جب ظالموں کی لگام کھینچ لی جاتی ہے
لڑکی کو اُتارا گیا۔ ایک بزرگ نے اسے اپنی چادر دے دی کہ ’’بیٹی چادر باندھ لو اور شلوار اُتار دو‘‘ مجمع اکٹھا ہوگیا
HYDERABAD:
''مکافاتِ عمل'' کے ضمن میں پچھلے ایک کالم میں چند واقعات تحریر کیے تو بہت سے دوستوں اور کرمفرماؤں نے کچھ اور سچّے واقعات سنائے (جس میں ظلم کرنے والے پولیس افسر، جج اور صحافی کو دنیا میں بھی سزا ملی)اور قائین سے شیئر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لہٰذا کچھ اور سچّے اور عبرت آموز واقعات تحریر کیے جارہے ہیں۔
محترم جسٹس (ر) عبدالحفیظ چیمہ نے سنایا ہے کہ فیصل آباد سے لاہور جانیوالی بس میں اچانک ایک لڑکی نے کھڑے ہوکر شور مچانا شروع کردیا کہ ''میری شلوار میں سانپ گھُس گیا ہے'' اس پر مسافروں کو تشویش ہوئی اور اُنہوں نے ڈرائیور سے کہا بس روکو۔ ڈرائیور نے سڑک کے کنارے پر لے جاکر بس کھڑی کردی۔
لڑکی کو اُتارا گیا۔ ایک بزرگ نے اسے اپنی چادر دے دی کہ ''بیٹی چادر باندھ لو اور شلوار اُتار دو'' مجمع اکٹھا ہوگیا، اتنے میں ایک موٹر سائیکل سواربھی کہیں سے آکر مجمعے کا حصّہ بن گیا اور پوچھنے لگا کیا ہوا ہے ؟۔ابھی مکالمہ جاری تھا کہ لڑکی نے چادر باندھ کر شلوار اُتار لی۔ سانپ نظر آگیا، اب عینی شاہد بتاتے ہیں کہ سانپ نے مجمعے پر نظر ڈالی اور سیدھا موٹر سائیکل والے شخص کی جانب لپکا اور اچھل کر اس کی پیشانی پر ایسا ڈنگ مارا کہ موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے جوان نے اُدھر ہی چند سیکنڈ میں جان دے دی ۔ سب لوگ اس کی شناخت کے بارے میں متجسّس تھے، پولیس کو بھی اطلاع دے دی گئی۔
موٹر سائیکل کے کیرئر پر ایک بیگ بندھا تھا۔اسے کھولا گیا تو اس میں کسی لڑکی کا کٹا ہواہاتھ تھا جس میں سونے کی چوڑی پہنی ہوئی تھی۔حقائق سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ سانپ کے ڈنگ سے مرنے والے شخص نے لڑکی سے سونے کی چوڑیاں چھیننے کی کوشش کی، لڑکی نے مزاحمت کی تو ظالم نے تیز دھار خنجر سے لڑکی کا بازو ہی کاٹ لیا۔ مگر ایسے ظلم پر عرش بھی کانپ اٹھتا ہے لہٰذا خالق کی طرف سے ظالم کو فوری طور پر سزا دے دی گئی۔
ایسے ہی کچھ واقعات 2005 میں بھی رونما ہوئے جب مجرموں نے زلزلے کے باعث شہید ہونے والی خواتین کا زیور چوری کرنے کے لیے ان کے ہاتھ یا بازو کاٹے مگر قدرت کے دستِ انتقام نے انھیں وہیں دبوچ لیا اور وہ گھر پہنچنے کے بجائے قبر میں اتر گئے۔ ایک اور واقعہ سن لیں!
غلام رسول صاحب ساؤتھ پنجاب کے ایک شہر میں اسکول ٹیچر تھے۔ چار بیٹیوں اور تین بیٹوں کا کنبہ بڑی مشکل سے پال رہے تھے۔ بیٹی سب سے بڑی تھی جو دسویں جماعت میں پڑھتی تھی، باقی بچے ابھی چھوٹے اور پرائمری اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ اُسی شہر کے ایک بدقماش نوجوان نے (جو کسی اخبارسے بھی منسلک تھا) ان کی بڑی بیٹی کا اسکول آتے جاتے وقت پیچھا کرنا شروع کردیا۔
لڑکی نے اپنی ٹیچر کو بتایا مگر کوئی اثر نہ ہوا، لوفر نوجوان نے اس سے ''دوستی کرنے'' کی خواہش کا اظہار کیا۔غریب اور بے کس استاد(جسکی نہ برادری تھی اور نہ پیسہ تھا) کی بیٹی اپنی عزّت بچانے کی خاطر کبھی avoidاور کبھی resist کرتی رہی۔ لوفر نوجوان ہر روز موٹر سائیکل پر اس کے اسکول کے باہر کھڑا ہو جاتا اور چھُٹی کے بعد اسے موٹر سائیکل پر اُسکے ساتھ جانے پراصرار کرتا۔کئی مہینوں تک مزاحمت کرنے کے بعد ایک روز وہ اس خیال سے اس کے ساتھ بیٹھ گئی کہ لڑکے کے والدین سے جاکر شکایت کریگی تاکہ وہ اسے تنگ کرنے سے منع کریں۔
بدقماش صحافی اسے جس مکان میں لے گیا وہاں کوئی بھی نہیں تھا، اُس ویرانے میں وہ لڑکی کو غلط کاری پر اُکساتا رہا مگر وہ نہ مانی تو لڑکے نے اس کے کچھ فوٹو بنالیے اور پھر اسے بلیک میل کرناشروع کردیا کہ خواہشات پوری نہ ہونے کی صورت میں وہ یہ فوٹو اخبار میں چھپوا دے گااور پورے شہر میں بانٹ دیگا۔ اب لڑکی نے مجبورہوکراپنے باپ کو بتادیا۔باپ نے تھانے جاکر شکایت کی مگر تھانیدار نے یہ کہہ کر ٹال دیا ''ماسٹر جی گزارہ کرو صحافی لوگ بڑے بااثر ہوتے ہیں ، میں اسکو گرفتار کروں گاتو اس کی تنظیم میرے افسروں سے جاکرملیگی اور میرا تبادلہ ہوجائیگا اور پھر آپ کے پاس بھی کونسا ثبوت ہے۔
بہتر ہے کہ صلح کرلیں اور کسی پھڈے میں نہ پڑیں''۔ صحافی کو ان تمام چیزوں کی خبر مل رہی تھی لہٰذا اب اس کا ڈر خوف بالکل اتر گیا اور اس نے لڑکی کا جینا دوُبھر کردیا۔ ایک روز چھٹّی کے بعد اس نے لڑکی کو زبردستی موٹر سائیکل پر بٹھایا اور کرائے پر لیے ہوئے ایک ویران کمرے میں لے گیا، اسے رات بھر وہیں رکھا اور معمارِ قوم کی بیٹی سے اس کی سب سے قیمتی چیز عزّت چھین لی۔ صبح مظلوم لڑکی ایک زندہ لاش کیطرح گھر پہنچی توماں کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
ماں نے بیٹی کو سمجھایا کہ بہتر ہے وہ باپ کو کچھ نہ بتائے، ہم غریب اور بے سہارا لوگ ہیں، تمہارا باپ تھانے کچہری کی لڑائیاں نہیں لڑسکتا۔ بیٹی نے کہا ''اماں مجھے زہر دے دو یا گلا گھونٹ دو اب میں زندہ رہنے کے قابل نہیں''۔ ماں نے حوصلہ دینے کی کوشش کی تو بیٹی نے زاروقطار روتے ہوئے کہا ''امّاں!دنیا میں ہمیں کوئی انصاف نہیں دے سکتا تو اﷲ سے میرے لیے انصاف مانگو وہ تو سب سے طاقتور ہے اس کے دربار سے مجھے ضرور انصاف ملیگا''۔ مظلوم بیٹی کو آہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تو بے کس ماں نے جھولی اٹھا کر کائناتوں کے خالق ،مالک ومنصّف سے انصاف کی فریادکی جو آسمانوں کو چیرگئی۔
اگلی صبح جب ماسٹر جی اسکول جارہے تھے تو انھوں نے دیکھا ایک کھمبے کے پاس سڑک پر ایک لاش پڑی ہے جسکا بھیجا کتّے کھا رہے ہیں۔ دوپہر تک لاش کی شناخت ہوچکی تھی ، بدقماش صحافی شراب کے نشے میں موٹر سائیکل پر نکلا تو تیز رفتاری میں بجلی کے کھمبے سے ٹکرا کر ہلاک ہوگیا۔ اصل انصاف تو محشر کے روز ہی ہوگا مگر کچھ کیسوں میں منصفِ اعلیٰ دنیا میں بھی فوری طور پر سزا و جزا دے دیتا ہے۔
ایک اور واقعہ سن لیں۔ عارف بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، وہ بچپن سے ہی ورزش کرتا تھا اور کبڈّی اور کُشتی کا شوقین تھا، سولہ سترہ برس کا ہوا تو دوسرے دیہاتوں کے ساتھ کبڈی کے میچ کھیلنے جاتا اور لوگوں سے خوب داد وصول کرتا۔ ورزش اور ریاضت سے اس کا جسم مضبوط اور پھرتیلا تھا۔ عارف کا والد سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔کثیر العیال ہونے کے باعث گھر میںغربت تھی، عارف کا والدایک روز بیمار ہوگیا۔ بیماری ایسی طویل ہوئی کہ بستر سے الگ نہ ہوسکا اور چند ہفتوں میں ہی بال بچوں کو چھوڑ کر منوں مٹی تلے دفن ہوگیا۔
عارف کے لیے اس کا باپ وراثت میں صرف ریڑھی چھوڑ گیا تھا جو اس نے سنبھال لی اور شام کو سبزی بکنے سے جو پیسے ملتے اس سے گھر کا چولہا جلنے لگا۔ جب کبھی کبڈی کا میچ ہوتا تو عارف ریڑھی لگانے کے بجائے میچ کھیلنے چلا جاتا۔ وہاں سے اسے ملنے والی انعامی رقم اتنی ہوجاتی کہ دو چار دن کی دال روٹی چلتی رہتی۔ پھر گاؤں میں بی ڈی ممبری کا الیکشن آگیا۔
الیکشن کے روز شام کو راجپوتوں کے لڑکے ڈنڈے سوٹے لے کر آگئے انھوں نے بیلٹ بکس اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی تو عارف (جو دوسرے امیدوار کا حمایتی تھا) نے انھیں روکا۔ تین چار لڑکے اس پر حملہ آور ہوئے مگر وہ پھرتیلا اور مضبوط تھا، انھی میں سے ایک کا ڈنڈا چھین کر اس نے حملہ آوروں کی پٹائی بھی کی اور ووٹوں کا بکس بھی اٹھانے نہ دیا۔ اب رانوں نے دل میں عارف سے انتقام لینے کی ٹھان لی۔ مقامی تھانے والوں سے ملکر انھوں نے عارف کے خلاف ایک دو پرچے کرائے جس میں کچھ دنوں کے بعد وہ ضمانت پر جیل سے واپس آجاتا رہا۔
کچھ عرصے بعد رانوں کو موقع میّسر آگیا۔ قریبی گاؤں میں میلہ تھا، وہاں کبڈّی کے دوران جھگڑا ہوگیا، ایک فریق نے فائرنگ کردی جس میں رانا گروپ کا ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ عارف کا لڑائی سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ اس میں شامل بھی نہیں تھا مگر رانوں نے تھانیدار کو اچھی خاصی رشوت دیکر عارف کو قتل کے کیس میں چالان کرادیا۔ رانے بااثر بھی تھے اور پیسے والے بھی۔ ان کے ڈر کی وجہ سے کوئی بھی عارف کی کھل کر مدد کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔
عارف کی ماں غربت میں پسی ہوئی ایک بیو ہ عورت تھی۔ مقدمے کی تاریخوں پر جانے کے لیے یا وکیل کرنے کے لیے اس کے پاس کو ئی پیسہ نہ تھا ۔ لوگوں سے کرایہ ادھار مانگ کر وہ کچھ تاریخوں پر جاتی رہی۔ مگر پھرادھار بند ہوگیاتو اس کا بیٹے کی پیشی پر جانا بھی بند ہوگیا۔ اب وہ مصّلے پر سجدہ ریز ہو کر مُنصفِ حقیقی سے بیٹے کی رہائی کی دعائیں مانگتی رہتی۔کبھی گھر سے نکلتی تو ہر شخص سے پوچھتی ''میرا بیٹا تو بے گناہ ہے اسے کیوں جیل میں بند کیا ہوا ہے؟ میر ابیٹا کب باہر آئیگا؟'' ۔
پورے علاقے میں بھی اور تھانے کچہری میں بھی سب کو معلوم تھا کہ عارف اس کیس میں بے گناہ ہے۔ مگر پھر کچہری میں یہ بھی مشہور ہوگیا کہ رانوں نے کام پکا کر لیا ہے۔ مقدمہ اس جج کے پاس لگوایا ہے جو راشی ہے اور عارف کو سزا دلوانے کے لیے جج کو موٹی رقم بھی دے دی گئی ہے ۔ جس روز فیصلے کی تاریخ تھی عارف کی ماں سارا دن مصّلے پر رہی، نمازیں پرھتی اور دعائیں مانگتی رہی۔ شام کو گاؤںکے کسی آدمی نے اسے آکر بتایا کہ عارف کو پھانسی کی سزا ہوگئی ہے تو ماں وہیں بے ہوش ہوکر گرپڑی اور پھر زندہ نہ اُٹھ سکی ۔
جب انسانوں کی دنیا میں انصاف کے سب دروازے بند ہوجائیں تو خدائے ذوالجلال کا جلال جوش میں آتا ہے اور انصاف کے فرشتوں کو احکامات دے دیے جاتے ہیں۔ فیصلے سے گزشتہ روز ایک ایکسیڈنٹ ہوا جس میں عارف کو پیسے لے کر چالان کرنے والا تفتیشی افسر مارا گیا، اس سے گزشتہ روز ایک حادثے میں رشوت لے کر بے گناہ عارف کو سزادینے والے جج کا اکلوتا بیٹا ہلاک ہوگیا اور تین روز بعد میں رانوں کا جوان بھائی موت کے منہ میں چلا گیا۔ ظالم بے لگام بھی ہوتے ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ظالموں کی لگام کھینچ لی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے پولیس سروس کے دوران جب بھی کسی کا ظالمانہ فعل میرے علم میں آیا اور ثابت بھی ہوگیا تو پھر وہ بچ نہیں سکا اور نشانِ عبرت بنادیا گیا۔
آئیں ملکر دعا کریں کہ اے کائناتوں کے خالق اور مالک! اگر ہمارے دل میں کسی انسان کے ساتھ ظلم یا زیادتی کو خواہش پیدا ہوتو ہم سے ایسا کرنے کی طاقت اور صلاحیّت چھین لے۔
''مکافاتِ عمل'' کے ضمن میں پچھلے ایک کالم میں چند واقعات تحریر کیے تو بہت سے دوستوں اور کرمفرماؤں نے کچھ اور سچّے واقعات سنائے (جس میں ظلم کرنے والے پولیس افسر، جج اور صحافی کو دنیا میں بھی سزا ملی)اور قائین سے شیئر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لہٰذا کچھ اور سچّے اور عبرت آموز واقعات تحریر کیے جارہے ہیں۔
محترم جسٹس (ر) عبدالحفیظ چیمہ نے سنایا ہے کہ فیصل آباد سے لاہور جانیوالی بس میں اچانک ایک لڑکی نے کھڑے ہوکر شور مچانا شروع کردیا کہ ''میری شلوار میں سانپ گھُس گیا ہے'' اس پر مسافروں کو تشویش ہوئی اور اُنہوں نے ڈرائیور سے کہا بس روکو۔ ڈرائیور نے سڑک کے کنارے پر لے جاکر بس کھڑی کردی۔
لڑکی کو اُتارا گیا۔ ایک بزرگ نے اسے اپنی چادر دے دی کہ ''بیٹی چادر باندھ لو اور شلوار اُتار دو'' مجمع اکٹھا ہوگیا، اتنے میں ایک موٹر سائیکل سواربھی کہیں سے آکر مجمعے کا حصّہ بن گیا اور پوچھنے لگا کیا ہوا ہے ؟۔ابھی مکالمہ جاری تھا کہ لڑکی نے چادر باندھ کر شلوار اُتار لی۔ سانپ نظر آگیا، اب عینی شاہد بتاتے ہیں کہ سانپ نے مجمعے پر نظر ڈالی اور سیدھا موٹر سائیکل والے شخص کی جانب لپکا اور اچھل کر اس کی پیشانی پر ایسا ڈنگ مارا کہ موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے جوان نے اُدھر ہی چند سیکنڈ میں جان دے دی ۔ سب لوگ اس کی شناخت کے بارے میں متجسّس تھے، پولیس کو بھی اطلاع دے دی گئی۔
موٹر سائیکل کے کیرئر پر ایک بیگ بندھا تھا۔اسے کھولا گیا تو اس میں کسی لڑکی کا کٹا ہواہاتھ تھا جس میں سونے کی چوڑی پہنی ہوئی تھی۔حقائق سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ سانپ کے ڈنگ سے مرنے والے شخص نے لڑکی سے سونے کی چوڑیاں چھیننے کی کوشش کی، لڑکی نے مزاحمت کی تو ظالم نے تیز دھار خنجر سے لڑکی کا بازو ہی کاٹ لیا۔ مگر ایسے ظلم پر عرش بھی کانپ اٹھتا ہے لہٰذا خالق کی طرف سے ظالم کو فوری طور پر سزا دے دی گئی۔
ایسے ہی کچھ واقعات 2005 میں بھی رونما ہوئے جب مجرموں نے زلزلے کے باعث شہید ہونے والی خواتین کا زیور چوری کرنے کے لیے ان کے ہاتھ یا بازو کاٹے مگر قدرت کے دستِ انتقام نے انھیں وہیں دبوچ لیا اور وہ گھر پہنچنے کے بجائے قبر میں اتر گئے۔ ایک اور واقعہ سن لیں!
غلام رسول صاحب ساؤتھ پنجاب کے ایک شہر میں اسکول ٹیچر تھے۔ چار بیٹیوں اور تین بیٹوں کا کنبہ بڑی مشکل سے پال رہے تھے۔ بیٹی سب سے بڑی تھی جو دسویں جماعت میں پڑھتی تھی، باقی بچے ابھی چھوٹے اور پرائمری اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ اُسی شہر کے ایک بدقماش نوجوان نے (جو کسی اخبارسے بھی منسلک تھا) ان کی بڑی بیٹی کا اسکول آتے جاتے وقت پیچھا کرنا شروع کردیا۔
لڑکی نے اپنی ٹیچر کو بتایا مگر کوئی اثر نہ ہوا، لوفر نوجوان نے اس سے ''دوستی کرنے'' کی خواہش کا اظہار کیا۔غریب اور بے کس استاد(جسکی نہ برادری تھی اور نہ پیسہ تھا) کی بیٹی اپنی عزّت بچانے کی خاطر کبھی avoidاور کبھی resist کرتی رہی۔ لوفر نوجوان ہر روز موٹر سائیکل پر اس کے اسکول کے باہر کھڑا ہو جاتا اور چھُٹی کے بعد اسے موٹر سائیکل پر اُسکے ساتھ جانے پراصرار کرتا۔کئی مہینوں تک مزاحمت کرنے کے بعد ایک روز وہ اس خیال سے اس کے ساتھ بیٹھ گئی کہ لڑکے کے والدین سے جاکر شکایت کریگی تاکہ وہ اسے تنگ کرنے سے منع کریں۔
بدقماش صحافی اسے جس مکان میں لے گیا وہاں کوئی بھی نہیں تھا، اُس ویرانے میں وہ لڑکی کو غلط کاری پر اُکساتا رہا مگر وہ نہ مانی تو لڑکے نے اس کے کچھ فوٹو بنالیے اور پھر اسے بلیک میل کرناشروع کردیا کہ خواہشات پوری نہ ہونے کی صورت میں وہ یہ فوٹو اخبار میں چھپوا دے گااور پورے شہر میں بانٹ دیگا۔ اب لڑکی نے مجبورہوکراپنے باپ کو بتادیا۔باپ نے تھانے جاکر شکایت کی مگر تھانیدار نے یہ کہہ کر ٹال دیا ''ماسٹر جی گزارہ کرو صحافی لوگ بڑے بااثر ہوتے ہیں ، میں اسکو گرفتار کروں گاتو اس کی تنظیم میرے افسروں سے جاکرملیگی اور میرا تبادلہ ہوجائیگا اور پھر آپ کے پاس بھی کونسا ثبوت ہے۔
بہتر ہے کہ صلح کرلیں اور کسی پھڈے میں نہ پڑیں''۔ صحافی کو ان تمام چیزوں کی خبر مل رہی تھی لہٰذا اب اس کا ڈر خوف بالکل اتر گیا اور اس نے لڑکی کا جینا دوُبھر کردیا۔ ایک روز چھٹّی کے بعد اس نے لڑکی کو زبردستی موٹر سائیکل پر بٹھایا اور کرائے پر لیے ہوئے ایک ویران کمرے میں لے گیا، اسے رات بھر وہیں رکھا اور معمارِ قوم کی بیٹی سے اس کی سب سے قیمتی چیز عزّت چھین لی۔ صبح مظلوم لڑکی ایک زندہ لاش کیطرح گھر پہنچی توماں کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
ماں نے بیٹی کو سمجھایا کہ بہتر ہے وہ باپ کو کچھ نہ بتائے، ہم غریب اور بے سہارا لوگ ہیں، تمہارا باپ تھانے کچہری کی لڑائیاں نہیں لڑسکتا۔ بیٹی نے کہا ''اماں مجھے زہر دے دو یا گلا گھونٹ دو اب میں زندہ رہنے کے قابل نہیں''۔ ماں نے حوصلہ دینے کی کوشش کی تو بیٹی نے زاروقطار روتے ہوئے کہا ''امّاں!دنیا میں ہمیں کوئی انصاف نہیں دے سکتا تو اﷲ سے میرے لیے انصاف مانگو وہ تو سب سے طاقتور ہے اس کے دربار سے مجھے ضرور انصاف ملیگا''۔ مظلوم بیٹی کو آہ و زاری کرتے ہوئے دیکھا تو بے کس ماں نے جھولی اٹھا کر کائناتوں کے خالق ،مالک ومنصّف سے انصاف کی فریادکی جو آسمانوں کو چیرگئی۔
اگلی صبح جب ماسٹر جی اسکول جارہے تھے تو انھوں نے دیکھا ایک کھمبے کے پاس سڑک پر ایک لاش پڑی ہے جسکا بھیجا کتّے کھا رہے ہیں۔ دوپہر تک لاش کی شناخت ہوچکی تھی ، بدقماش صحافی شراب کے نشے میں موٹر سائیکل پر نکلا تو تیز رفتاری میں بجلی کے کھمبے سے ٹکرا کر ہلاک ہوگیا۔ اصل انصاف تو محشر کے روز ہی ہوگا مگر کچھ کیسوں میں منصفِ اعلیٰ دنیا میں بھی فوری طور پر سزا و جزا دے دیتا ہے۔
ایک اور واقعہ سن لیں۔ عارف بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا، وہ بچپن سے ہی ورزش کرتا تھا اور کبڈّی اور کُشتی کا شوقین تھا، سولہ سترہ برس کا ہوا تو دوسرے دیہاتوں کے ساتھ کبڈی کے میچ کھیلنے جاتا اور لوگوں سے خوب داد وصول کرتا۔ ورزش اور ریاضت سے اس کا جسم مضبوط اور پھرتیلا تھا۔ عارف کا والد سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔کثیر العیال ہونے کے باعث گھر میںغربت تھی، عارف کا والدایک روز بیمار ہوگیا۔ بیماری ایسی طویل ہوئی کہ بستر سے الگ نہ ہوسکا اور چند ہفتوں میں ہی بال بچوں کو چھوڑ کر منوں مٹی تلے دفن ہوگیا۔
عارف کے لیے اس کا باپ وراثت میں صرف ریڑھی چھوڑ گیا تھا جو اس نے سنبھال لی اور شام کو سبزی بکنے سے جو پیسے ملتے اس سے گھر کا چولہا جلنے لگا۔ جب کبھی کبڈی کا میچ ہوتا تو عارف ریڑھی لگانے کے بجائے میچ کھیلنے چلا جاتا۔ وہاں سے اسے ملنے والی انعامی رقم اتنی ہوجاتی کہ دو چار دن کی دال روٹی چلتی رہتی۔ پھر گاؤں میں بی ڈی ممبری کا الیکشن آگیا۔
الیکشن کے روز شام کو راجپوتوں کے لڑکے ڈنڈے سوٹے لے کر آگئے انھوں نے بیلٹ بکس اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی تو عارف (جو دوسرے امیدوار کا حمایتی تھا) نے انھیں روکا۔ تین چار لڑکے اس پر حملہ آور ہوئے مگر وہ پھرتیلا اور مضبوط تھا، انھی میں سے ایک کا ڈنڈا چھین کر اس نے حملہ آوروں کی پٹائی بھی کی اور ووٹوں کا بکس بھی اٹھانے نہ دیا۔ اب رانوں نے دل میں عارف سے انتقام لینے کی ٹھان لی۔ مقامی تھانے والوں سے ملکر انھوں نے عارف کے خلاف ایک دو پرچے کرائے جس میں کچھ دنوں کے بعد وہ ضمانت پر جیل سے واپس آجاتا رہا۔
کچھ عرصے بعد رانوں کو موقع میّسر آگیا۔ قریبی گاؤں میں میلہ تھا، وہاں کبڈّی کے دوران جھگڑا ہوگیا، ایک فریق نے فائرنگ کردی جس میں رانا گروپ کا ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ عارف کا لڑائی سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ اس میں شامل بھی نہیں تھا مگر رانوں نے تھانیدار کو اچھی خاصی رشوت دیکر عارف کو قتل کے کیس میں چالان کرادیا۔ رانے بااثر بھی تھے اور پیسے والے بھی۔ ان کے ڈر کی وجہ سے کوئی بھی عارف کی کھل کر مدد کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔
عارف کی ماں غربت میں پسی ہوئی ایک بیو ہ عورت تھی۔ مقدمے کی تاریخوں پر جانے کے لیے یا وکیل کرنے کے لیے اس کے پاس کو ئی پیسہ نہ تھا ۔ لوگوں سے کرایہ ادھار مانگ کر وہ کچھ تاریخوں پر جاتی رہی۔ مگر پھرادھار بند ہوگیاتو اس کا بیٹے کی پیشی پر جانا بھی بند ہوگیا۔ اب وہ مصّلے پر سجدہ ریز ہو کر مُنصفِ حقیقی سے بیٹے کی رہائی کی دعائیں مانگتی رہتی۔کبھی گھر سے نکلتی تو ہر شخص سے پوچھتی ''میرا بیٹا تو بے گناہ ہے اسے کیوں جیل میں بند کیا ہوا ہے؟ میر ابیٹا کب باہر آئیگا؟'' ۔
پورے علاقے میں بھی اور تھانے کچہری میں بھی سب کو معلوم تھا کہ عارف اس کیس میں بے گناہ ہے۔ مگر پھر کچہری میں یہ بھی مشہور ہوگیا کہ رانوں نے کام پکا کر لیا ہے۔ مقدمہ اس جج کے پاس لگوایا ہے جو راشی ہے اور عارف کو سزا دلوانے کے لیے جج کو موٹی رقم بھی دے دی گئی ہے ۔ جس روز فیصلے کی تاریخ تھی عارف کی ماں سارا دن مصّلے پر رہی، نمازیں پرھتی اور دعائیں مانگتی رہی۔ شام کو گاؤںکے کسی آدمی نے اسے آکر بتایا کہ عارف کو پھانسی کی سزا ہوگئی ہے تو ماں وہیں بے ہوش ہوکر گرپڑی اور پھر زندہ نہ اُٹھ سکی ۔
جب انسانوں کی دنیا میں انصاف کے سب دروازے بند ہوجائیں تو خدائے ذوالجلال کا جلال جوش میں آتا ہے اور انصاف کے فرشتوں کو احکامات دے دیے جاتے ہیں۔ فیصلے سے گزشتہ روز ایک ایکسیڈنٹ ہوا جس میں عارف کو پیسے لے کر چالان کرنے والا تفتیشی افسر مارا گیا، اس سے گزشتہ روز ایک حادثے میں رشوت لے کر بے گناہ عارف کو سزادینے والے جج کا اکلوتا بیٹا ہلاک ہوگیا اور تین روز بعد میں رانوں کا جوان بھائی موت کے منہ میں چلا گیا۔ ظالم بے لگام بھی ہوتے ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ظالموں کی لگام کھینچ لی جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے پولیس سروس کے دوران جب بھی کسی کا ظالمانہ فعل میرے علم میں آیا اور ثابت بھی ہوگیا تو پھر وہ بچ نہیں سکا اور نشانِ عبرت بنادیا گیا۔
آئیں ملکر دعا کریں کہ اے کائناتوں کے خالق اور مالک! اگر ہمارے دل میں کسی انسان کے ساتھ ظلم یا زیادتی کو خواہش پیدا ہوتو ہم سے ایسا کرنے کی طاقت اور صلاحیّت چھین لے۔