دل سوز سے خالی ہے حصہ اول
انھوں نے مخصوص نظریے کی عینک اتار کر حقائق تلاش کرنے شروع کردیے
اچھے ادب کی پہچان یہ ہے کہ لوگ اسے پڑھ کر اداس ہوجاتے ہیں۔ معروف ادیب الڈس ہکسلے کے اس قول کی ڈاکٹر طاہر مسعود کے کالموں کے مطالعے کے بعد تصدیق ہوتی ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود بنیادی طور پر استاد ہیں مگر اپنے مختصر افسانوں، شاعری، کالموں، انٹرویوز اور صحافتی تحقیق کی بناء پر پاکستان او ربھارت میں بھی پہچانے جاتے ہیں۔ طاہر مسعود بنگلہ دیش کے شہر راج شاہی میں پیدا ہوئے۔ بنگلہ دیش کی آزادی سے کچھ عرصے قبل کراچی آگئے۔
جامعہ ملیہ کالج اور کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ زمانۂ طالب علمی میں دائیں بازو کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے۔ پھر مختلف رسائل اور اخبارات میں طالع آزمائی کرتے رہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوئے۔ 19 ویں صدی کی اردو صحافت پر تحقیق کے لیے پاکستان اور بھارت کے مختلف شہروں کے کتب خانوں کی خاک چھانی، یوں تحقیق کے ساتھ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے ملنے سے ان کے خیالات میں تبدیلی رونما ہوئی۔
انھوں نے مخصوص نظریے کی عینک اتار کر حقائق تلاش کرنے شروع کردیے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کی نئی کتاب ''دل سوز سے خالی ہے'' ان کے کالموں پر مشتمل ہے ۔ یہ کتاب تقریباً 296 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں 100 کے قریب کالم شامل ہیں۔ ڈاکٹر طاہر مسعود مختصر جملے لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے کالم بہت زیادہ طویل نہیں ہیں مگر زندگی کے ہر موضوع پر ایک جھنجھوڑنے والے سوال پر ختم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کالم ''روشنی کی تلاش'' میں لکھتے ہیں کہ اخبارات کی آزادی کی حفاظت خود اخبارات تنہا نہیں کر سکتے، حکومت، سیاسی جماعتیں اور رائے عامہ کو بھی ذمے داری اٹھانا ہوگی۔
ڈاکٹر طاہر مسعود کے یہ جملے جمہوریت اور آزادئ صحافت کے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ جمہوری نظام کے لیے آزادئ صحافت ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں آزادئ صحافت کے حق کو تحفظ دے کر جمہوری نظام کو مستحکم کرسکتی ہیں۔ وہ اسی کالم میں لکھتے ہیں کہ پچھلے دنوں میں نے کراچی ایئرپورٹ سے آتے ہوئے ایک مذہبی جماعت کا جلوس دیکھا ۔یہ جلوس ٹرکوں، بسوں اور کاروں سے لدا پھدا چلا آرہا ہے۔ جلوس کے بیشتر شرکاء جو باریش تھے سروں پر ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں اور ہاتھوں میں اسلحہ اٹھایا ہوا تھا۔ نوجوان علماء کرام ریوالور کی نال سے جلوس کے لیے راستہ بنا رہے تھے۔
یہ دیکھ کر ایک لمحے کے لیے میں ششدر رہ گیا، حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ ''روشنی گل ہوگئی ہے ''کے عنوان سے شایع ہونے والے کالم میں لکھتے ہیں کہ کل میں بے چین شہر میں گھومتا رہا۔ میں گھومتے پھرتے خون جمع کرنے والے ایک کیمپ میں پہنچا۔ اس کیمپ میں خون کے عطیات دینے والوں کی بھیڑ اکٹھی تھی۔ ان میں نوجوان لڑکے لڑکیاں تھیں، ادھیڑ عمر اشخاص تھے۔ ان کے دل فسادات سے بجھے ہوئے تھے لیکن ان کے چہروں پر میں نے وہ تحریر پڑھی جو میرے لیے مایوسی میں امید کی کرن بن کر جھلملانے لگی۔
ان کے چہرے خاموشی سے یہ کہہ رہے تھے کہ ہم فسادی بھیڑیوں اور خونی درندوں کے ہاتھوں سے کلاشنکوف تو نہیں چھین سکتے مگر ان مظلوموں کو زندہ رکھنے کے لیے ہم اپنے جسم کا آخری قطرہ خون بھی نذر کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اپنے ایک اور کالم بعنوان '' روشنی کے سائے'' میں لکھتے ہیں کہ آج کا المیہ ہے کہ گھر چیزوں سے بھرے ہوئے ہیں، کچن کھانے پکانے کی اشیاء سے ، ڈرائنگ روم دیکھنے دکھانے کے سامان سے اور الماریاںپہننے اوڑھنے کے زرق برق ملبوسات سے، کسی بلندی سے دیکھیں تو ہر طرف عمارتوں کے جنگل اگے ہوئے ہیں، سڑکیں گاڑیوں کے سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہیں، بازار اور شاپنگ سینٹر خریداروں کے ہجوم سے آباد ہیں، ریستورانوں اور فاسٹ فوڈ کے مراکز پر لوگ ٹوٹے ہوئے ہیں لیکن ان سب کے پاس سکون ہے۔
وہ ''طبقہ امراء کی عیاشیاں'' کے موضوع کے تحت کراچی جم خانہ کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ اب ادبی کمیٹی کے تحت ادب کی سرپرستی کا رویہ بھی نظر آتا ہے لیکن یہاں کی ادبی محفلوں سے کبھی کبھار ادیب حضرات بہت بدمزہ ہوجاتے ہیں کیونکہ حاضرین میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جو ادبی محفل اور اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ میں فرق ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔ افسانہ اس طرح سنتے ہیں جیسے رات کے خبرنامے کے بعد سونے اور چاندی کے تازہ بھاؤ سن رہے ہوں اور گھٹیا اشعار پر جی کھول کر داد دیتے ہیں، کبھی بخل کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ادب کی ان کی نظروں میں بس اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کھانے میں اچار یا چینی ہوسکتی ہے۔
وہ اپنے کالم ''ذرا سی دیر کو بجلی کی لہر آئی تھی'' میں لکھتے ہیں کہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ بجلی روٹھی ہوئی تھی ، میں کمرے کی گھٹن سے بچنے کے لیے سڑک کی طرف کھلنے والی کھڑکی سے دور ایئرپورٹ کی روشنیوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اکیسویں صدی کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ہم خود کو کب تک آٹھویں صدی میں محسوس کرتے رہیں گے؟ یکایک ایک حقیقت میرے قلب پر منکشف ہوئی کہ بجلی جانے کا غصہ اس لیے ہے کہ میں نے اپنے چین و آرام کو اس کی موجودگی پر منحصر کرلیا ہے۔ میں بجلی اور اس سے چلنے اور آرام پہنچانے والی چیزوں کا عادی ہوگیا ہوں۔
جناب والا پھر یہ ہوا کہ اب بجلی کے چلے جانے کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میں سخت گرمی میں بھی سو جاتا ہوں، گرم پانی بھی پی لیتا ہوں، ٹی وی کو میں پہلے ہی بے دخل کرچکا ہوں، ایئرکنڈیشنر کی استطاعت نہیں رکھتا اور میں بجلی سے آزاد ہوں۔ میری بلا سے آئے یا نہ آئے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نوجوانوں کے والدین کو چھوڑ کر بیرون ملک جانے سے پیدا ہونے والے سماجی مسئلے کی منظر کشی کرتے ہیں۔
وہاں ماں، آج مدرز ڈے، ماؤں کا دن، آج کے دن سب بیٹے بیٹیاں اپنی ماؤں کو یاد کرتے ہیں۔ ان سے باتیں کرتے ہیں، ان کا جی بہلاتے ہیں اور وہاں آج کے ٹیلیفون کال بھی سننی ہوتی ہے۔ طاہر مسعود کی اس کتاب میں ایک کالم گھریلو تشدد کے بارے میں ہے۔ وہ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یوں منظر کشی کرتے ہیں کہ پانی کے قطرے کہاں سے ٹپکتے ہیں؟ میں نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے بیوی سے پوچھا یہ پانی کے قطرے نہیں شہناز کے آنسو ہیں۔
(جاری ہے)