بڑا احتساب کڑا احتساب
میں حکومت و نیب کے مابین موجود تناؤ کا حصہ تحریر سے بننے کا بھی خواہش مند نہیں
KARACHI:
میں حکومت و نیب کے مابین موجود تناؤ کا حصہ تحریر سے بننے کا بھی خواہش مند نہیں، نہ مجھے حکم اذاں ہے۔ لیکن احتساب کا دائرہ کار دیکھا جائے تو ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہے، مثلاً FIA، NAB، احتساب عدالتیں، اینٹی کرپشن کا صوبائی محکمہ، محتسب کورٹس۔ کوچہ کوچہ، قریہ قریہ۔ لیکن بھائی! مثال اسی بسکٹ فیکٹری کی ہے جس میں مل ہے، مشینیں ہیں، بسکٹ بن رہے ہیں۔ بس جہاں سے انھیں باہر آنا ہے۔
وہاں کوئی کھڑکی نہیں نہ شٹر۔ گویا جو کچھ ہوا۔ اندر... تو پھر ملا کیا۔ ایسا عمل جس سے کوئی مستفید نہ ہو۔ اس کے کرنے کے معانی کیا؟ میں اس ضمن میں وہ پرانی مثالیں دہرانا نہیں چاہتا کہ آصف زرداری پر جو کیسز بنائے گئے، ان میں سے ایک بھی ثابت نہ ہوا، یا کسی پر بھی کوئی کیس دائر کیا گیا تو بس وقت کا زیاں یا ایسے فرد کی کچھ مدت کے لیے اسیری۔ جیسے تازہ واقعہ معروف ماڈل ایان علی کا ہے۔ کس قدر حیران کن ملک ہے ہمارا۔ جہاں قاتل، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ لوگ پکڑے تو جاتے ہیں۔
انھیں سزا نہیں ہوتی۔ وہ باعزت بری ہوکر شکایت کنندگان کو چن چن کر قتل کرتے ہیں، یا سزا دیتے ہیں اور ذمے دار کون۔ اس کے تعین میں بھی مدتیں گزریں۔ کبھی پولیس کو اس کا قصوروار کہا گیا کہ اس کی انٹروگیشن کمزور ہے، اس کا تفتیشی عمل گیا گزرا، وہ رشوت خور ہے۔ کبھی حکومتی سرپرستی اس الزام کا شاخسانہ رہی۔ کبھی ایجنسیز، کبھی اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی۔ اور حقیقی ذمے دار کون نکلا؟ آج تک کوئی نہیں۔
ابھی ایک رپورٹ رینجرز کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جس میں انھوں نے واضح طور پر سندھ پولیس و بیوروکریسی کو امن و امان کے قیام میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کچھ اختیارات عدالت سے مانگے۔ جس میں FIR کا اندراج، اپنے تھانوں کا قیام وغیرہ وغیرہ۔ ان کی فرمائش پوری کرنے میں قباحت نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر سندھ پولیس کا، بیورو کریسی کا کیا ہوگا۔ ان کا کردار کیا رہ جائے گا؟ ان سے کیا کام لیا جائے؟ رینجرز کی رپورٹ سے یہ خوف الگ لاحق ہوا کہ ہم جنھیں محافظ سمجھتے ہیں اگر ان کا کردار اس قدر مشکوک ہے کہ وہ عوام کے خادم نہیں بلکہ برسر اقتدار جماعت کے غلام ہیں۔
تو پھر ہم کہاں رہ رہے ہیں؟ ہم جو عوام شب و روز محنت کرکے ملک کی خدمت کرتے ہیں۔ ملکی محاصل میں اضافہ کرتے ہیں۔ ملک سے محبت رکھتے ہیں، ہم کیا کریں؟ کیا اس انتہائی پیچیدہ صورتحال کو سمجھا جا رہا ہے۔ اگرچہ کچھ ادارے اپنے ایک بیان میں ملک کو ناکام ترین ریاست قرار دے چکے۔ لیکن حل...؟؟ وہ کہاں ہے۔ یہ 20 کروڑ لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے۔
یہ ملک کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ عالمی برادری میں پاکستان کے کردار کے تعین کا سوال ہے۔ احتساب... کیا محض ایک نعرہ ہے۔ دل کا بہلاوا۔ جو پچھلے 50 برسوں سے جاری لیکن نتائج صفر۔ کیا اس کے پیچھے بھی امریکا کا ہاتھ ہے۔ یہود و ہنود کی سازش، یا ''را'' کارفرما۔
اگر میں پوچھ لوں کہ ملک کا حاکم کون ہے؟ رعایا کسے قرار دیا جاتا ہے؟ اداروں کی حدود کی قیود کہاں ہے تو مزید انتشار پھیلے گا۔
معذرت کے ساتھ میری مراد انتشار سے لفظی ہے۔ لیکن پوچھنا تو ہوگا۔ دیکھیے یہ بڑی آسان سی بات ہے کہ ہم جو ہوا اسے بیان کردیں۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک کی موجودہ حالت دگرگوں ہے۔ فاقہ کشی، ظلم و زیادتی، انصاف کا نہ ہونا، احتساب کا ناکام ہوجانا، تعلیم، صحت، بلدیات کا بربادی کی حد کو چھو لینا۔ لیکن محض کہہ دینے سے ہوگا کیا؟ زبان ہلا دینے سے بدلے گا کیا؟ یقین تھا، یقین ہے کہ نظام کا تسلسل مسائل کا حل ہے۔ جمہوریت ہماری بقا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کے علمبردار اب اس کی ناکامی پر تلے ہیں۔ صاف لگتا ہے وہ ایک نئے مارشل لا کو ملک میں دعوت دے رہے ہیں۔
دو تین بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے انداز سیاست کا جائزہ لیجیے۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وہ سب ایسے انا پرست لوگ ہیں جو خودپرستی کے خول سے باہر نکلتے ہی نہیں۔ صاف لگتا ہے انھیں ملک سے پیار نہیں۔ عوام سے محبت نہیں۔ بس غرض ہے تو اپنی ذات سے۔ اپنی دولت میں اضافے سے، اپنے رتبے کے تسلسل سے۔ اپنے بیٹوں، پوتوں، بیٹیوں کی حکومت سے، خاندانی بادشاہت سے۔ جسے بچانے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کسی کو بھی مروا سکتے ہیں۔
کسی بھی دشمن سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ میں ان دنوں بھی نہیں سمجھ پا رہا کہ ہم کس پر بھروسہ کریں؟ رینجرز پر یا حکومت سندھ پر، مصطفیٰ کمال پر یا الطاف حسین پر۔ رہبر پر یا رہزن پر؟ میرا خیال ہے کہ آپ میرے بارے میں یہ رائے قائم کریں گے کہ میں ایک ایسا وہمی یا عاقبت نااندیش شخص ہوں جسے کسی پر بھروسہ نہیں۔ آپ ایسا سوچ سکتے ہیں۔ لیکن میں نے جو کہا اس کا گواہ ماضی بعید بھی ہے، قریب بھی۔ افغان وار سے آپریشن ضرب عضب تک۔ اس قدر پیچ دار، پرخطر، گہری گھاٹیاں ہیں۔ ذرا آنکھ بھٹکی یا بہکی سب ختم یا گڈمڈ۔ہمیں سمت کی تلاش ہے۔ ہم راہ سے بھٹک گئے ہیں، ہمیں رہنمائی کی کھوج ہے۔
ہم بیمار ہیں، مسیحا کی ضرورت ہے۔ ہم فاقہ زدہ ہیں، پسے ہوئے، گھٹے ہوئے، سہمے ہوئے ہیں۔ ہم سے کسی کا احتساب نہیں ہوتا تو براہ کرم ہمارا کردیجیے۔ ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کو ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ اپنے خلاف آپ کو ثبوت فراہم کریں گے، گواہی دیں گے۔ کم سے کم مدت میں آپ کا کیس نمٹوا دیں گے۔ کم ازکم احتساب سے کچھ تو نکلے گا۔ اقوام عالم کو میسج جائے گا کہ پاکستان میں کچھ مجرمین کو سزا بھی ہوئی۔ حضور حاکم احتساب ہم حاضر ہیں۔ کیونکہ نزلہ پھر بھی ہم ہی پر گرنا ہے، تو ہم خود ہی کو پیش کرتے ہیں۔ بقول شاعر:
شکم کی آگ لیے پھر رہے ہیں شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا، ہماری 'نسبت' کیا
استاد محترم افتخار عارف سے معذرت ''ہجرت'' کی جگہ نسبت لگانے پر۔
میں حکومت و نیب کے مابین موجود تناؤ کا حصہ تحریر سے بننے کا بھی خواہش مند نہیں، نہ مجھے حکم اذاں ہے۔ لیکن احتساب کا دائرہ کار دیکھا جائے تو ملک کے طول و عرض میں پھیلا ہے، مثلاً FIA، NAB، احتساب عدالتیں، اینٹی کرپشن کا صوبائی محکمہ، محتسب کورٹس۔ کوچہ کوچہ، قریہ قریہ۔ لیکن بھائی! مثال اسی بسکٹ فیکٹری کی ہے جس میں مل ہے، مشینیں ہیں، بسکٹ بن رہے ہیں۔ بس جہاں سے انھیں باہر آنا ہے۔
وہاں کوئی کھڑکی نہیں نہ شٹر۔ گویا جو کچھ ہوا۔ اندر... تو پھر ملا کیا۔ ایسا عمل جس سے کوئی مستفید نہ ہو۔ اس کے کرنے کے معانی کیا؟ میں اس ضمن میں وہ پرانی مثالیں دہرانا نہیں چاہتا کہ آصف زرداری پر جو کیسز بنائے گئے، ان میں سے ایک بھی ثابت نہ ہوا، یا کسی پر بھی کوئی کیس دائر کیا گیا تو بس وقت کا زیاں یا ایسے فرد کی کچھ مدت کے لیے اسیری۔ جیسے تازہ واقعہ معروف ماڈل ایان علی کا ہے۔ کس قدر حیران کن ملک ہے ہمارا۔ جہاں قاتل، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ لوگ پکڑے تو جاتے ہیں۔
انھیں سزا نہیں ہوتی۔ وہ باعزت بری ہوکر شکایت کنندگان کو چن چن کر قتل کرتے ہیں، یا سزا دیتے ہیں اور ذمے دار کون۔ اس کے تعین میں بھی مدتیں گزریں۔ کبھی پولیس کو اس کا قصوروار کہا گیا کہ اس کی انٹروگیشن کمزور ہے، اس کا تفتیشی عمل گیا گزرا، وہ رشوت خور ہے۔ کبھی حکومتی سرپرستی اس الزام کا شاخسانہ رہی۔ کبھی ایجنسیز، کبھی اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی۔ اور حقیقی ذمے دار کون نکلا؟ آج تک کوئی نہیں۔
ابھی ایک رپورٹ رینجرز کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی جس میں انھوں نے واضح طور پر سندھ پولیس و بیوروکریسی کو امن و امان کے قیام میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کچھ اختیارات عدالت سے مانگے۔ جس میں FIR کا اندراج، اپنے تھانوں کا قیام وغیرہ وغیرہ۔ ان کی فرمائش پوری کرنے میں قباحت نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر سندھ پولیس کا، بیورو کریسی کا کیا ہوگا۔ ان کا کردار کیا رہ جائے گا؟ ان سے کیا کام لیا جائے؟ رینجرز کی رپورٹ سے یہ خوف الگ لاحق ہوا کہ ہم جنھیں محافظ سمجھتے ہیں اگر ان کا کردار اس قدر مشکوک ہے کہ وہ عوام کے خادم نہیں بلکہ برسر اقتدار جماعت کے غلام ہیں۔
تو پھر ہم کہاں رہ رہے ہیں؟ ہم جو عوام شب و روز محنت کرکے ملک کی خدمت کرتے ہیں۔ ملکی محاصل میں اضافہ کرتے ہیں۔ ملک سے محبت رکھتے ہیں، ہم کیا کریں؟ کیا اس انتہائی پیچیدہ صورتحال کو سمجھا جا رہا ہے۔ اگرچہ کچھ ادارے اپنے ایک بیان میں ملک کو ناکام ترین ریاست قرار دے چکے۔ لیکن حل...؟؟ وہ کہاں ہے۔ یہ 20 کروڑ لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے۔
یہ ملک کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ یہ عالمی برادری میں پاکستان کے کردار کے تعین کا سوال ہے۔ احتساب... کیا محض ایک نعرہ ہے۔ دل کا بہلاوا۔ جو پچھلے 50 برسوں سے جاری لیکن نتائج صفر۔ کیا اس کے پیچھے بھی امریکا کا ہاتھ ہے۔ یہود و ہنود کی سازش، یا ''را'' کارفرما۔
اگر میں پوچھ لوں کہ ملک کا حاکم کون ہے؟ رعایا کسے قرار دیا جاتا ہے؟ اداروں کی حدود کی قیود کہاں ہے تو مزید انتشار پھیلے گا۔
معذرت کے ساتھ میری مراد انتشار سے لفظی ہے۔ لیکن پوچھنا تو ہوگا۔ دیکھیے یہ بڑی آسان سی بات ہے کہ ہم جو ہوا اسے بیان کردیں۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک کی موجودہ حالت دگرگوں ہے۔ فاقہ کشی، ظلم و زیادتی، انصاف کا نہ ہونا، احتساب کا ناکام ہوجانا، تعلیم، صحت، بلدیات کا بربادی کی حد کو چھو لینا۔ لیکن محض کہہ دینے سے ہوگا کیا؟ زبان ہلا دینے سے بدلے گا کیا؟ یقین تھا، یقین ہے کہ نظام کا تسلسل مسائل کا حل ہے۔ جمہوریت ہماری بقا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کے علمبردار اب اس کی ناکامی پر تلے ہیں۔ صاف لگتا ہے وہ ایک نئے مارشل لا کو ملک میں دعوت دے رہے ہیں۔
دو تین بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے انداز سیاست کا جائزہ لیجیے۔ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وہ سب ایسے انا پرست لوگ ہیں جو خودپرستی کے خول سے باہر نکلتے ہی نہیں۔ صاف لگتا ہے انھیں ملک سے پیار نہیں۔ عوام سے محبت نہیں۔ بس غرض ہے تو اپنی ذات سے۔ اپنی دولت میں اضافے سے، اپنے رتبے کے تسلسل سے۔ اپنے بیٹوں، پوتوں، بیٹیوں کی حکومت سے، خاندانی بادشاہت سے۔ جسے بچانے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کسی کو بھی مروا سکتے ہیں۔
کسی بھی دشمن سے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ میں ان دنوں بھی نہیں سمجھ پا رہا کہ ہم کس پر بھروسہ کریں؟ رینجرز پر یا حکومت سندھ پر، مصطفیٰ کمال پر یا الطاف حسین پر۔ رہبر پر یا رہزن پر؟ میرا خیال ہے کہ آپ میرے بارے میں یہ رائے قائم کریں گے کہ میں ایک ایسا وہمی یا عاقبت نااندیش شخص ہوں جسے کسی پر بھروسہ نہیں۔ آپ ایسا سوچ سکتے ہیں۔ لیکن میں نے جو کہا اس کا گواہ ماضی بعید بھی ہے، قریب بھی۔ افغان وار سے آپریشن ضرب عضب تک۔ اس قدر پیچ دار، پرخطر، گہری گھاٹیاں ہیں۔ ذرا آنکھ بھٹکی یا بہکی سب ختم یا گڈمڈ۔ہمیں سمت کی تلاش ہے۔ ہم راہ سے بھٹک گئے ہیں، ہمیں رہنمائی کی کھوج ہے۔
ہم بیمار ہیں، مسیحا کی ضرورت ہے۔ ہم فاقہ زدہ ہیں، پسے ہوئے، گھٹے ہوئے، سہمے ہوئے ہیں۔ ہم سے کسی کا احتساب نہیں ہوتا تو براہ کرم ہمارا کردیجیے۔ ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کو ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ اپنے خلاف آپ کو ثبوت فراہم کریں گے، گواہی دیں گے۔ کم سے کم مدت میں آپ کا کیس نمٹوا دیں گے۔ کم ازکم احتساب سے کچھ تو نکلے گا۔ اقوام عالم کو میسج جائے گا کہ پاکستان میں کچھ مجرمین کو سزا بھی ہوئی۔ حضور حاکم احتساب ہم حاضر ہیں۔ کیونکہ نزلہ پھر بھی ہم ہی پر گرنا ہے، تو ہم خود ہی کو پیش کرتے ہیں۔ بقول شاعر:
شکم کی آگ لیے پھر رہے ہیں شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا، ہماری 'نسبت' کیا
استاد محترم افتخار عارف سے معذرت ''ہجرت'' کی جگہ نسبت لگانے پر۔