بِن کھلے‘آرمی پبلک اسکول کا ایک دکھ
’’بابا…مجھے پیلے رنگ کی گاڑی چاہیے۔‘‘’’نہیں بابا…مجھے…مجھے بس پیلے رنگ کی گاڑی میں ہی بیٹھنا ہے۔‘‘
HYDERABAD:
''بابا...مجھے پیلے رنگ کی گاڑی چاہیے۔''''نہیں بابا...مجھے...مجھے بس پیلے رنگ کی گاڑی میں ہی بیٹھنا ہے۔''
منے کی اس خواہش کے جواب میں برکت کی آنکھوں میں مایوسی اور لبوں پر صرف خاموشی تھی۔ جواب دیتا تو بھی کیا۔ بیٹے کا معصوم ذہن باپ کی پیچیدہ مجبوریوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر تھا۔
''جب ہمارا منا بڑا ہوجائے گا، تو ہم اسے ضرور گاڑی دلوائیں گے۔'' زرینہ کھانا لے کر کمرے میں آئی تھی۔ برکت نے زرینہ کی طرف کچھ ایسے دیکھا جیسے مشکل وقت میں ساتھ نبھانے پر اس کا شکریہ ادا کر رہا ہو۔
دونوں ہی اپنی اکلوتی اولاد کا دل توڑنا نہیں چاہتے تھے اسی لیے اس کی معصومانہ خواہشات پر اپنی شفقتوں کا پردہ ڈال دیا کرتے تھے۔ کیسے سمجھاتے اسے کہ ہر ماہ حاصل ہونے والی محدود آمدنی سے گھر کے معاملات ہی بمشکل تمام چل پاتے تھے دیگر آسائشات زندگی کا حصول ان کے لیے ناممکن تھا۔لیکن برکت اور زرینہ نے ایک فیصلہ ضرور کر رکھا تھا ''منے کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا فیصلہ''۔ حالات چاہے کچھ بھی ہوں، زندگی میں کتنی ہی تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے، وہ اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر اس قابل ضرور بنائیں گے کہ وہ ایک کامیاب اور خوش و خرم زندگی گزار سکے۔
آج داخلہ فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔ برکت نہایت بے چینی سے پڑوسی فضل دین کا انتظار کر رہا تھا۔ اسکول میں ادا ہونے والی رقم میں کچھ تو اس کے پاس موجود تھی، باقی کے لیے فضل سے بطور قرض درخواست کی تھی۔
پھر وہ آگیا...
''لو برکت! پیسوں کا انتظام ہوگیا۔''''بہت بہت شکریہ فضل دین! یہ تمہارا احسان ہے ہم پر۔''
''ارے احسان کیسا۔ مشکل وقت میں ہم ایک دوسرے کے کام نہیں آئیں گے تو کون آئے گا۔'' فضل نے برکت کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
''اور ہاں! '' وہ جاتے جاتے مڑا تھا۔ ''پیسوں کی واپسی کی کوئی جلدی نہیں جب ہوں تب دے دینا۔''
فضل کے جاتے ہی برکت فوراً اسکول پہنچا، فارم جمع کروا کر سکون کا سانس لیا۔تپتی دوپہروں میں زندگی کی جنگ لڑتے کچھ وقت ملا تو ایک شام وہ لوگ ساحل سمندر پر آگئے۔ ٹھنڈی ہواؤں اور پرفضا ماحول نے دن بھر کی تھکن کے احساس کو کافی حد تک کم کردیا تھا۔
''اولاد کا ساتھ ماں باپ کے لیے کتنا اطمینان بخش ہوتا ہے ۔'' زرینہ نے بات کا آغاز کیا تھا۔
''ہاں!'' برکت نے اثبات میں سر ہلایا تھا ''اور بچوں کے اچھے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کی تکلیفوں کو جھیلنے کی ہمت آہی جاتی ہے۔''
''خدا سب کو اولاد کی نعمت سے نوازے اور ان کی خوشیاں دکھائے۔'' زرینہ کے الفاظ دعا بن گئے تھے۔
''آمینآ!'' برکت نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تھا۔آج منے کے اسکول کا پہلا دن تھا گویا روشنی کے سفر کی منزل پر پہلا قدم، زرینہ نے فجر کی نماز ادا کی، کچھ عجیب سا احساس تھا ''کچھ ان دیکھا، کچھ انجانا'' جو بوقت دعا زرینہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
ناشتہ بنا کے منے کو تیار کیا۔ اسکول یونیفارم میں وہ بہت پیارا لگ رہا تھا، زرینہ نے بے اختیار اس کا ماتھا چوم لیا تھا۔ نہ جانے کیوں دل نے چاہا کہ آج وہ اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ لیکن اسے تو جانا تھا سو وہ چلا گیا!
''برکت...برکت!'' فضل بھاگتا ہوا آیا تھا۔
''کیا ہوا فضل! خیریت تو ہے؟''
''برکت! وہ...وہ...منا...!''
''کیا ہوا منے کو؟'' برکت کے چہرے کے تاثرات یکدم بدل گئے تھے۔
''منے...منے کے اسکول میں بم دھماکہ ہوا ہے۔''
خبر آسمانی بجلی بن کر گری تھی، برکت دیوانہ وار اسکول کی طرف دوڑا تھا۔
سائرن بجاتی ایمبولینسوں کا شور، لوگوں کی چیخ و پکار اور گریہ و زاری نے ماحول کو انتہائی غمگین بنا رکھا تھا۔ ایسے میں برکت کی نگاہیں اپنے بیٹے کو تلاش کر رہی تھیں۔
''پھر وہ اسے نظر آگیا۔''
پلکیں تھیں کہ جھپکنا بھول گئی تھیں، دل تھا کہ بس رکنے کا منتظر ۔ منے کا زخموں سے چور جسم ایمبولینس میں رکھے اسٹریچر پر تھا۔
''ڈاکٹر صاحب! میں ...میرا منا ٹھیک تو ہوجائے گا ناں؟'' لفظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
''حوصلے سے کام لیں، دعا کریں۔'' منے کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ایمبولینس میں موجود شخص نے جواب دیا تھا۔''قدرت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں، کبھی وہ اپنی خلق کو راحتیں اور خوشیاں دے کر پرکھتا ہے تو کبھی آزمائش دکھ اور غم کی کسوٹی پر ہوتی ہے۔ فلاح اور کامیابی بالآخر انھی لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو اپنے رب کے ہر فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور راضی بہ رضا کا عملی نمونہ بن جاتے ہیں۔دروازے پر دستک ہوئی تو زرینہ کو لگا جیسے منا آگیا۔''ہاں وہ منا ہی تو تھا۔''
پیلے رنگ کی ایمبولینس میں، سفید چادر اوڑھے، منے کا بے جان وجود زرینہ اور برکت کی ایسی کڑی آزمائش تھا جس پر انھیں تاعمر ثابت قدم رہنا تھا۔