محنت زادی مارچ
8 مارچ کو یوم حقوق نسواں کے سلسلے میں محنت زادی مارچ کے لیے تین بجے کا وقت دیا گیا تھا
KARACHI:
8 مارچ کو یوم حقوق نسواں کے سلسلے میں محنت زادی مارچ کے لیے تین بجے کا وقت دیا گیا تھا، مگر پرجوش خواتین کی آمد کا سلسلہ ایک بجے ہی شروع ہوچکا تھا۔ یہ خواتین سندھ بھر سے دور دراز کا سفر طے کرکے حیدر بخش جتوئی چوک پہنچ رہی تھیں۔ یہ وہ ہاری خواتین تھیں جوکہ صدیوں سے سماج میں پھیلے جبر کے خلاف احتجاجی ریلی یعنی محنت زادی مارچ میں شرکت کی غرض سے تشریف لائی تھیں۔
ایک محتاط اندازہ یہ تھا کہ ان خواتین کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی تھی، کیونکہ 3 بجے ان خواتین میں حیدرآباد کی مقامی خواتین بھی شامل ہوچکی تھیں، مقامی خواتین کا تعلق مقامی گھریلو صنعت چوڑی سے تھا۔ تین بجے تک ان خواتین کے ہاتھوں میں سندھ کے نامور ہاری رہنما حیدربخش جتوئی، کمیونسٹ رہنماؤں حسن ناصر، نذیر عباسی و ہاری رہنما بختاور مائی کی تصاویر کے ساتھ مختلف نعروں سے مزین کتبے و بینر تھے۔
اگر دردمندی سے جائزہ لیا جائے تو ہاری خواتین وہ طبقہ ہے جوکہ نسل در نسل صدیوں سے جاگیرداری نظام کا شکار ہے، ان خواتین کا زراعت کی پیداوار میں پچاس فیصد حصہ ہوتا ہے، یعنی یہ ہاری خواتین اپنے گھر کے مردوں کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کاشت کاری کے تمام امور میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں مگر جس غذائی قلت کا ان خواتین کو سامنا ہوتا ہے وہ ان خواتین کے چہروں ہی سے عیاں ہورہا تھا۔ غربت کی مزید گواہی ان کے پچکے گال، پیلی رنگت و سوکھی کلائیاں دے رہی تھیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ہاری خاندانوں سے تعلق رکھنے والی یہ ہاری خواتین اس قدر غربت کا شکار کیوں ہیں؟ اس سوال کا بہت ہی آسان جواب یہ ہے کہ ان ہاری خاندانوں سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین و ان کے گھر کے مرد تمام تر زرعی پیداواری امور میں شب و روز حصہ لیتے ہیں مگر ان کے خون پسینے سے تیار ہونے والی فصلوں پر ان کا حق برائے نام ہی ہوتا ہے، یعنی ان فصلوں سے جو حصہ ملتا ہے وہ انتہائی قلیل ہوتا ہے، جب کہ فصل کا کثیر حصہ وہ زمین دار لے جاتا ہے جس کی زمین پر یہ غریب ہاری پورا سال محنت کرتے ہیں۔
پھر جو فصل کا قلیل ترین حصہ ان ہاری خاندانوں کو نصیب ہوتا ہے، اس قلیل حصے میں سے وہ سود خور مہاجن اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے فصل تیار ہونے سے قبل تیار بیٹھا ہوتا ہے، جس نے کبھی ان ہاری خاندانوں کو معمولی قرضہ دیا ہوتا ہے، جوکہ سود سمیت بڑھتے بڑھتے ایک خطیر رقم کی شکل اختیار کرچکا ہوتا ہے، جوکہ ان ہاری خاندانوں کے لیے ادا کرنا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ ان ہاری خاندانوں کے لیے ناقابل برداشت عمل ہوتا ہے، یعنی یہ ہاری مہاجن کا قرضہ ادا کرنے سے مکمل قاصر ہوتے ہیں۔ اب ان معاشی حالات میں ان ہاری خواتین و ان کے خاندان کے دیگر افراد کے پچکے گال، پیلی رنگت و سوکھی کلائیاں ہیں تو حیرت کی کیا بات ہے؟
محنت زادی مارچ میں حیدرآباد کی مقامی شرکت کرنے والی خواتین کے مسائل کا اگر ذکر کیا جائے تو چوڑی کی صنعت سے وابستہ خواتین کے مسائل اگرچہ ہاری خواتین سے مختلف ضرور ہیں مگر ان سے کم نہیں ہیں، یہ خواتین اگرچہ دیگر خواتین کی کلائیوں کی زینت بننے والی خوبصورت و دیدہ زیب چوڑیاں تیار کرتی ہیں، خواتین کی کلائیوں میں چھنکتی چوڑیوں کی تعریف تو ہر کوئی کرتا ہے مگر یہ غور کرنے کی زحمت کبھی کسی نے نہیں کی کہ ان چوڑیوں کی تیاری کے دوران چوڑی کی صنعت سے وابستہ خواتین کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک چوڑی اپنی تیاری کے آغاز سے لے کر مکمل ہونے تک 72 ہاتھوں کی محنت کی طالب ہوتی ہے، جب کہ چوڑیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خطرناک کیمیکل چوڑی کی صنعت سے وابستہ خواتین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے کمسن بچے و بچیوں کے لیے کئی مہلک ترین امراض کا باعث بنتا ہے، جب کہ ان خواتین بشمول ان کے ساتھ کام کرنے والے بچوں کی محنت کے، جو ان خواتین کو معاوضہ ملتا ہے وہ معاوضہ بمشکل ایک سو تیس روپے ہوتا ہے۔
اب یہ بات میری عقل و فہم سے بالاتر ہے کہ ان ایک سو تیس روپے میں یہ خواتین گھر کیسے چلاتی ہیں؟ بہرکیف یہی وہ مسائل ہیں جنھیں مدنظر رکھتے ہوئے یہ خواتین محنت زادی مارچ میں جوق در جوق شرکت کی غرض سے تشریف لائی تھیں۔ محنت زادی مارچ اپنے مقررہ وقت پر حیدر بخش جتوئی چوک سے روانہ ہوا اور پریس کلب حیدرآباد تک ان خواتین کے فلک شگاف نعرے گونجتے رہے، جب کہ پریس کلب آمد کے بعد اس محنت زادی مارچ نے احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کرلی۔
اس موقع پر ٹیکم گروپ نے اپنے روایتی و خوبصورت انداز میں محنت کشوں کے گیت پیش کیے جس پر حاضرین نے خوب داد تحسین پیش کی، بعدازاں حاضرین کی پرزور تالیوں میں ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی رہنما زہرا خاں نے خطاب کیا اور 8 مارچ کو حقوق نسواں کا دن منانے کی غرض و غایت بیان کیں۔ زہرا خان نے جو مطالبات حکومت کے سامنے رکھے وہ یہ تھے کہ خواتین کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے، خواتین کو برابر کا شہری تسلیم کیا جائے، جرگہ سسٹم و دیگر امتیازی خودساختہ عدالتی نظام ختم کیا جائے، فیکٹریوں و کارخانوں میں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے۔
جاہلانہ رسم و رواج کے نام پر خواتین پر جاری امتیازی سلوک بند کیا جائے، غیر مسلم شہریوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے، تعلیمی نصاب میں سائنسی بنیادوں پر تبدیلیاں کی جائیں، گھر مزدور خواتین کو محنت کش تسلیم کیا جائے اور ان خواتین کو صنعتی ملازمین کے برابر حقوق دیے جائیں اور اس بارے میں حکومت جلد پالیسی کا اعلان کرے، نجکاری پالیسی کا فی الفور خاتمہ کیا جائے۔ حکومت ILO کی ہوم بیسڈ کنونشن C77 کی توثیق کرے اور اس پر عمل یقینی بنائے۔ ان خواتین کو اجرت مردوں کے برابر دی جائے، گھر مزدور خواتین کے اوقات کار مقرر کیے جائیں، گھر مزدور خواتین کی رجسٹریشن کی جائے و ٹھیکیداروں کی بھی رجسٹریشن کی جائے، گھر مزدور خواتین کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
کاروکاری، بدلے کی شادی، ونی و سوارا، چھوٹی عمر کی شادیوں کے معاملے میں قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے، ملک میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے اور زمین بے زمین ہاریوں میں تقسیم کیا جائے اور یہ زمین ہاری خواتین کے نام کی جائے۔ حکومتی ایوانوں میں آبادی کے تناسب سے ہاری خواتین کو نمایندگی دی جائے۔
غیر مسلم خواتین کو جبری مذہب تبدیل کروانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ہاریوں کو سوشل سیکیورٹی سمیت سماجی اداروں سے پنشن گرانٹ، میرج گرانٹ، ڈیتھ گرانٹ و ہاریوں کے بچوں کے لیے اسکالرشپ یقینی بنائی جائے، لیبر کورٹس کی طرز پر ہاری کورٹس قائم کی جائیں، جاگیرداروں کی قائم کردہ نجی جیلوں کا خاتمہ کیا جائے و ہاریوں سے جبری مشقت لینا بند کیا جائے۔ اپنے خطاب کے آخر میں زہرا خان نے تمام حاضرین کا محنت زادی مارچ میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ اگر ہمیں اپنے سماج کی ترقی مقصود ہے تو ہمیں خواتین کو برابر کا شہری تسلیم کرنا ہوگا، تاکہ خواتین سماج کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ یوں بھی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ 'وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ'۔
8 مارچ کو یوم حقوق نسواں کے سلسلے میں محنت زادی مارچ کے لیے تین بجے کا وقت دیا گیا تھا، مگر پرجوش خواتین کی آمد کا سلسلہ ایک بجے ہی شروع ہوچکا تھا۔ یہ خواتین سندھ بھر سے دور دراز کا سفر طے کرکے حیدر بخش جتوئی چوک پہنچ رہی تھیں۔ یہ وہ ہاری خواتین تھیں جوکہ صدیوں سے سماج میں پھیلے جبر کے خلاف احتجاجی ریلی یعنی محنت زادی مارچ میں شرکت کی غرض سے تشریف لائی تھیں۔
ایک محتاط اندازہ یہ تھا کہ ان خواتین کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر گئی تھی، کیونکہ 3 بجے ان خواتین میں حیدرآباد کی مقامی خواتین بھی شامل ہوچکی تھیں، مقامی خواتین کا تعلق مقامی گھریلو صنعت چوڑی سے تھا۔ تین بجے تک ان خواتین کے ہاتھوں میں سندھ کے نامور ہاری رہنما حیدربخش جتوئی، کمیونسٹ رہنماؤں حسن ناصر، نذیر عباسی و ہاری رہنما بختاور مائی کی تصاویر کے ساتھ مختلف نعروں سے مزین کتبے و بینر تھے۔
اگر دردمندی سے جائزہ لیا جائے تو ہاری خواتین وہ طبقہ ہے جوکہ نسل در نسل صدیوں سے جاگیرداری نظام کا شکار ہے، ان خواتین کا زراعت کی پیداوار میں پچاس فیصد حصہ ہوتا ہے، یعنی یہ ہاری خواتین اپنے گھر کے مردوں کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کاشت کاری کے تمام امور میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں مگر جس غذائی قلت کا ان خواتین کو سامنا ہوتا ہے وہ ان خواتین کے چہروں ہی سے عیاں ہورہا تھا۔ غربت کی مزید گواہی ان کے پچکے گال، پیلی رنگت و سوکھی کلائیاں دے رہی تھیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ہاری خاندانوں سے تعلق رکھنے والی یہ ہاری خواتین اس قدر غربت کا شکار کیوں ہیں؟ اس سوال کا بہت ہی آسان جواب یہ ہے کہ ان ہاری خاندانوں سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین و ان کے گھر کے مرد تمام تر زرعی پیداواری امور میں شب و روز حصہ لیتے ہیں مگر ان کے خون پسینے سے تیار ہونے والی فصلوں پر ان کا حق برائے نام ہی ہوتا ہے، یعنی ان فصلوں سے جو حصہ ملتا ہے وہ انتہائی قلیل ہوتا ہے، جب کہ فصل کا کثیر حصہ وہ زمین دار لے جاتا ہے جس کی زمین پر یہ غریب ہاری پورا سال محنت کرتے ہیں۔
پھر جو فصل کا قلیل ترین حصہ ان ہاری خاندانوں کو نصیب ہوتا ہے، اس قلیل حصے میں سے وہ سود خور مہاجن اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے فصل تیار ہونے سے قبل تیار بیٹھا ہوتا ہے، جس نے کبھی ان ہاری خاندانوں کو معمولی قرضہ دیا ہوتا ہے، جوکہ سود سمیت بڑھتے بڑھتے ایک خطیر رقم کی شکل اختیار کرچکا ہوتا ہے، جوکہ ان ہاری خاندانوں کے لیے ادا کرنا نہ صرف مشکل ہوتا ہے بلکہ ان ہاری خاندانوں کے لیے ناقابل برداشت عمل ہوتا ہے، یعنی یہ ہاری مہاجن کا قرضہ ادا کرنے سے مکمل قاصر ہوتے ہیں۔ اب ان معاشی حالات میں ان ہاری خواتین و ان کے خاندان کے دیگر افراد کے پچکے گال، پیلی رنگت و سوکھی کلائیاں ہیں تو حیرت کی کیا بات ہے؟
محنت زادی مارچ میں حیدرآباد کی مقامی شرکت کرنے والی خواتین کے مسائل کا اگر ذکر کیا جائے تو چوڑی کی صنعت سے وابستہ خواتین کے مسائل اگرچہ ہاری خواتین سے مختلف ضرور ہیں مگر ان سے کم نہیں ہیں، یہ خواتین اگرچہ دیگر خواتین کی کلائیوں کی زینت بننے والی خوبصورت و دیدہ زیب چوڑیاں تیار کرتی ہیں، خواتین کی کلائیوں میں چھنکتی چوڑیوں کی تعریف تو ہر کوئی کرتا ہے مگر یہ غور کرنے کی زحمت کبھی کسی نے نہیں کی کہ ان چوڑیوں کی تیاری کے دوران چوڑی کی صنعت سے وابستہ خواتین کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک چوڑی اپنی تیاری کے آغاز سے لے کر مکمل ہونے تک 72 ہاتھوں کی محنت کی طالب ہوتی ہے، جب کہ چوڑیوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خطرناک کیمیکل چوڑی کی صنعت سے وابستہ خواتین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے کمسن بچے و بچیوں کے لیے کئی مہلک ترین امراض کا باعث بنتا ہے، جب کہ ان خواتین بشمول ان کے ساتھ کام کرنے والے بچوں کی محنت کے، جو ان خواتین کو معاوضہ ملتا ہے وہ معاوضہ بمشکل ایک سو تیس روپے ہوتا ہے۔
اب یہ بات میری عقل و فہم سے بالاتر ہے کہ ان ایک سو تیس روپے میں یہ خواتین گھر کیسے چلاتی ہیں؟ بہرکیف یہی وہ مسائل ہیں جنھیں مدنظر رکھتے ہوئے یہ خواتین محنت زادی مارچ میں جوق در جوق شرکت کی غرض سے تشریف لائی تھیں۔ محنت زادی مارچ اپنے مقررہ وقت پر حیدر بخش جتوئی چوک سے روانہ ہوا اور پریس کلب حیدرآباد تک ان خواتین کے فلک شگاف نعرے گونجتے رہے، جب کہ پریس کلب آمد کے بعد اس محنت زادی مارچ نے احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کرلی۔
اس موقع پر ٹیکم گروپ نے اپنے روایتی و خوبصورت انداز میں محنت کشوں کے گیت پیش کیے جس پر حاضرین نے خوب داد تحسین پیش کی، بعدازاں حاضرین کی پرزور تالیوں میں ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی رہنما زہرا خاں نے خطاب کیا اور 8 مارچ کو حقوق نسواں کا دن منانے کی غرض و غایت بیان کیں۔ زہرا خان نے جو مطالبات حکومت کے سامنے رکھے وہ یہ تھے کہ خواتین کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے، خواتین کو برابر کا شہری تسلیم کیا جائے، جرگہ سسٹم و دیگر امتیازی خودساختہ عدالتی نظام ختم کیا جائے، فیکٹریوں و کارخانوں میں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جائے۔
جاہلانہ رسم و رواج کے نام پر خواتین پر جاری امتیازی سلوک بند کیا جائے، غیر مسلم شہریوں کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جائے، تعلیمی نصاب میں سائنسی بنیادوں پر تبدیلیاں کی جائیں، گھر مزدور خواتین کو محنت کش تسلیم کیا جائے اور ان خواتین کو صنعتی ملازمین کے برابر حقوق دیے جائیں اور اس بارے میں حکومت جلد پالیسی کا اعلان کرے، نجکاری پالیسی کا فی الفور خاتمہ کیا جائے۔ حکومت ILO کی ہوم بیسڈ کنونشن C77 کی توثیق کرے اور اس پر عمل یقینی بنائے۔ ان خواتین کو اجرت مردوں کے برابر دی جائے، گھر مزدور خواتین کے اوقات کار مقرر کیے جائیں، گھر مزدور خواتین کی رجسٹریشن کی جائے و ٹھیکیداروں کی بھی رجسٹریشن کی جائے، گھر مزدور خواتین کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
کاروکاری، بدلے کی شادی، ونی و سوارا، چھوٹی عمر کی شادیوں کے معاملے میں قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے، ملک میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے اور زمین بے زمین ہاریوں میں تقسیم کیا جائے اور یہ زمین ہاری خواتین کے نام کی جائے۔ حکومتی ایوانوں میں آبادی کے تناسب سے ہاری خواتین کو نمایندگی دی جائے۔
غیر مسلم خواتین کو جبری مذہب تبدیل کروانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ہاریوں کو سوشل سیکیورٹی سمیت سماجی اداروں سے پنشن گرانٹ، میرج گرانٹ، ڈیتھ گرانٹ و ہاریوں کے بچوں کے لیے اسکالرشپ یقینی بنائی جائے، لیبر کورٹس کی طرز پر ہاری کورٹس قائم کی جائیں، جاگیرداروں کی قائم کردہ نجی جیلوں کا خاتمہ کیا جائے و ہاریوں سے جبری مشقت لینا بند کیا جائے۔ اپنے خطاب کے آخر میں زہرا خان نے تمام حاضرین کا محنت زادی مارچ میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
آخر میں اتنا عرض کروں گا کہ اگر ہمیں اپنے سماج کی ترقی مقصود ہے تو ہمیں خواتین کو برابر کا شہری تسلیم کرنا ہوگا، تاکہ خواتین سماج کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ یوں بھی کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ 'وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ'۔