اب ڈولفن کریں گی جاسوسی
روس میں عسکری مقاصد سے ڈولفن کو تربیت دینے کے لیے نئے پروگرام ترتیب دیے جارہے ہیں
روس کے محکمہ دفاع کی جانب سے ایک سرکاری ویب سائٹ پر ٹینڈر شائع کروایا گیا ہے جس کے مطابق اسے پانچ ڈولفن درکار ہیں! ٹینڈر میں دی گئی تفصیلات کے مطابق محکمہ دفاع کو دو مادہ اور تین نَر ڈولفن کی ضرورت ہے جن کی عمریں تین سے پانچ سال کے درمیان ہوں، ان کے پورے دانت آچکے ہوں اور ان میں کوئی جسمانی نقص نہ ہو۔ محکمہ دفاع کی جانب سے ڈولفن کی خریداری کی کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی تاہم یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان بحری ممالیہ کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا جائے گا !
مارچ 2014ء میں روس کے سرکاری خبررساں ادارے نے خبر دی تھی کہ عسکری مقاصد سے ڈولفن کو تربیت دینے کے لیے نئے پروگرام ترتیب دیے جارہے ہیں۔ چناں چہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈولفن کی خریداری ایسے ہی کسی پروگرام کا حصہ ہے۔
ڈولفن کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا اور سابق سوویت یونین ان جانوروں سے کام لیتے رہے ہیں۔ ریٹائرڈ کرنل وکتر بیرینیتس سوویت یونین کے زمانے میں اور پھر اس کا شیرازہ بکھرجانے کے بعد ، کئی برس تک ڈولفن کو سدھانے کے منصوبے سے وابستہ رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں سردجنگ کے زمانے میں سوویت یونین اور امریکا کے مابین نت نئے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ عروج پر تھی۔ اس دوڑ میں ڈولفن کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ یہ جانور کو آب دوزوں، زیرآب بارودی سرنگوں، مشکوک ا شیاء اور بندرگاہوں اور بحری جہازوں کے اردگرد منڈلاتے مشکوک افراد کی نشان دہی کرتے تھے۔
ڈولفن کو جاسوسی کے لیے سدھانے کی ابتدا سب سے پہلے امریکا نے 1960ء کے عشرے میں کی تھی۔ بعد میں جب یہ خبر عام ہوئی تو پھر روسی فوج نے بھی ڈولفن کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ روسی فوج کی ڈولفن نہ صرف جاسوسی کرتی تھیں بلکہ انھیں دشمن کے جہازوں میں بم اور دیگر دھماکاخیز آلات نصب کرنے کی بھی تربیت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بحیرۂ اسود میں ڈوبے ہوئے بحری جہازوں کا پتا بھی لگاتی تھیں۔
ڈولفن کو سدھانے کا روسی مرکز کریمیا میں واقع تھا۔ مارچ 2014ء میں یوکرین سے علیٰحدہ ہونے والے کریمیا میں یہ مرکز سابق سوویت یونین کے زمانے میں، 1965ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد یہ مرکز بند کردیا گیا اور تربیت یافتہ ڈولفن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کو بیچ دی گئیں۔
یوکرینی بحریہ نے 2012ء میں اس مرکز کو دوبارہ فعال کیا اور ڈولفن کو تربیت دینی شروع کی مگر دو سال کے بعد جب کریمیا، یوکرین سے علیٰحدہ ہوا تو یہ ڈولفن روسی فوج کے کنٹرول میں چلی گئیں۔ روسی فوج اب جاسوس ڈولفن کے بیڑے میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ حالیہ اشتہار کے پس پردہ یہی مقصد ہے۔
مارچ 2014ء میں روس کے سرکاری خبررساں ادارے نے خبر دی تھی کہ عسکری مقاصد سے ڈولفن کو تربیت دینے کے لیے نئے پروگرام ترتیب دیے جارہے ہیں۔ چناں چہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈولفن کی خریداری ایسے ہی کسی پروگرام کا حصہ ہے۔
ڈولفن کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ سرد جنگ کے زمانے میں امریکا اور سابق سوویت یونین ان جانوروں سے کام لیتے رہے ہیں۔ ریٹائرڈ کرنل وکتر بیرینیتس سوویت یونین کے زمانے میں اور پھر اس کا شیرازہ بکھرجانے کے بعد ، کئی برس تک ڈولفن کو سدھانے کے منصوبے سے وابستہ رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں سردجنگ کے زمانے میں سوویت یونین اور امریکا کے مابین نت نئے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ عروج پر تھی۔ اس دوڑ میں ڈولفن کو نمایاں حیثیت حاصل تھی۔ یہ جانور کو آب دوزوں، زیرآب بارودی سرنگوں، مشکوک ا شیاء اور بندرگاہوں اور بحری جہازوں کے اردگرد منڈلاتے مشکوک افراد کی نشان دہی کرتے تھے۔
ڈولفن کو جاسوسی کے لیے سدھانے کی ابتدا سب سے پہلے امریکا نے 1960ء کے عشرے میں کی تھی۔ بعد میں جب یہ خبر عام ہوئی تو پھر روسی فوج نے بھی ڈولفن کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ روسی فوج کی ڈولفن نہ صرف جاسوسی کرتی تھیں بلکہ انھیں دشمن کے جہازوں میں بم اور دیگر دھماکاخیز آلات نصب کرنے کی بھی تربیت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ یہ بحیرۂ اسود میں ڈوبے ہوئے بحری جہازوں کا پتا بھی لگاتی تھیں۔
ڈولفن کو سدھانے کا روسی مرکز کریمیا میں واقع تھا۔ مارچ 2014ء میں یوکرین سے علیٰحدہ ہونے والے کریمیا میں یہ مرکز سابق سوویت یونین کے زمانے میں، 1965ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد یہ مرکز بند کردیا گیا اور تربیت یافتہ ڈولفن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کو بیچ دی گئیں۔
یوکرینی بحریہ نے 2012ء میں اس مرکز کو دوبارہ فعال کیا اور ڈولفن کو تربیت دینی شروع کی مگر دو سال کے بعد جب کریمیا، یوکرین سے علیٰحدہ ہوا تو یہ ڈولفن روسی فوج کے کنٹرول میں چلی گئیں۔ روسی فوج اب جاسوس ڈولفن کے بیڑے میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ حالیہ اشتہار کے پس پردہ یہی مقصد ہے۔