امریکا میں جنگل سے اُبھرتی پُراسرار موسیقی سے لوگ خوفزدہ
خوف کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے قصبے کے باشندے راتیں جاگ کر گزار رہے ہیں
RAWALPINDI:
پورٹ لینڈ امریکی ریاست اوریگن کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہر کے مضافات میں آباد فاریسٹ گرووکے مکین ان دنوں دہشت میں مبتلاہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے قصبے کے باشندے راتیں جاگ کر گزار رہے ہیں۔ ان کے خوف کا سبب شب میں سنائی دینے والی تیز موسیقی ہے۔ یہ آواز سیٹی او بانسری کی آواز سے ملتی جلتی مگر بہت تیز ہے جو قصبے سے متصل جنگل سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پُراسرار آواز صرف رات کے وقت سُنائی دیتی ہے اور اتنی تیز ہے کہ قصبے کے آخری سرے پر بنے ہوئے گھروں کے مکین بھی اسے سُن سکتے ہیں۔
22 ہزار 500 نفوس پر مشتمل قصبے میں اس پراسرار آواز نے دہشت پھیلادی ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے اور ماہرین موسیقی بھی آواز کے ماخذ کا سُراغ لگانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ ان کی ناکامی نے لوگوں کو مزید خوف میں مبتلا کردیا ہے، حالاں کہ محض موسیقی سُنائی دینے کے علاوہ انھیں ابھی تک کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
نہ تو قصبے کے کسی فرد کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے اور نہ ہی ان کے مویشیوں اور دوسری املاک کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے باوجود شب کی تاریکی میں ایک تسلسل کے ساتھ سُنائی دینے والی موسیقی نے انھیں دہشت زدہ کر رکھا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ قصبے پر جلد کوئی آفت نازل ہونے والی ہے، یہ آواز اسی بات کا اشارہ ہے۔
فاریسٹ گروو کے بزرگوں کاکہنا ہے کہ جنگل سے موسیقی اُبھرنے کا واقعہ کئی عشرے قبل بھی پیش آیا تھا جب وہ نوجوان تھے۔ عمر رسیدہ افراد کے مطابق اس زمانے میں بھی بالکل یہی آواز کئی راتوں تک سُنائی دیتی رہی تھی، پھر اچانک ازخود بند ہوگئی تھی۔ پُراسرار آواز کی وجہ سے ماضی میں کئی لوگ دہشت زدہ ہوکر قصبہ چھوڑ گئے تھے مگر اس بار ابھی تک کسی نے یہ قدم نہیں اٹھایا کیوں کہ سوائے آواز سُنائی دینے کے اہل قصبہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ پھر پولیس نے بھی انھیں تسلی دی ہے کہ خوف زدہ نہ ہوں، انھیں کچھ نہیں ہوگا۔
پُراسرار موسیقی کے ماخذ تک پہنچنے میں ناکامی کے بعد پولیس نے ایک آڈیو انجنیئرکی بھی خدمات حاصل کی ہیں۔ ٹوبن کولی نامی انجنیئر نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہ جنگل سے اُبھرنے والی آواز غیرمعمولی ہے۔ جنگل میں قدم رکھنے کے بعد یہ آواز ہر طرف سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ٹوبن نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ یہ آواز پائپ لائن سے خارج ہونے والی گیس کی بھی ہوسکتی ہے، مگر مقامی گیس کمپنی کے اہل کاروں نے ٹوبن کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا وہ پوری پائپ لائن کی جانچ کرچکے ہیں، اس میں کہیں بھی کوئی معمولی سی دراڑ یا سوراخ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ گیس کا اخراج مسلسل ہوتا جب کہ موسیقی صرف رات میں سُنائی دے رہی ہے۔ علاوہ ازیں گیس کے اخراج کی صورت میں بُو بھی محسوس ہوتی مگر پورے علاقے میں کہیں بھی گیس کی بُو محسوس نہیں کی جارہی۔ پولیس، فائر فائٹنگ ڈیپارٹمنٹ اور آڈیو انجنیئر ہنوز پُراسرار آواز کا معمّا حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پورٹ لینڈ امریکی ریاست اوریگن کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہر کے مضافات میں آباد فاریسٹ گرووکے مکین ان دنوں دہشت میں مبتلاہیں۔ خوف کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے قصبے کے باشندے راتیں جاگ کر گزار رہے ہیں۔ ان کے خوف کا سبب شب میں سنائی دینے والی تیز موسیقی ہے۔ یہ آواز سیٹی او بانسری کی آواز سے ملتی جلتی مگر بہت تیز ہے جو قصبے سے متصل جنگل سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پُراسرار آواز صرف رات کے وقت سُنائی دیتی ہے اور اتنی تیز ہے کہ قصبے کے آخری سرے پر بنے ہوئے گھروں کے مکین بھی اسے سُن سکتے ہیں۔
22 ہزار 500 نفوس پر مشتمل قصبے میں اس پراسرار آواز نے دہشت پھیلادی ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے اور ماہرین موسیقی بھی آواز کے ماخذ کا سُراغ لگانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ ان کی ناکامی نے لوگوں کو مزید خوف میں مبتلا کردیا ہے، حالاں کہ محض موسیقی سُنائی دینے کے علاوہ انھیں ابھی تک کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
نہ تو قصبے کے کسی فرد کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے اور نہ ہی ان کے مویشیوں اور دوسری املاک کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے باوجود شب کی تاریکی میں ایک تسلسل کے ساتھ سُنائی دینے والی موسیقی نے انھیں دہشت زدہ کر رکھا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ قصبے پر جلد کوئی آفت نازل ہونے والی ہے، یہ آواز اسی بات کا اشارہ ہے۔
فاریسٹ گروو کے بزرگوں کاکہنا ہے کہ جنگل سے موسیقی اُبھرنے کا واقعہ کئی عشرے قبل بھی پیش آیا تھا جب وہ نوجوان تھے۔ عمر رسیدہ افراد کے مطابق اس زمانے میں بھی بالکل یہی آواز کئی راتوں تک سُنائی دیتی رہی تھی، پھر اچانک ازخود بند ہوگئی تھی۔ پُراسرار آواز کی وجہ سے ماضی میں کئی لوگ دہشت زدہ ہوکر قصبہ چھوڑ گئے تھے مگر اس بار ابھی تک کسی نے یہ قدم نہیں اٹھایا کیوں کہ سوائے آواز سُنائی دینے کے اہل قصبہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ پھر پولیس نے بھی انھیں تسلی دی ہے کہ خوف زدہ نہ ہوں، انھیں کچھ نہیں ہوگا۔
پُراسرار موسیقی کے ماخذ تک پہنچنے میں ناکامی کے بعد پولیس نے ایک آڈیو انجنیئرکی بھی خدمات حاصل کی ہیں۔ ٹوبن کولی نامی انجنیئر نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہ جنگل سے اُبھرنے والی آواز غیرمعمولی ہے۔ جنگل میں قدم رکھنے کے بعد یہ آواز ہر طرف سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ٹوبن نے یہ خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ یہ آواز پائپ لائن سے خارج ہونے والی گیس کی بھی ہوسکتی ہے، مگر مقامی گیس کمپنی کے اہل کاروں نے ٹوبن کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا وہ پوری پائپ لائن کی جانچ کرچکے ہیں، اس میں کہیں بھی کوئی معمولی سی دراڑ یا سوراخ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ گیس کا اخراج مسلسل ہوتا جب کہ موسیقی صرف رات میں سُنائی دے رہی ہے۔ علاوہ ازیں گیس کے اخراج کی صورت میں بُو بھی محسوس ہوتی مگر پورے علاقے میں کہیں بھی گیس کی بُو محسوس نہیں کی جارہی۔ پولیس، فائر فائٹنگ ڈیپارٹمنٹ اور آڈیو انجنیئر ہنوز پُراسرار آواز کا معمّا حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔