بُری خبروں کا زمانہ

پنجابی یا پٹھان ہیں تو بلوچ علیحدگی پسند آپ کو مار ڈالیں گے۔ بلوچ ہیں تو ادارے آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔

Abbasather@express.com.pk

ROSARIO, ARGENTINA:
اب یہ بات بہت پرانی ہو گئی ہے کہ ہر دن اچھی خبر کی امید پر طلوع ہوتا ہے، نئی بات یہ ہے کہ اب ہر صبح بری خبروں کے اندیشوں کے ساتھ طلوع ہوتی ہے اور پھر شام تک یہ اندیشے ایک ایک کر کے پورے ہوتے جاتے ہیں۔

بُری خبریں یوں تو ملک کے ہر حصے سے اور کثرت سے آ رہی ہیں لیکن کراچی اور بلوچستان میں تو خیر کی کوئی گھڑی گزرتی ہی نہیں۔ دونوں علاقوں میں کثیرالجہتی دہشت گردی ہو رہی ہے اور لگتا ہے کہ دہشت گردوں کے کئی جال اوپر تلے بچھ کر باہم ایسے اُلجھ گئے ہیں کہ کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس جال کا تانا کس جال کے بانے سے جڑ گیا ہے۔ جب سرا ہی ہاتھ نہیں آئے گا تو کوئی حل کیا نکالے گا۔ ریاستی مشینری مرض کے علاج تو کیا اس کی تشخیص کی صلاحیت سے بھی محروم نظر آ رہی ہے۔ کوئی امید کرے بھی تو کیسے۔ کراچی میں رینجرز کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ پہلے سے جاری تشویشناک حالات میں ایک نئی تشویش کا اضافہ ہے۔

یہ حملہ یا دھماکا ایسے وقت میں ہوا ہے جب کراچی میں ہتھیاروں کی نمائش جاری ہے۔ اس دھماکے سے کیا پیغام جائے گا۔ ایسے وقت میں جب سیکیورٹی ہائی الرٹ ہوتی ہے اور خاص طور سے جب یہ پیشگی خبر بھی آ گئی ہو کہ رینجرز ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہو سکتا ہے اور جب سچ مچ ایسا ہو جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی حفاظت کے ذمے دار اپنی حفاظت کے قابل بھی نہیں رہے۔ جی ایچ کیو، ایئر فورس کی تنصیبات اور نیول ہیڈ کوارٹر پر حملوں نے یہی کمزوری پہلے بھی ظاہر کر دی تھی۔ رینجرز کا ہیڈ کوارٹر ان تینوں کے مقابلے میں ذرا کم اہم ہے لیکن اتنا بھی کم اہم نہیں بلکہ پولیس ہیڈ کوارٹر کی نسبت یہ زیادہ حساس جگہ ہے اور جہاں تک پولیس کا ذکر ہے تو کراچی میں ہر روز اگر 12 14 لاشیں گرنا معمول بن گیا ہے تو ایک دو پولیس افسروں اور اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ بھی روز مرہ کا معمول بن گئی ہے۔ پولیس اور حساس اداروں کے اہلکاروں پر حملہ اب ہر روز کی خبر ہے اور صرف کراچی ہی میں نہیں، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی۔

پنجاب جیسے ''دہشت گردی سے پاک'' صوبے میں بھی پولیس اہلکاروں کے قتل کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ جس ملک میں سیکیورٹی فورسز مسلسل حملوں کی زد میں ہوں، وہاں لا اینڈ آرڈر کو مرحوم ہی سمجھا جاتا ہے۔ حکومت نے اپنی رٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ہی قائم کرنی ہوتی ہے اور جب قانون نافذ کرنے والے اہلکار سڑکوں پر یوں چلیں کہ ان پر پتہ کھڑکا دل دھڑکا کی سی کیفیت طاری ہو تو پھر کہاں کی حکومت، کیسی رٹ اور کیسا امن و امان۔ دہشت گردی کا ایک سلسلہ وہ ہے جو طالبان مذہبی انتہا پسندوں اور ڈرون حملوں وغیرہ سے متعلق ہے۔ یہ سلسلہ عالمی دہشت گردی کی جنگ کا حصہ ہے اور مشرف کا تقریباًسارا دور اور موجودہ حکومت کے شروع کے دو اڑھائی سال اس جنگ میں گزرے۔ پھر دوسرے سلسلے بھی میدان جنگ میں آ گھسے اور دیکھتے ہی دیکھتے یوں لگنے لگا کہ میدان پر ان نو واردوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔


ان نو واردوں میں ایک طرف طرح طرح کے مافیا، لسانی اور مسلکی گروہ ہیں تو دوسری طرف قومیتی علیحدگی پسند گروہ۔ بلوچستان کا منظر کراچی سے جدا ہے۔ وہاں ایجنسیوں اور قومیتی گروہوں میں الگ معرکہ برپا ہے اور ایرانی بلوچستان کے ان علیحدگی پسندوں نے الگ میدان کار زار سجا رکھا ہے جو ایران سے بھاگ کر بلوچستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کا نشانہ ہزارہ قبیلے کے لوگ ہیں جو کوئٹہ اور اس کے اردگرد کے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند پنجابیوں کے بعد پٹھانوں کو بھی نشانہ بنانے لگے ہیں اور خود ایجنسیوں کے نشانے پر ہیں یعنی بلوچستان میں آپ کسی بھی رنگ نسل سے تعلق رکھتے ہوں، غیر محفوظ ہیں۔

پنجابی یا پٹھان ہیں تو بلوچ علیحدگی پسند آپ کو مار ڈالیں گے۔ بلوچ ہیں تو ادارے آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہزاروی ہیں تو جند اللہ والے اڑا دیں گے اور کراچی میں طرح طرح کے جرائم پیشہ گروہ دندنا رہے ہیں۔ ممبئی میں انڈر ورلڈ تھی، یہاں تو ''اوور ورلڈ'' ہی ان لوگوں کے قبضے میں ہے اور جان اس کی بچے گی جو انڈر گرائونڈ ہو جائے یعنی زیر زمین چلا جائے۔ ستم ظریفی دیکھیے، کراچی کی ہر جماعت چاہے متحدہ ہو یا حقیقی، پیپلز پارٹی ہو یا اے این پی، سنی تحریک ہو یا کالعدم سپاہ صحابہ، اصحاب فقہ جعفریہ ہوں یا جماعت اسلامی، ہر ایک کا ایک ہی بیان ہے کہ شہر سے بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف کارروائی کی جائے۔

مطلب یہ کہ تشدد کرنے والوں کا تعلق ان میں سے کسی کے ساتھ نہیں۔ ان سب کے ہاتھ صاف ہیں، عام شہری حیران کھڑا ہے کہ جن کے ہاتھ خون سے رنگین ہیں، وہ کون ہیں؟ کہاں رہتے ہیں؟ ان کا تعلق کس جماعت سے ہے؟ انھوں نے کون سی سلیمانی ٹوپی پہنی ہے کہ پولیس کو نظر آتے ہیں نہ رینجرز کو اور نہ ہی انٹیلی جنس والوں کو؟ اندھیرے میں بھی دیکھ لینے والی آنکھیں انھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ کل کراچی میں رینجرز کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہوا، اس سے ایک دن پہلے پشاور میں ایک سینئر پولیس افسر کو ساتھیوں سمیت شہید کر دیا گیا۔کراچی میں ہر روز 12 ،14 بلکہ کبھی 20،25 لاشیں گر رہی ہیں اور اب لاشیں گرنے کے دائرہ میں حیدر آباد بھی شامل ہو گیا ہے اور ایک مزید نئی بات یہ ہوئی ہے کہ بوہرہ برادری بھی جو سیاسی اعتبار سے تین میں ہے نہ تیرہ میں، دہشت گردوں کے نشانے پر آ گئی ہے۔ یہ برادری شہری سندھ کا شاید سب سے دولت مند کاروباری گروہ ہے۔

دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ نادیدہ دشمن کا ہدف بوہرہ نہیں، شہری سندھ کی کاروباری سرگرمیاں ہیں۔ سماجی زندگی تو دشمن نے تباہ کر دی اب، وہ شہری سندھ کی معیشت کو بھی مفلوج کر رہا ہے۔ ایسے میں الطاف حسین کا یہ بیان بالکل درست ہے کہ حکومتیں امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ اسے مستعفی ہو جانا چاہیے۔ الطاف حسین کے بیان کی تائیدکیے بغیر چارہ نہیں اور یہ پوچھنے کا حوصلہ نہیں پڑتا کہ الطاف حسین کی جماعت انھیں حکومتوں کا لازم و ملزوم بھی ہے۔
Load Next Story