوہ اسلامی فلسفہ کا نظریہ بھی موجود ہے جس کے مطابق انسان کی فکر یا فطرت میں پہلے سے کچھ چیزیں موجود ہوتیں ہیں جو وہ یقینی طور پر جانتا ہے۔ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو رو کر اپنی زندگی کا اظہار کرتا ہے اس کے علاوہ بھی اخلاقیات کے کافی جذبے انسان کی فطرت میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
اور آخر میں ضمنی طور پر عرض کرتا چلوں کہ علم اعتقاد کی صورت بھی اختیار کرجاتا ہے (واضح رہے یہ ان عقائد کی بات نہیں ہورہی جو بغیر علم کے وجود میں آتے ہیں) جیسے کہ ایک دور تک زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا، یا زمین کی گردش کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور اس پر لوگوں کہ درمیان چپقلشیں، لڑائیاں حتیٰ کہ بات قتل تک بھی پہنچ جاتی۔ تاہم آج یہ ایسا سچ ہے جیسے اسکو کبھی ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ارتھر شوپنہار نے اسی حقیقت کو اپنے ایک قول میں بیان کیا،
[poll id="1011"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔ بچہ اس دنیا میں آیا دو تین برس گزرے تو اسے اسکول کا دیدار کرا دیا گیا۔ دن گزرتے گئے، اس کا ارتقا ہفتوں سے مہینوں اور پھر سالوں تک جا پہنچا۔ ظاہر ہے اتنی محنت کسی فالتو شے پر تو ہونے سے رہی اور حقیقت میں یہ شے بڑی قیمتی ہے جس کو ہم ''علم'' کے نام سے جانتے ہیں، لیکن ہوتا کیا ہے کہ ہم اس کے حصول میں اس قدر منہمک ہوجاتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ حاصل کیا کیا جارہا ہے۔ جی ہاں اصل سوال تو سب سے پہلے یہ ہے کہ جس چیز پر آپ زندگی لگا دیتے ہیں آخر وہ علم ہے کیا؟
مجھے یاد ہے کہ اس سوال کہ پیچھے میں بہت سرگرداں رہا کہ کوئی اہلِ علم یہ بتادے کہ جناب علم کیا ہے؟ کوئی قابلِ اطمینان جواب نہ پایا تو خود تحقیق میں لگ گئے۔ شروع شروع میں تو یہاں بھی لاچاری اور ضعفِ فکری نے گھیرلیا کہ بھائی اسقدر دقیق نظریات اور پھر نظریات کی گہرائی تو برداشت لیکن گوناگوں آراء کا دلدل ۔۔۔۔۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ نظریات جس قدر زیادہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں، علم کا ارتقاء بھی اسی حساب سے ہوتا ہے۔ محض ایک حتمی نظریہ موجود ہو تو عملی طور پر یہ کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا کرتا لیکن، جب مختلف آراء ہوں تو ایک تنقیدی اور تعمیری سوچ کے ذریعے پرکھنے کے بعد ایک زیادہ حقیقت پسند نظریہ قائم کیا جاسکتا ہے اور اسطرح علم کی ترقی چلتی رہتی ہے۔
علم کیا ہے؟ یہ سوال اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ علم کی تاریخ پرانی ہے اور اتنا ہی جدید ہے جتنا کہ آج کی ارتقائی علمی و تحقیقی ماہیت، قدیم یونان کے فلسفہ دانوں نے یہ سوال اٹھایا کہ علم کہتے کسے ہیں؟ علم حاصل کیسے کیا جاتا ہے؟ علم حاصل کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟ علم حاصل کرنے کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ جس کے بعد فلسفہ کی ایک شاخ وجود میں آئی جسے ''ایپسٹومولوجی'' (Epistemology) کہتے ہیں۔ یہ یونانی زبان سے اخذ شدہ الفاظ Episteme اور logos کا مجموعہ ہے جس کے معنی علم کی حقیقت یا تھیوری آف نالج (Theory of knowledge) کے ہیں۔
علم کی جو منطقی تعریف ہے ''کسی بھی شے کا عکس انسان کے دماغ یا فکر میں بننا'' اگر اس تعریف کی تفسیر کی جائے تو سب سے پہلے تو انسانی تفکر کو آئینے کی تمثیل بنایا گیا، یاد رہے آئینہ بالکل برابر اور مکمل شبیہہ پیش کرتا ہے اور قابلِ غور بات تو یہ ہے کہ جیسے ہی آئینہ کے سامنے کھڑی شے کی شکل و ماہیت بدلتی ہے اسی لمحے عکس میں بھی تبدیلی ظاہر ہوجاتی ہے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ اس کا آئنیہ فکر کس قدر پاک و شفاف ہے؟ وہ کس قدر منطقی غلطیوں سے ماورا ہوکر سوچتا ہے۔ جس قدر انسانی عقل میں نکھار ہوگا، نظریات کی اتنی ہی بہتر تصویر اس کو نظر آئے گی۔
یہ تعریف میرے خیال میں پھر بھی سب سے وسیع اور آفاقی ہے کیونکہ یہ تمام علوم کو سموئے ہوئے ہے اس کےعلاوہ بھی علم کی تعریفات موجود ہیں جس کے تحت ''معلومات اور حقائق کا مجموعہ''، ''ادراکِ تعقلی و فکری'' وغیرہ۔ دراصل علم بذات خود ایک ایسی گنجلک اور پیچیدہ حقیقت ہے کہ ہزاروں سال سے اس پر قیاس آرائیاں ہورہی ہیں لیکن ایک مطلق تعریف کبھی نہ ہوسکی۔ یگانہ چنگیزی نے اسی خیال کو شعر کی صورت میں بیان کیا ہے،
علم کیا، علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
بہرحال ایسی تفاسیر موجود ہیں جو ہماری ضرورت کو پورا کردیتی ہیں۔ علم کی تعریف متعین ہونے کے بعد علم کی اقسام، علم کا حصول زیر بحث آتے ہیں۔ علم کی بنیادی اقسام تین ہیں،
- ذاتی علم
- سلسلہ وار علم
- حقائق کا علم
- ذاتی علم
ذاتی علم ایسی معلومات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو آپ جانتے ہیں۔ جیسے کہ پاکستان کا وزیراعظم یا صدر کون ہے؟ یا آپ کے گھر میں کتنے افراد ہیں؟ ذاتی علم کی کڑیاں جڑنے سے ہی کسی نظریے کے درست یا غلط ہونے کی تحقیق کی جاسکتی ہے۔ یہ معلوم ہونا کہ افلاطون کا شاعری کے بارے میں کیا نظریہ تھا؟ یا نیوٹن کا کششِ ثقل کے بارے میں کیا رائے تھی؟ معلومات کا حصہ رہتی ہے لیکن جیسے ہی تحقیقی نکتہ نگاہ سے اس کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق ہوجائے تو یہ علم کا باقاعدہ حصہ بن جاتی ہے۔
- سلسلہ وار علم
سلسلہ وار یا پروسیجرنل نالج تجربات پر مشتمل ہے جو سلسلہ وار جاری رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر سائیکل کیسے چلاتے ہیں؟ کیلکولیٹر چلانے کا طریقہ کیا ہے؟۔
- حقائق کا علم
حقائق کا علم زیادہ تر تحقیقی، فلسفیانہ اور سائنسی کام اس کا حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو کسی بات، کسی نظریے کی حقیقت بیان کرتا ہے کہ آیا یہ درست ہے یا غلط، اور اسی کے نتائج حاصل کرنے کے لئے علمِ منطق کو استعمال کیا جاتا ہے اور مختلف زاویوں سے پرکھا جاتا ہے۔
علم کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟ اس پر فلسفہ میں تین بنیادی گروہ موجود ہیں۔ ایک ریشنل ازم (Rationalism)، اور دوسرا امپریسیزم (Empiricism)۔ ان دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور متصادم ہیں، جب کہ تیسرا آئیڈیلزم (Idealism) ہے۔
- ریشنل ازم (Rationalism)
ریشنل ازم کا بنیادی نظریہ ہے کہ کچھ علم انسان کو فطرت کی طرف سے ہی ودیعت کیا جاتا ہے، جس سے انسان عام چیزوں کو محسوس کرتا ہے اور علم کا بڑا حصہ ایسا موجود ہے جو بنیادی حسیات سے درک نہیں کیا جاسکتا، جیسے کہ ایک دائرہ میں 360 ڈگری ہونا، دو جمع دو چار ہونا۔
- امپریسیزم (Empiricism)
جبکہ اس کے برعکس امپریسیزم کا نظریہ کے مطابق انسان جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ اپنی حسیات سے ہی درک کرتا ہے۔ انسان کی پانچ حسیات ہی اس کی کائنات کو جاننے کے لئے ضروری اور مددگار ہیں۔ اس نظریے کے سرخیل فلاسفرز میں ڈیوڈ ہیوم، جان لاک رہے ہیں۔
- آئیڈیلزم (Idealism)
پھر آئیڈیلزم کے مطابق انسان کی روح پہلے تمام چیزوں کو درک کرلیتی ہے لیکن جیسے ہی اسکا تعلق جسم سے ہوتا ہے تو سب کچھ بھول جاتی ہے۔ انسان دنیا میں جو کچھ بھی سیکھتا ہے وہ بنیادی طور پر صرف یاد دہانی ہی ہوتی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔
ان نظریات کےعلاوہ اسلامی فلسفہ کا نظریہ بھی موجود ہے جس کے مطابق انسان کی فکر یا فطرت میں پہلے سے کچھ چیزیں موجود ہوتیں ہیں جو وہ یقینی طور پر جانتا ہے۔ بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو رو کر اپنی زندگی کا اظہار کرتا ہے اس کے علاوہ بھی اخلاقیات کے کافی جذبے انسان کی فطرت میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
اور آخر میں ضمنی طور پر عرض کرتا چلوں کہ علم اعتقاد کی صورت بھی اختیار کرجاتا ہے (واضح رہے یہ ان عقائد کی بات نہیں ہورہی جو بغیر علم کے وجود میں آتے ہیں) جیسے کہ ایک دور تک زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا، یا زمین کی گردش کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور اس پر لوگوں کہ درمیان چپقلشیں، لڑائیاں حتیٰ کہ بات قتل تک بھی پہنچ جاتی۔ تاہم آج یہ ایسا سچ ہے جیسے اسکو کبھی ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ ارتھر شوپنہار نے اسی حقیقت کو اپنے ایک قول میں بیان کیا،
سچ تین مرحلوں سے گزرتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، دوسرے مرحلے میں اس کی متشدد طریقے سے مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں اسے یوں تسلیم کرلیا جاتا ہے جیسے اس سچائی کو کبھی ثبوت کی ضرورت ہی نہیں تھی''۔
[poll id="1011"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔