سندھ ایک حقیقی پولیس اسٹیٹ
گزشتہ آٹھ سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت کے ماتحت سندھ صوبہ ملک کا واحد صوبہ بن گیا ہے
گزشتہ آٹھ سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت کے ماتحت سندھ صوبہ ملک کا واحد صوبہ بن گیا ہے جس کی پولیس کے خلاف رینجرز نے سپریم کورٹ میں چارج شیٹ پیش کر دی ہے، جو ایک وفاقی ادارے کا صوبائی پولیس پر مکمل عدم اعتماد ہے، اس کے علاوہ ملک کی عدالت عظمیٰ متعدد بار سندھ پولیس کی کارکردگی پر عدم اعتماد کر کے اس کی پیش کردہ امن و امان سے متعلق رپورٹس بھی مسترد کر چکی ہے۔
سپریم کورٹ نے 20 ماہ بعد امن و امان سے متعلق کراچی میں سماعت کے دوران پولیس کی دوسری رپورٹ بھی مسترد کر دی اور پولیس رپورٹ کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے کہاکہ لگتا ہے کہ پولیس اور آئی جی پولیس عدالت عظمیٰ کو کچھ بتانا ہی نہیں چاہتے۔ آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی ملک کے واحد اعلیٰ پولیس افسر ہیں جن کی غیر ذمے داری پر سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج نے تو یہاں تک ریمارکس دیے کہ آئی جی سندھ کو پولیس وردی میں رہنے کا حق نہیں ہے۔
آئی جی کے اعتراض پر فاضل جج نے اپنے مذکورہ ریمارکس کو درست قرار دیا۔ کراچی میں امن و امان سے متعلق سوال پر عدالت عظمیٰ آئی جی پر پھر برہم ہو گئی، جب آئی جی پولیس سندھ نے کہا کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی اس سلسلے میں مجھ سے بہتر بتا سکتے ہیں، اس جواب پر فاضل جج بھی حیران ہوئے اور پوچھا کہ کیا کراچی پولیس سندھ پولیس سے علیحدہ ہے؟
سپریم کورٹ آئی جی پی کے یہ کہنے پر بھی خفا ہوئی کہ سندھ میں تھانیداروں کے جلد تبادلے اس لیے بھی کر دیے جاتے ہیں کہ پنجاب میں بھی ایس ایچ او کی تعیناتی کی اوسط مدت ڈیڑھ ماہ ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ہر تھانے کے ایس ایچ او کو اپنے مخبروں کی مدد سے اپنا سیٹ اپ بنانے میں وقت درکار ہوتا ہے، مگر ایک سال میں تھانے کا ایس ایچ او چھ سات بار تبدیل ہو گا تو وہ کارکردگی کیسے دکھا پائے گا؟
چیف جسٹس سپریم کورٹ انور ظہیر جمالی نے یہاں تک ریمارکس دیے کہ سنگین مقدمہ کو ایک ہی روز میں اے کلاس کر دیا جاتا ہے، عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اغوا برائے تاوان کے سزایافتہ مجرموں کو سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے رہا کر دیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے متعلقہ ہوم سیکریٹری اور ڈائریکٹر پے رول کو بھی طلب کر لیا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ دس گیارہ سال قبل اس وقت کے پیپلزپارٹی ہی کے صدر مملکت فاروق لغاری نے سندھ میں پی پی ہی کی حکومت میں کہا تھا کہ انھیں معلوم ہے کہ کراچی میں تھانے فروخت ہوتے ہیں اور کراچی کا ایئرپورٹ تھانہ ایک کروڑ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ تھانے فروخت ہونے کا الزام پی پی کے اپنے ہی صدر نے لگایا تھا، اپوزیشن نے نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ سندھ حکومت میں کراچی کے مختلف تھانوں میں ایک سال میں چھ سات ایس ایچ او تبدیل ہوئے جس پر سپریم کورٹ بھی خاموش نہ رہ سکی اور جلدی جلدی تبادلوں پر بھی سرزنش کی گئی۔
سندھ کے آئی جی پولیس ملک کے واحد آئی جی ثابت ہوئے ہیں، جنھوں نے اپنے ہی تین ڈی آئی جیز کو برادر یوسف قرار دے دیا ہے اور اپنے خلاف رپورٹ تیار کرنے والے اعلیٰ پولیس افسروں پر بھی الزامات عائد کر دیے ہیں۔ سندھ کے آئی جی پولیس پر توہین عدالت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے جس پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے جج پر الزامات لگائے اور اب سپریم کورٹ کے فاضل جج پر بھی تعصب برتنے کا الزام عائد کر دیا ہے جس پر دیگر ججوں کو یہ کہنا پڑا کہ جج کسی وجہ سے متعصب نہیں ہوتا اور بینچ کی تشکیل فریقین پر نہیں چھوڑی جا سکتی۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں جس بینچ نے کراچی میں امن و امان سے متعلق مقدمے کی سماعت کی اس میں عدالت عظمیٰ کو تین ڈی آئی جیز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ تفتیشی پولیس کے فنڈ اور سندھ پولیس کی بھرتیوں میں جو بدعنوانیاں اور سنگین بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، اس کے ذمے دار بھی موجودہ آئی جی پولیس ہیں، رپورٹ میں یہ حیران کن انکشاف بھی کیا گیا کہ 21 کروڑ روپے تفتیشی افسران میں غیر قانونی طور پر نقد تقسیم کیے گئے، جب کہ سرکاری رقم کی ادائیگی بذریعہ چیک ہوتی ہے۔
سندھ کے تین اضلاع میں چھ کروڑ روپے خلاف ضابطہ جاری کیے گئے اور سکھر کی اسپیشل برانچ کو بھی خلاف ضابطہ پچاس لاکھ روپے ادا کیے گئے جو رقم غیر قانونی طور پر خرچ کی گئی ان کے واؤچرز پر ایس پیز کے دستخط تو ہیں مگر خرچ کی تفصیل موجود نہیں ہے۔ آئی جی پولیس نے خود عدالت میں بتایا کہ سندھ میں جو پولیس میں 15 ہزار بھرتیاں ہوئی ہیں۔
ان میں 5 ہزار غیر قانونی ہیں اور سنگین بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ جن میں مذکورہ اعلیٰ افسران خود ملوث تھے جن کا انھوں نے تحقیقاتی رپورٹ میں ذکر تک نہیں کیا۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے سپریم کورٹ کو موجودہ آئی جی پولیس کے متعلق رپورٹ میں بتایا کہ ایک ہی روز میں چالیس کروڑ روپے آئی جی کے گن مین کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے گئے اور سکھر کے ایک پٹرول پمپ کو ایک روز میں سات کروڑ روپے کی ادائیگی دکھائی گئی ہے، جس کی پمپ مالک نے تصدیق نہیں کی اور دس کروڑ روپے نقد اسپیشل پولیس فنڈ میں دکھائی گئی ہے جو سراسر غلط اور غیر قانونی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے سولہ صفحات کے فیصلے میں نیب کو سندھ پولیس میں ہونے والی کرپشن اور غیر قانونی بھرتیوں کی رپورٹ چار ہفتوں میں مکمل کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے اور کہا ہے کہ ایسی صورتحال میں آئی جی پولیس کا عہدے پر رہنا مناسب نہیں ہے، جو اپنے خلاف رپورٹ دینے والے اعلیٰ افسروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں سندھ پولیس کے متعلق جو حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ سندھ گزشتہ 8 سال سے ایک حقیقی پولیس اسٹیٹ بنا ہوا ہے اور سندھ حکومت کے اس پسندیدہ آئی جی پولیس کے کارنامے ہیں جنھیں ایک ایماندار اور سندھ حکومت کے غلط کاموں سے انکار کرنے والے اصول پرست آئی جی اقبال محمود کو ہٹا کر وفاقی حکومت کی مرضی کے خلاف تعینات کیا گیا تھا۔ سندھ حکومت نے اس وقت کے آئی جی پولیس کو من پسند بکتر بند گاڑیوں کی خریداری میں رکاوٹ بننے پر ہٹایا تھا جو اگر ہوتے تو موجودہ بد تر صورتحال نہ ہوتی۔
سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ کب سے کہہ رہی ہے کہ سندھ پولیس کو سیاسی نہ کیا جائے اور بھرتیاں سیاسی بنیاد کی بجائے میرٹ پر کی جائیں مگر ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے دوسرے اداروں کو سندھ پولیس پر اعتراضات ہوئے ہیں سندھ پولیس میں اعلیٰ سطح پر یہ حال ہے جب کہ نچلی سطح کے اہلکار لاکھوں روپے کیوں نہیں بنائیں گے اور سندھ مکمل طور پر حقیقی پولیس اسٹیٹ کیوں نہیں بنا رہے گا؟