افغان امن مذاکرات

افغانستان روز اول سے ہی پاکستان کے لیے درد سر بنا ہوا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

افغانستان روز اول سے ہی پاکستان کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے مذہب کے بنیادی رشتے کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اس مملکت خداداد کو سب سے آخر میں کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق بڑی مشکل سے بادل ناخواستہ تسلیم کیا تھا۔ اس کے سراسر قصوروار افغانستان کے وہ حکمراں ہیں جو پاکستان دشمن بیرونی قوتوں کے اشاروں پر کٹھ پتلیوں کی طرح سے ناچتے رہے ہیں۔

اس کے بالکل برعکس پاکستان نے اسلام کے بنیادی رشتے کو مقدم رکھتے ہوئے اپنے اس پڑوسی برادر ملک کی جانب دست تعاون دراز کیا ہے اور لاکھوں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر آج تک اٹھایا ہوا ہے۔ پاکستان آج دہشت گردی کے جس سنگین مسئلے سے دوچار ہے اس کی اصل جڑ بھی افغانستان ہی ہے۔

افغانستان اس لحاظ سے ایک بدقسمت ملک ہے۔ یہ تقسیم در تقسیم میں الجھا ہوا ہے۔ ایک جانب ثقافتی تقسیم ہے تو دوسری جانب لسانی تقسیم۔ سب سے بڑھ کر سیاسی تقسیم ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔ قبائل نے، جن میں پختون سرفہرست ہیں، مرکزی حکومت کی حاکمیت کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا ہے۔ ان کی وفاداری روزمرہ، ماہانہ اور سالانہ کی بنیاد پر حاصل کی جاتی ہے۔ غربت نے اس ملک کو مدت دراز سے اپنے آہنی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔

قبائلی نظام کی وجہ سے وہاں کوئی موثر مرکزی قوت کبھی حاوی نہیں ہوسکی۔ افغان بادشاہ اور حکمراں اپنی اتھارٹی کو ہمہ گیر سطح پر تسلیم کرانے میں ناکام ہی رہے اور کامل کا شاہی تخت ہمیشہ ڈگمگاتا اور ڈولتا ہی رہا۔ اس متزلزل داخلی صورت حال نے بیرونی قوتوں کی دخل اندازی کی راہ ہموار کردی۔ بیرونی مداخلت کا یہ طویل سلسلہ مدت دراز سے تاحال جاری ہے جس میں روسی، ہندوستانی اور امریکی سبھی شامل ہیں۔ تاہم افغانوں کو بیرونی دخل اندازی بھی گوارا نہیں ہے اور ان کا مزاج یہ ہے کہ خواہ کوئی ان پر اپنی جان ہی کیوں نہ قربان کردے وہ اپنے تمام فیصلے اپنی مرضی کے مطابق ہی کرنا پسند کرتے ہیں۔

19 ویں صدی کے وسط میں برطانوی حکمراں بارک زئی، سدوزئی قبیلوں، خاندانی دشمنیوں اور رقابتوں میں الجھ کر رہ گئے تھے۔ وہ اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے تھے کہ شاہ شجاع سدوزئی ان کی کٹھ پتلی بن گیا تھا، جسے انھوں نے اگست 1839 میں کابل کے تخت پر لے جاکر بٹھا دیا تھا۔ اس وقت ساٹھ ہزار برطانوی فوجی افغانستان میں تعینات تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کی معیشت پر برطانیہ کا ہی راج تھا۔ مگر رفتہ رفتہ افغانستان میں برطانوی اثرات زائل ہونا شروع ہوگئے اور کٹھ پتلی حکمراں شاہ شجاع کا تخت ڈولنا شروع ہوگیا۔ 1841 تک برطانوی حکومت کو یہ سودا اتنا مہنگا پڑا کہ اس کے اخراجات 2 ملین پونڈ سالانہ تک پہنچ گئے اور انھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے منافع کی حدیں بھی عبور کرلیں۔ کابل کا تنور گرم سے گرم تر ہوتا چلا گیا اور اسے سنبھالنے کے اخراجات برطانوی حکومت کے بس سے باہر ہوگئے۔ 16000 کی تعداد پر مشتمل برٹش اور انڈین فوجیوں کی جان کے لالے پڑ گئے اور بالآخر ان کے پاؤں اکھڑ گئے۔

20 ویں صدی کے وسط میں سوویت یونین نے افغانستان کا رخ کیا اور وہاں بھاری سرمایہ کاری کا آغاز کردیا۔ یہ دخل اندازی بڑے منظم انداز میں کی گئی جس میں افغان معیشت، دانشور طبقہ اور فوج سمیت تینوں اہم اور بنیادی شعبے شامل تھے۔ آخرکار سوویت یونین کو 1978 میں افغانستان میں پہلی کمیونسٹ حکومت کے قیام میں کامیابی حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد افغان افواج اور افغان معیشت دونوں ہی ماسکو کے تابع فرمان ہوگئیں۔


پھر کچھ ہی عرصے بعد افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی (PDPA) نے قبائل کے درمیان خوں ریزی کے کھیل کی شروعات کرادی۔ اس کے علاوہ سیاسی گروہوں اور دھڑوں میں تصادم کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ پھر جب سوویت یونین کو یہ احساس ہوا کہ افغانستان میں باہمی سیاسی کشمکش کے ریلے میں اس کی دولت بہہ کر بری طرح ضایع ہو رہی ہے اور اس کا خزانہ خالی ہونے لگا ہے تو اس نے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ یہ دسمبر 1979 کے اواخر کا واقعہ ہے۔

افغانستان پر قبضے کی اس مہم جوئی میں سوویت یونین کے 15,000 فوجی ہلاک ہوگئے۔ انجام کار سوویت یونین کو شکست ہوئی اور نجیب اللہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور امریکا کی پشت پناہی سے پاکستان کی زیر قیادت مجاہدین کو کامیابی حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور حکمرانی میں افغانستان میں 1992 میں ایک عبوری افغان حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ مگر روز اول سے ہی اس حکومت کو استحکام میسر نہیں آیا اور افغان عوام میں ابھی اسے مقبولیت اور پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔

اس کے بعد امریکا بھی افغانستان کو چھوڑ کر چلا گیا مگر 9/11 کے بعد اس نے پلٹ کر دوبارہ افغانستان کا رخ کیا اور اس کے بعد سے آج تک اسی دشت کی خاک چھان رہا ہے۔ دنیا کی مانی ہوئی تینوں سپر پاورز یعنی برطانیہ، سوویت یونین اور امریکا افغانوں کو سرنگوں کرنے میں ناکام ہی ثابت ہوئیں۔

افغانستان میں قیام امن کا مسئلہ انتہائی سنگین اور پیچیدہ ہے۔ اب تک مفاہمت کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں ناکام اور بے سود ثابت ہوچکی ہیں، کیونکہ یہ مینڈکوں کو ترازو کے پلڑوں میں رکھ کر تولنے والا معاملہ ہے۔ کبھی ایک مینڈک پھدک کر بھاگ جاتا ہے تو کبھی دوسرا کود کر باہر نکل جاتا ہے۔ طالبان کے تمام دھڑوں کو مذاکرات کی میز پر لاکر اکٹھا بٹھانا جوئے شیر لانے سے کم مشکل نہیں ہے۔ امیدیں بندھتی ہیں اور ٹوٹ جاتی ہیں۔ طالبان کے بعض دھڑے امن مذاکرات میں شرکت سے مسلسل گریزاں ہیں۔ بار بار کی کوششوں کے باوجود ان سب کو ایک میز پر جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

اس پس منظر میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ جنگ یا امن میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ انھیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ افغان قوم کے ساتھ ہیں یا ملک دشمنوں کے ساتھ۔ صدر اشرف غنی نے قوم سے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کی بھی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر طالبان افغان ہیں تو پھر انھیں امن کی کوششوں میں ضرور شامل ہونا چاہیے۔

رہی پاکستان کی بات تو اسے روز اول سے ہی افغان امن سے گہری دلچسپی ہے، کیونکہ اس کی داخلی صورتحال کا انحصار بھی بڑی حد تک افغانستان میں قیام امن پر ہی ہے۔

وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ طالبان کی قیادت افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنے موقف میں غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کرے کیونکہ چار ملکی گروپ کی کوششیں صرف اسی صورت میں کامیابی کی جانب گامزن ہوسکتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو حالات مزید خرابی کی طرف چلے جائیں گے اور مزید مشکلات حائل ہوجائیں گی۔ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ تمام معاملات میں انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے اور غیر ضروری بیان بازی سے احتراز کیا جائے۔
Load Next Story