بک شیلف
زیر تبصرہ کتاب سینئر افسانہ نگار، طاہر نقوی کے افسانوں کا پانچواں مجموعہ ہے۔
کوؤں کی بستی میں ایک آدمی (افسانے)
مصنف: طاہر نقوی
اہتمامِ اشاعت: ادارہ ممتاز مطبوعات، کراچی
قیمت: 300
صفحات: 160
زیر تبصرہ کتاب سینئر افسانہ نگار، طاہر نقوی کے افسانوں کا پانچواں مجموعہ ہے۔ اِس سے قبل اُن کے چار مجموعے ''بند لبوں کی چیخ''، ''حبس کے بعد پہلی بارش''، ''شام کا پرندہ'' اور ''دیر کبھی نہیں ہوتی'' شایع ہو کر ناقدین اور قارئین سے پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ وہ ڈراما نگار کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔
طاہر نقوی جدید افسانے کے علم برداروں میں سے ہیں۔ زیر تبصرہ مجموعے میں بھی جدید فکر غالب نظر آتی ہے۔ مجموعہ 32 افسانوں پر مشتمل ہے۔ عنوان، کتاب میں شامل پہلے افسانے سے لیا گیا ہے۔ مجموعے پر کسی کی رائے موجود نہیں، البتہ ''بیک فلیپ'' پر منصف کی دیگر کُتب کی تفصیلات درج ہیں۔
فنّی محاسن پر بات کی جائے، تو اختصار نویسی اُن کے افسانوں کا حسن ہے۔ جملے اور مکالمے بھی مختصر ہیں، البتہ اُن کا طرز تحریر رواں ہے، جو بیانیے کی اثرپذیری کو مہمیز کرتا ہے۔ اِس خوبی کے طفیل ابلاغی عمل سہل ہوجاتا ہے، اور خیال، اپنی تمام تر گہرائی کے باوجود، بہ آسانی قاری تک پہنچ جاتا ہے۔ اُن کے افسانوں میں جہاں سماجی مسائل ملتے ہیں، وہیں قاری ان پیچیدگیوں کے نفسیاتی اثرات سے بھی روبرو ہوتا ہے۔ اس مجموعے میں علامت نگاری کا کام یاب تجربہ ملتا ہے، جس کی بڑی مثال مجموعے میں شامل پہلا افسانہ ''کوئوں کی بستی میں ایک آدمی'' ہے، جس میں مرکزی کردار ایک گم شدہ لفظ کی تلاش میں نکلتا ہے، اور زنداں تک جا پہنچتا ہے، جہاں وہ لفظ کو قید پاتا ہے۔ بیش تر افسانوں کے مرکزی کردار اپنے آدرشوں کے باعث اردگرد کے ماحول سے علیحدہ نظر آتے ہیں، ایک طرح سے وہ خود کو ''مس فٹ'' محسوس کرتے ہیں۔ افسانہ نگار نے اِن پیچیدہ کرداروں کو بڑی خوب صورتی سے منظر کیا ہے۔
تیر ے فراق میں (ناولٹ)
مصنف: شیردل غیب
صفحات: 88
قیمت:150
ناشر: مہردر، کوئٹہ
''تیرے فراق میں'' بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان لکھاری، شیردل غیب کی پہلی ادبی کاوش ہے۔ کتاب کا ''فلیپ'' نوجوان ادیب اور صحافی عابد میر نے لکھا ہے۔ یہ ناولٹ بلوچستان یونیورسٹی میں جنم لینے والے محبت کے ایک ایسے تجربے کی کہانی بیان کرتا ہے، جس کا انجام ناکامی پر ہوتا ہے۔ بہ ظاہر محبت کی کہانی، خصوصاً اگر وہ یونیورسٹی میں جنم لے، روایتی رنگ میں رنگی ہوتی ہیں، اور یہ کہانی بھی بہ قول عابد میر روایتی ہے، تاہم متاثر کُن طرز تحریر کا حامل، چست جملوں سے سجا، یہ ناولٹ فقط محبت کی کہانی نہیں۔ اِس میں بلوچستان کے معروضی حالات کا، پختگی کے ساتھ، پُراثر تذکرہ ملتا ہے۔ ماجرے میں عصری شعور دوڑتا نظر آتا ہے، اور قاری کو جبر کے المیے سے، جس کی بُنت ناول نگار نے بڑی خوب صورتی سے کی ہے، روبرو ہونے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔
تربت سے چالیس کلومیٹر دور واقع ''شاپک'' میں پیدا ہونے والے شیردل کے زیرتبصرہ ناولٹ میں وہ امکانات موجود ہیں، جو مستقبل میں اُن سے بڑا ادب تخلیق کروا سکتے ہیں۔
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)
ایک مصنف، دو کتابیں
لمحۂ فکر
شاعرہ اور مصنف: نعیم فاطمہ توفیق
ناشر:لائبریری پروموشن بیورو
صفحات:176
قیمت:200 روپے
دعوت ِفکر
صفحات : 160
قیمت : 200 روپے
شاعری اور افسانہ دونوں ہی اردو ادب کی اہم ترین اصناف ہیں۔ شاعری کی بات کی جائے تو میر، سودا، غالب، مومن، حالی اور اقبال، پھر جدید عہد تک آجائیں تو فراق، یگانہ، ن م راشد، فیض احمد فیض، عزیز حامد مدنی اور جون ایلیا وغیرہ تک ایک رنگا رنگ کہکشاں پھیلی ہوئی ہے، لیکن 1927، میں آنکھ کھولنے والی نعیم فاطمہ توفیق صاحبہ کا معاملہ دوسرا ہے۔ انہوں نے شاعری کی جانب مراجعت کسی طے شدہ منصوبے کے تحت نہیں کی۔
اسی لیے ان کی شاعری میں شعر کے بنیادی لوازمات کی تلاش کار ِعبث ہے۔ نعیم فاطمہ توفیق خود اپنی شاعری کے بارے میں رقم طراز ہیں،''ہم وطنوں کے دن رات، خود ساختہ سیاسی، سماجی، تہذیبی، تمدنی اور تعلیمی انحطاط کے بھیانک مسائل، جنہوں نے قوم و ملک کو منتشر کرکے تباہی کے دہانے تک پہنچادیا ہے، دل کو خون کے آنسو رلاتے ہیں۔'' ظاہر ہے کہ ان معاملات کے باعث محترمہ نے شاعری شروع کردی۔ ان دنوں وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ اس لیے اپنے وطن کے ابتر حالات انہیں مزید پریشان رکھتے ہوں گے۔
یوں ''لمحہ ِفکر'' کی شاعری ایک درد مند دل رکھنے والی خاتون کی ڈائری تصور کی جاسکتی ہے، جن کی زندگی درس و تدریس میں گزری ہے، اور اب وہ وطن سے دور ہونے کی وجہ سے رات دن اہل وطن کی بہتری کے کڑھتی رہتی ہیں۔ تاہم شاعری کے بنیادی اصول اپنی جگہ مُسلّم ہیں اور محترمہ نعیم فاطمہ توفیق کو اس جانب ضرور توجہ کرنی چاہیے۔ ''دعوت ِفکر'' بھی محترمہ نعیم فاطمہ توفیق ہی کی نثری کاوش ہے۔ اس کتاب میں محترمہ نے اپنے فکری بہائو کو چند حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
پہلے حصے میں فانی زندگی کی چند حقیقتیں کے عنوان سے ایک مختصر تحریر دی گئی ہے۔ دوسری حصے میں مختلف عنوانات کے تحت چند مضامین ہیں، جن میں جنریشن گیپ ، ماں، دہشت گردی، روشن اندھیرے اور تجدیدِ ایمان، کے عنوانات کے تحت مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں نعیم فاطمہ توفیق نے چند سچی کہانیاں جمع کردی ہیں۔ اردو ادب میں نثری روایت بھی شاعری کے مقابلے میں کم عمر ہونے کے باوجود بڑی تاب ناک ہے۔ تاہم یہاں بھی اپنی شاعری کی طرح خاتون نے اس روایت سے استفادہ کرنے کے بہ جائے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہا ہے۔
اچھی نثر لکھنا بھی ایک زبردست آرٹ ہے اور اس کے لیے مطالعہ اور وسیع مطالعہ یقیناً مہمیز کا کام کرتا ہے، لیکن محترمہ کا معاملہ یہاں بھی شوق کی حد نظر آتا ہے۔ آئیے! ان کی نثر کی چند سطریں بھی دیکھتے چلیں،''شاید میں زیادہ حساس ہوں اور دوسروں کا درد زیادہ محسوس کرنے والا دل رکھتی ہوں، جو کچھ اپنے چاروں طرف دیکھتی ہوں، محسوس کرتی ہوں اس کے گہرے اثرات دل ودماغ پر ہوتے ہیں۔'' پھر یہ احساسات محترمہ نعیم فاطمہ توفیق کے قلم سے کاغذ پر اترنے لگتے ہیں بغیر کسی منصوبہ بندی اور کسی مرتب فکری نظام کے۔
تاہم یہ تحریریں ایک سطح پر معاشرے کی عمومی سوچ سے ضرور متعارف کراتی ہیں اور ان تحریروں کے پیچھے چُھپے حساس دل کی تمنائوں اور آرزوؤں کا ادراک بھی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔اب یہ محترمہ نعیم فاطمہ توفیق پر ہے کہ وہ آیندہ اپنی تحریروں کو کتنے کڑے انتخاب سے گزارتی ہیں۔
(تبصرہ نگار: کتاب دوست)
عظیم شخصیات کے عظیم نظریات
مصنفہ: ساجدہ زیدی
ناشر: سٹی بُک پوائنٹ، کراچی
صفحات: 478
قیمت: 600روپے
ہمارا ہر عمل کسی سوچ کا آئینہ داری کرتا ہے اور اس سوچ کے پیچھے کوئی عقیدہ کوئی نظریہ کار فرما ہوتا ہے۔ خواہ ہم اس حقیقت سے واقف ہوں یا نہ ہوں کہ اپنے نزدیک جسے ہم اپنی رائے، اپنا مقصد حیات اور اپنی فکر سمجھ بیٹھے ہیں، وہ کسی ایسے نظریے کا پرتو ہے، جس کے خالق نے زمان ومکان طویل فاصلے پر یہ شمع روشن کی تھی۔ اسی لیے فلسفہ، نظریات اور افکار کا مطالعہ ہمیں ان سے آگاہی دیتا ہے بلکہ خود اپنی فکر کی پرتیں کھولنے اور نظریات کے تقابل میں بھی مدد دیتا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ایک ایسی ہی کاوش ہے جس کا مطالعہ ہمیں ان نظریات کو مجمل طور سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
کتاب میں سماجیات اور نفسیات کے حوالے سے اہمیت رکھنے اور اثرانداز ہونے والے نظریات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ جن مفکرین کے نظریات اس کتاب کا حصہ بنے ہیں ان میں سگمنڈ فرائڈ، سی جی ینگ، ایلفر ڈایڈلر، ہیرلڈ ایچ موزاک، اسٹینلے شیچر، ایرک فروم، از ماٹن کپلانی، ارون سنگر، کیرن ہورنی، ہیری اسٹیک سلیوان، روبرٹ ایل رومانو اور ہنری اے مری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خود کتاب کی مصنفہ ساجدہ زیدی کے تین گراں قدر مضامین بھی شاملِ کتاب ہیں۔ سنجیدہ موضوعات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک وقیع کتاب ہے۔
(تبصرہ نگار: محمد عثمان جامعی)
مصنف: طاہر نقوی
اہتمامِ اشاعت: ادارہ ممتاز مطبوعات، کراچی
قیمت: 300
صفحات: 160
زیر تبصرہ کتاب سینئر افسانہ نگار، طاہر نقوی کے افسانوں کا پانچواں مجموعہ ہے۔ اِس سے قبل اُن کے چار مجموعے ''بند لبوں کی چیخ''، ''حبس کے بعد پہلی بارش''، ''شام کا پرندہ'' اور ''دیر کبھی نہیں ہوتی'' شایع ہو کر ناقدین اور قارئین سے پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔ وہ ڈراما نگار کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔
طاہر نقوی جدید افسانے کے علم برداروں میں سے ہیں۔ زیر تبصرہ مجموعے میں بھی جدید فکر غالب نظر آتی ہے۔ مجموعہ 32 افسانوں پر مشتمل ہے۔ عنوان، کتاب میں شامل پہلے افسانے سے لیا گیا ہے۔ مجموعے پر کسی کی رائے موجود نہیں، البتہ ''بیک فلیپ'' پر منصف کی دیگر کُتب کی تفصیلات درج ہیں۔
فنّی محاسن پر بات کی جائے، تو اختصار نویسی اُن کے افسانوں کا حسن ہے۔ جملے اور مکالمے بھی مختصر ہیں، البتہ اُن کا طرز تحریر رواں ہے، جو بیانیے کی اثرپذیری کو مہمیز کرتا ہے۔ اِس خوبی کے طفیل ابلاغی عمل سہل ہوجاتا ہے، اور خیال، اپنی تمام تر گہرائی کے باوجود، بہ آسانی قاری تک پہنچ جاتا ہے۔ اُن کے افسانوں میں جہاں سماجی مسائل ملتے ہیں، وہیں قاری ان پیچیدگیوں کے نفسیاتی اثرات سے بھی روبرو ہوتا ہے۔ اس مجموعے میں علامت نگاری کا کام یاب تجربہ ملتا ہے، جس کی بڑی مثال مجموعے میں شامل پہلا افسانہ ''کوئوں کی بستی میں ایک آدمی'' ہے، جس میں مرکزی کردار ایک گم شدہ لفظ کی تلاش میں نکلتا ہے، اور زنداں تک جا پہنچتا ہے، جہاں وہ لفظ کو قید پاتا ہے۔ بیش تر افسانوں کے مرکزی کردار اپنے آدرشوں کے باعث اردگرد کے ماحول سے علیحدہ نظر آتے ہیں، ایک طرح سے وہ خود کو ''مس فٹ'' محسوس کرتے ہیں۔ افسانہ نگار نے اِن پیچیدہ کرداروں کو بڑی خوب صورتی سے منظر کیا ہے۔
تیر ے فراق میں (ناولٹ)
مصنف: شیردل غیب
صفحات: 88
قیمت:150
ناشر: مہردر، کوئٹہ
''تیرے فراق میں'' بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان لکھاری، شیردل غیب کی پہلی ادبی کاوش ہے۔ کتاب کا ''فلیپ'' نوجوان ادیب اور صحافی عابد میر نے لکھا ہے۔ یہ ناولٹ بلوچستان یونیورسٹی میں جنم لینے والے محبت کے ایک ایسے تجربے کی کہانی بیان کرتا ہے، جس کا انجام ناکامی پر ہوتا ہے۔ بہ ظاہر محبت کی کہانی، خصوصاً اگر وہ یونیورسٹی میں جنم لے، روایتی رنگ میں رنگی ہوتی ہیں، اور یہ کہانی بھی بہ قول عابد میر روایتی ہے، تاہم متاثر کُن طرز تحریر کا حامل، چست جملوں سے سجا، یہ ناولٹ فقط محبت کی کہانی نہیں۔ اِس میں بلوچستان کے معروضی حالات کا، پختگی کے ساتھ، پُراثر تذکرہ ملتا ہے۔ ماجرے میں عصری شعور دوڑتا نظر آتا ہے، اور قاری کو جبر کے المیے سے، جس کی بُنت ناول نگار نے بڑی خوب صورتی سے کی ہے، روبرو ہونے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔
تربت سے چالیس کلومیٹر دور واقع ''شاپک'' میں پیدا ہونے والے شیردل کے زیرتبصرہ ناولٹ میں وہ امکانات موجود ہیں، جو مستقبل میں اُن سے بڑا ادب تخلیق کروا سکتے ہیں۔
(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)
ایک مصنف، دو کتابیں
لمحۂ فکر
شاعرہ اور مصنف: نعیم فاطمہ توفیق
ناشر:لائبریری پروموشن بیورو
صفحات:176
قیمت:200 روپے
دعوت ِفکر
صفحات : 160
قیمت : 200 روپے
شاعری اور افسانہ دونوں ہی اردو ادب کی اہم ترین اصناف ہیں۔ شاعری کی بات کی جائے تو میر، سودا، غالب، مومن، حالی اور اقبال، پھر جدید عہد تک آجائیں تو فراق، یگانہ، ن م راشد، فیض احمد فیض، عزیز حامد مدنی اور جون ایلیا وغیرہ تک ایک رنگا رنگ کہکشاں پھیلی ہوئی ہے، لیکن 1927، میں آنکھ کھولنے والی نعیم فاطمہ توفیق صاحبہ کا معاملہ دوسرا ہے۔ انہوں نے شاعری کی جانب مراجعت کسی طے شدہ منصوبے کے تحت نہیں کی۔
اسی لیے ان کی شاعری میں شعر کے بنیادی لوازمات کی تلاش کار ِعبث ہے۔ نعیم فاطمہ توفیق خود اپنی شاعری کے بارے میں رقم طراز ہیں،''ہم وطنوں کے دن رات، خود ساختہ سیاسی، سماجی، تہذیبی، تمدنی اور تعلیمی انحطاط کے بھیانک مسائل، جنہوں نے قوم و ملک کو منتشر کرکے تباہی کے دہانے تک پہنچادیا ہے، دل کو خون کے آنسو رلاتے ہیں۔'' ظاہر ہے کہ ان معاملات کے باعث محترمہ نے شاعری شروع کردی۔ ان دنوں وہ امریکا میں مقیم ہیں۔ اس لیے اپنے وطن کے ابتر حالات انہیں مزید پریشان رکھتے ہوں گے۔
یوں ''لمحہ ِفکر'' کی شاعری ایک درد مند دل رکھنے والی خاتون کی ڈائری تصور کی جاسکتی ہے، جن کی زندگی درس و تدریس میں گزری ہے، اور اب وہ وطن سے دور ہونے کی وجہ سے رات دن اہل وطن کی بہتری کے کڑھتی رہتی ہیں۔ تاہم شاعری کے بنیادی اصول اپنی جگہ مُسلّم ہیں اور محترمہ نعیم فاطمہ توفیق کو اس جانب ضرور توجہ کرنی چاہیے۔ ''دعوت ِفکر'' بھی محترمہ نعیم فاطمہ توفیق ہی کی نثری کاوش ہے۔ اس کتاب میں محترمہ نے اپنے فکری بہائو کو چند حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
پہلے حصے میں فانی زندگی کی چند حقیقتیں کے عنوان سے ایک مختصر تحریر دی گئی ہے۔ دوسری حصے میں مختلف عنوانات کے تحت چند مضامین ہیں، جن میں جنریشن گیپ ، ماں، دہشت گردی، روشن اندھیرے اور تجدیدِ ایمان، کے عنوانات کے تحت مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں نعیم فاطمہ توفیق نے چند سچی کہانیاں جمع کردی ہیں۔ اردو ادب میں نثری روایت بھی شاعری کے مقابلے میں کم عمر ہونے کے باوجود بڑی تاب ناک ہے۔ تاہم یہاں بھی اپنی شاعری کی طرح خاتون نے اس روایت سے استفادہ کرنے کے بہ جائے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہا ہے۔
اچھی نثر لکھنا بھی ایک زبردست آرٹ ہے اور اس کے لیے مطالعہ اور وسیع مطالعہ یقیناً مہمیز کا کام کرتا ہے، لیکن محترمہ کا معاملہ یہاں بھی شوق کی حد نظر آتا ہے۔ آئیے! ان کی نثر کی چند سطریں بھی دیکھتے چلیں،''شاید میں زیادہ حساس ہوں اور دوسروں کا درد زیادہ محسوس کرنے والا دل رکھتی ہوں، جو کچھ اپنے چاروں طرف دیکھتی ہوں، محسوس کرتی ہوں اس کے گہرے اثرات دل ودماغ پر ہوتے ہیں۔'' پھر یہ احساسات محترمہ نعیم فاطمہ توفیق کے قلم سے کاغذ پر اترنے لگتے ہیں بغیر کسی منصوبہ بندی اور کسی مرتب فکری نظام کے۔
تاہم یہ تحریریں ایک سطح پر معاشرے کی عمومی سوچ سے ضرور متعارف کراتی ہیں اور ان تحریروں کے پیچھے چُھپے حساس دل کی تمنائوں اور آرزوؤں کا ادراک بھی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔اب یہ محترمہ نعیم فاطمہ توفیق پر ہے کہ وہ آیندہ اپنی تحریروں کو کتنے کڑے انتخاب سے گزارتی ہیں۔
(تبصرہ نگار: کتاب دوست)
عظیم شخصیات کے عظیم نظریات
مصنفہ: ساجدہ زیدی
ناشر: سٹی بُک پوائنٹ، کراچی
صفحات: 478
قیمت: 600روپے
ہمارا ہر عمل کسی سوچ کا آئینہ داری کرتا ہے اور اس سوچ کے پیچھے کوئی عقیدہ کوئی نظریہ کار فرما ہوتا ہے۔ خواہ ہم اس حقیقت سے واقف ہوں یا نہ ہوں کہ اپنے نزدیک جسے ہم اپنی رائے، اپنا مقصد حیات اور اپنی فکر سمجھ بیٹھے ہیں، وہ کسی ایسے نظریے کا پرتو ہے، جس کے خالق نے زمان ومکان طویل فاصلے پر یہ شمع روشن کی تھی۔ اسی لیے فلسفہ، نظریات اور افکار کا مطالعہ ہمیں ان سے آگاہی دیتا ہے بلکہ خود اپنی فکر کی پرتیں کھولنے اور نظریات کے تقابل میں بھی مدد دیتا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ایک ایسی ہی کاوش ہے جس کا مطالعہ ہمیں ان نظریات کو مجمل طور سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
کتاب میں سماجیات اور نفسیات کے حوالے سے اہمیت رکھنے اور اثرانداز ہونے والے نظریات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ جن مفکرین کے نظریات اس کتاب کا حصہ بنے ہیں ان میں سگمنڈ فرائڈ، سی جی ینگ، ایلفر ڈایڈلر، ہیرلڈ ایچ موزاک، اسٹینلے شیچر، ایرک فروم، از ماٹن کپلانی، ارون سنگر، کیرن ہورنی، ہیری اسٹیک سلیوان، روبرٹ ایل رومانو اور ہنری اے مری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خود کتاب کی مصنفہ ساجدہ زیدی کے تین گراں قدر مضامین بھی شاملِ کتاب ہیں۔ سنجیدہ موضوعات سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک وقیع کتاب ہے۔
(تبصرہ نگار: محمد عثمان جامعی)