عوام کی قسمت

ہمارے یہاں تو یہ حقیقت ہے کہ ’’بعد مغرب‘‘ ہر چینل پر سیاسی پروگرام شروع ہوجاتا ہے،

میڈیا کی ترقی سے یوں تو لوگ خاصے نالاں رہتے ہیں مگر یہ ''لوگ'' وہی ہیں جن سے ''تمام لوگ'' نالاں بلکہ ''پریشاں'' رہتے ہیں ان کے نام رہنما، لیڈر، مصلح اور بھی کچھ ہیں جو ہم لکھ نہیں سکتے مگر اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب اپنے نام کے عکس ہونا تو درکنار ''پاسنگ'' بھی نہیں ہیں بلکہ حقیقتاً برعکس ہیں، تو اس قصے کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں، ان معاملات کی تفسیر کے لیے تو بہت وقت چاہیے اس میں وقت کے علاوہ ''خون'' کا بھی زیاں ہے کہ بہت ''کھولے'' گا اور جل جل کر سیاہ ہوگا اور لوگ کہیں گے یہی کہ ''خون سفید'' ہوگیا ہے۔

ہمارے یہاں تو یہ حقیقت ہے کہ ''بعد مغرب'' ہر چینل پر سیاسی پروگرام شروع ہوجاتا ہے، جس کا دورانیہ رات بارہ بجے تک بھی وقفوں سے چلتا رہتا ہے، درمیان میں ذائقہ بدلنے کو خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ سرکاری اداروں میں یہ تھیٹر پھیکے ہوتے ہیں یعنی ریڈیو اور ٹی وی میں، کیونکہ وہاں اینکر یا کمپیئر کو بدتمیزی کی اجازت نہیں ہے اور ایسا کرنے والوں کو ''بیک بینی و دوگوش'' فارغ کردیا جاتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بات کچھ اور ہے، وہاں ''مرچ مسالہ'' ضروری ہوتا ہے۔

یہ سرکاری فرمائش پر بھی ڈال دیا جاتا ہے اور ''سرکار'' پر بھی ڈالا جاتا ہے، شاید پہلے سے اطلاع دے کر، کیونکہ اب تک تو کہیں سے کوئی باقاعدہ ''آہ و بکا'' اس سلسلے میں ''وارد'' نہیں ہوئی ہے۔ ہر طرح کے ''اینگری مین'' اینکرز یہ کام کرتے ہیں، کیونکہ روز شام کو یہی تو ''کمائی'' ہے اور اس سے معاشرے کے بہت سے طبقوں کا بھلا ہوتا ہے، دو پارٹیوں کا تو ہم ذکر کرچکے جو اسپانسر بھی ہیں اپنی اپنی جگہ، اس کے علاوہ ڈاکٹرز، وکلا کا بھی اس سے بہت ''افادہ'' ہے، ''فائدہ'' چھوٹا لفظ ہے لہٰذا استعمال نہیں کیا۔ پروگرام دیکھ سن کر لوگ ان کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح ان کے دفتر اور کلینک آباد ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں سنا ہے کہ 18 یا 20 کروڑ عوام رہتے ہیں۔ یہ دو کروڑ کا گھپلا ہم نے نہیں کیا ہے، عموماً الیکشن کے دوران ملک کی آبادی بڑھ جاتی ہے اور ووٹ دینے کے بعد یہ آبادی پھر درست ہوجاتی ہے۔ یہ الٹ پھیر ہمارے یہاں چلتا ہی رہتا ہے، بس نہیں چلتے تو اسٹیل مل، ریلوے، پی آئی اے اور وہ ادارے جو مفاد عامہ کے ہیں۔ مختلف شہروں کے واٹر بورڈ، واٹر کا کام ٹھیک نہیں کرتے، سیوریج کا محکمہ گٹر ڈھکن ٹیکنالوجی کا شکار ہے اور عالمگیر سڑکوں پر ڈھکن Paint کر رہا ہے ڈھکن لگ نہیں رہے۔ ایک شور اٹھتا ہے ہر تھوڑے دن بعد کسی مسئلے کا اور پھر چند دنوں بعد مسئلہ، شکایت کنندگان اور حکومت سب سوجاتے ہیں۔

ہم ایسے ہی ہیں۔ ادارے کب تباہ ہوئے جب ملک میں آدھا ملک گنوانے کے بعد ایک پارٹی قائم کی گئی اور زور و شور سے ''عوام'' کا نعرہ بلند ہوا اور عوام کے نعرے کی حقیقت اس وقت کھل گئی اور ختم ہوگئی جب ادارے قومیا لیے گئے، جن کا مقصد صرف یہ ثابت ہوا کہ وہاں لوگوں کو ''کھپانا'' تھا، کیونکہ جس شدت سے عوام کو ابھارا گیا تھا اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عوام کا غیظ و غضب جو مشرقی بازو کے ٹوٹنے پر انتہا کو پہنچا ہوا تھا اور جس کو اس پارٹی نے Cash کرلیا تھا اور الیکشن جیت لیے تھے، حکومت حاصل کرلی تھی، خود ان کے خلاف ٹوٹ پڑتا اور کچھ جماعتیں جو بعد میں اپنا حصہ وصول کرکے خاموش ہوگئیں، اس کا فائدہ اٹھا کر اقتدار پر قابض ہوجاتیں جو ضیا الحق کے تحت کچھ وقت کے لیے ہوئیں بھی۔

سب سے زیادہ نقصان اس سیاست کا اس ملک کو ہوا، وہ ملک جو مقروض ترین ہونے کے قریب ترین ہے۔ حالانکہ خداوند کریم نے اس ملک کو سب کچھ دیا ہے اب رہنماؤں کے علاوہ۔ وہ تو زمین سے نہیں اگتے، نہ ان کا کوئی کارخانہ ہے، وہ تو معاشرے سے جنم لیتے ہیں اور معاشرہ جیسا ہوگا لیڈر بھی ویسے ہی ہوں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا میں چند لوگوں نے معاشروں کو تبدیل کردیا ہے، یہ انسانی تاریخ کے زریں باب ہیں، مگر خال خال۔ ہمیں بھی یہ موقع اﷲ نے دیا، قیام پاکستان کی صورت۔ مگر ہم نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہوگیا قرض کا دودھ پینا نہیں چھوڑا اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔


ہم یہ نہیں سمجھے کہ ادارے ناکام کیوں ہیں، میڈیا حکومت کی ناکامیوں کا رونا تو روز شام کو روتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کھل کر کہ وجہ کیا ہے۔ کہیں بغاوت کہیں سیاست۔ میڈیا میں بھی سیاست ہے۔ کون کہتا ہے کہ وہاں نہیں ہے۔ معاشرے کو ٹھیک کرتے کرتے بے چارے وہ خود معاشرہ ہوگئے ہیں اور اس معاشرے میں ایک میڈیا معاشرہ جنم لے چکا ہے، جس کے اپنے تقاضے اور ضرورتیں ہیں۔ چند ایک تو خود وہاں ہی ہائی لائٹ ہوچکی ہیں ان پر اور کیا تبصرہ کریں، ہمیں تو شکایت یہ ہے کہ میڈیا وہ کام کیوں نہیں کررہا جو اس کا فرض اولین ہے کہ لوگوں کو صرف حقائق نہ دکھائیں، لوگوں کو ساتھ لے کر درستگی کی جانب قدم بڑھائیں۔

ادارے اس لیے تباہ ہیں کہ سیاسی پارٹیوں نے انھیں اپنا ہدف بنا رکھا تھا اور بنا رکھا ہے، ایک پارٹی ان میں اپنے لوگ بھرتی کرتی تھی اور دوسری پارٹی آکر ان کو نکال دیتی تھی اور اپنے لوگ بھرتی کردیتی تھی، یہ سلسلہ بہت عرصے نہ چلا، لوگ بیزار ہوگئے، پارٹیوں کا کاروبار مندا ہوا تو نئی اسکیم سامنے آئی اور وہ تھی ''تم بھی بھردو، ہم بھی بھردیں''۔ لہٰذا جس ادارے میں ایک ہزار افراد کی گنجائش تھی ملازمت کی، وہاں دونوں نے مل کر دس ہزار بھرتی کردیے۔

اسٹیل مل میں اوزار کم ہیں، بندے زیادہ اور عوامی انداز میں کہیں تو ''ایک ہتھوڑے'' کے حصے میں دس آدمی آرہے ہیں تو ہتھوڑا چلے کیسے۔ یہ پہلا مرحلہ تھا، پھر سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ ضرورت کیا ہے ہتھوڑا چلانے کی، گھر بیٹھو تنخواہ لو۔ یہ ہے وہ فارمولا جس سے ادارے اور ملک تباہ ہوتے ہیں۔ بلیک میلنگ اور اندرون خانہ لوٹ مار کا تو ابھی ہم نے ذکر ہی نہیں کیا ہے، یہ تو ایک عام اور سیدھی بات عرض کی ہے جو سب کی سمجھ میں آجائے گی، آتی ہے، ہم کوئی پہلے نہیں جو یہ بات کر رہے ہیں، لوگ تواتر سے کہہ رہے ہیں اور کہی جانی چاہیے، یہ ہمارا گریبان ہے اور ہمیں اس میں ضرور جھانکنا چاہیے۔

اگر ہم نہیں جھانکیں گے تو کوئی اور جھانکے گا اور لوگ جھانک رہے ہیں۔ دوسرے ملک آپ کی صنعتیں اور ادارے چلانے میں دلچسپی لے رہے ہیں، اس میں ہمارا کتنا فائدہ ہے اور ان کا کتنا، آپ سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی میلوں دور انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے نہیں آتا، کمانے آتا ہے اور ہم کمانے کا موقع دے رہے ہیں ہر جگہ، خود نہیں کمانا چاہتے محنت کرکے، کچھ اور کرکے کمانا چاہتے ہیں۔ سارے ادارے بیٹھ چکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

میرٹ کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ قومی بحران ہے، قابل لوگ ملک میں نہیں ہیں کہ ان کو تعینات کیا جاسکے اور اگر ہیں تو کرنا نہیں چاہتے کہ وہ ان کے اشارے پر نہیں چلیں گے۔ قابلیت کا تعلق ایمانداری سے ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ ملک کے حکمرانوں کو چاہے یہ ہوں یا وہ، ایماندار لوگ نہیں چاہئیں۔ وزیروں کو دیکھ لیں، ان کی قابلیت کو دیکھ لیں۔

ان کی کیا قابلیت ہے، مذاکرات ملک میں یا ملک سے باہر، ان مذاکرات میں کیا ہوتا ہے ''کچھ لو کچھ دو'' لیا کیا ہے؟ ''قرض'' دیا کیا ہے؟ ''قومی غیرت''، بھکاری بنادیا ہے قوم کو۔ کوئی بھی یہ نہ سمجھے کہ دوسری پارٹی کے پاس کوئی زیادہ بہتر آپشن ہے۔ جی نہیں! وہ اس سے بھی بدتر ہیں۔ خود ہی ملزم، مجرم اور خود ہی منصف۔ یہ ہے پاکستان کی سیاست اور ایک قدرتی خزانوں سے بھرے ملک کے بدنصیب عوام کی قسمت۔
Load Next Story