کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں
احتجاج ہوتے رہے، لیکن موصوف کا ضمیر نہیں جاگا۔ وہ اگر کچھ کہہ نہیں سکتے تھے
تقریباً تین سال کی خاموشی اور خودساختہ جلاوطنی کے بعد کراچی شہر کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال اب اچانک ملکی سیاست میں ایک بار پھر وارد ہو چکے ہیں۔ انھوں نے وطن واپس آنے کے لیے یہ وقت کیوں منتخب کیا، وہ خود اِس بارے میں اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہوں گے۔
اپنے قائد سے بغاوت کا فیصلہ انھوں نے اس وقت کیوں نہیں کیا جب کراچی میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جاتا تھا۔ بلدیہ ٹاؤن میں بھتے کی خاطر ایک گارمنٹ فیکٹری کو جلا کر 250 سے زائد معصوم لوگوں کو مار دیا گیا تھا۔ 11 مئی 2007ء کو پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کے دورہ کراچی والے دن جب ایک ڈکٹیٹر کی ایماء پر اس شہر کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا تھا اور پچاس سے پچپن لوگوں کی بلاوجہ جانیں لے لی گئیں تھیں اور اس وقت وہ یہاں کے ناظمِ اعلیٰ تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو کیوں نہیں بہے؟ مصطفیٰ کمال میئر بننے سے قبل کیا تھے۔
ان کو اتنا بڑا صاحب کمال کس نے بنایا؟ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی چھتری کے بغیر کوئی بھی شخص یہاں صرف اپنی ذاتی حیثیت میں اتنا معروف و مقبول نہیں بن سکتا تھا۔ مصطفیٰ کمال کو اِس سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ تین سال قبل جب وہ اپنے لیڈر سے ناراض ہو کر دبئی چلے گئے تھے تو اس وقت بھی ان کی ناراضی کی وجہ اپنی تذلیل اور بے عزتی ہی تھی، نا کہ غریب اور بے بس عوام کی ناگہانی اموات۔ آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور میں ایم کیو ایم کبھی حکومت میں شامل رہتی اور کبھی باہر آ جاتی۔ شہر قائد میں بے گناہ لوگ مرتے رہے، کراچی تباہ ہوتا رہا، روزانہ کی بنیاد پر ہڑتالیں ہوتی رہیں۔
احتجاج ہوتے رہے، لیکن موصوف کا ضمیر نہیں جاگا۔ وہ اگر کچھ کہہ نہیں سکتے تھے تو کم از کم 2013ء کی طرح متحدہ کے معاملات سے خود کو الگ کر کے دبئی یا کہیں اور تو جا سکتے تھے۔ مگر اب جب کہ ایم کیو ایم کے قائد شدید علالت کی وجہ سے پہلے کی طرح فعال اور سرگرم نہیں رہے اور بہت کمزور اور لاغر ہو چکے ہیں اور پھر موجودہ حکومت نے ان کی تقریروں اور بیانوں کی اشاعت و نشریات پر پابندی بھی لگا رکھی ہے، تو وہ صاحب اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر اور کراچی کے عوام کے خیرخواہ بن کر دبئی سے واپس آ گئے ہیں۔
اب تو حالات ویسے بھی الطاف حسین کے فیور میں نہیں رہے۔ وہ اپنی بیماری اور مختلف پریشانیوں کی وجہ سے سیاست سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں قیادت سنبھالنے کے لیے کوئی نہ کوئی تو آگے بڑھے گا۔ یہی وہ مشکل مرحلہ ہے جس سے ایم کیو ایم نظریں چرا رہی ہے۔ کراچی میں راج کرنے کے لیے تیس سال کوئی کم نہ تھے۔
ایم کیو ایم اِس شہر میں بلاشرکت غیرے تیس سال تک حکومت کرتی رہی۔ 1986ء سے 2016ء تک وہ تنہا یہاں سفید و سیاہ کی مالک بنی رہی۔ جمہوری دور ہو یا پھر غیر جمہوری فوجی حکومت، وہ ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود اور متحرک رہی۔ پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں تو اس نے بہت فوائد و ثمرات حاصل کیے۔
مشرف دور سے قبل وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے شکستہ حال ہو چکی تھی لیکن یہ مشرف دور ہی کی مہربانیاں ہیں جس میں اسے ایک بار پھر خوب طاقت و توانائی حاصل ہوئی۔ مصطفیٰ کمال کا حسن کمال بھی اسی دور کا مرہون منت ہے۔ جنرل پرویز مشرف اگر خلاف ضابطہ بے تحاشا فنڈز جاری نہ کرتے تو مصطفیٰ کمال اپنے پیشرو میئرز فاروق ستار یا نعمت اللہ ایڈووکیٹ سے ہرگز آگے نہیں بڑھ پاتے، اور ان کی حیثیت بھی فاروق ستار والی ہی رہتی۔ وہ اگر دنیا کے چند کامیاب اور اچھے میئر کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں تو صرف اِسی وجہ سے کہ انھوں نے دنیا کے اس میگا سٹی میں کئی ترقیاتی کام کرائے، سگنل فری کوریڈورز بنائے، انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنائے، سڑکیں اور نالے بنائے۔
لیکن وہ سب پرویز مشرف کی موجودگی اور سرپرستی میں بنائے۔ پرویز مشرف اگر آج بھی صاحبِ اقتدار ہوتے یا رہتے تو ایم کیو ایم بھی اتنی بے بس اور لاوارث نہیں رہتی کہ اس کے نامزد میئر کو بھی اقتدار اور اختیارات کے لیے منت و سماجت کرنا پڑتی۔ نہ الطاف حسین پر اتنے مصائب آتے اور نہ مصطفیٰ کمال ناراض ہو کر پہلے دبئی اور پھر واپس کراچی آ کر اپنے محبوب قائد پر تہمت و بہتان کے تیر چلاتے۔ وہ گالیاں اور جھڑکیاں کھا کر بھی پرانی تنخواہ پر ہی کام کر رہے ہوتے۔
حالات و واقعات کبھی یکساں نہیں رہتے۔ کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں۔ عروج و زوال ہر جنس و انسان کا مقدر ہے۔ کوئی زندگی بھر عروج و بلندی پر نہیں رہ سکتا۔ ہمیشہ رہنے والی ذات صرف خداوند کریم کی ہے۔ ہر ایک کو فنا ہونا ہے اور ہر ایک کو مائنس ہونا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو کوئی حسین، یزید کی بیعت سے انکار نہیں کرتا۔ کوئی موسیٰ، فرعون کی سرکشی نہ کرتا۔ ہر طرف رعونت اور فرعونیت کا ہی راج ہوتا۔ اقتدار کی قاہرانہ قوت کے مظاہرے دنیا نے بہت دیکھے ہیں، لیکن پھر انھیں ذلت و رسوائی کے اندھیروں میں بھی غرق ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
بھٹو صاحب نے بھی زعم اقتدار میں کرسی کے دستے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ یہ کرسی بہت مضبوط ہے، اِسے کوئی گرا نہیں سکتا۔ لیکن پھر کیا ہوا، زمانے اور تاریخ کی تلخ اور بے رحمانہ حقیقتوں سے گزر کر وہ اقتدار سے محروم بھی ہوئے اور مائنس بھی۔ ''بھٹو زندہ ہے'' کا نعرہ لگا کر خود کو دھوکا تو دیا جا سکتا ہے لیکن حقائق سے چشم پوشی تو نہیں کی جا سکتی۔
آج الطاف حسین کمزور ہوتے جا رہے ہیں اور انھیں بہرحال جانا ہے اور کسی نے تو ان کی جگہ لینی ہی ہے۔ ایم کیو ایم والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی ''الطاف زندہ ہے'' کا نعرہ لگا کر کراچی والوں کو مطمئن کرتے رہیں گے، تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ انھیں بہت جلد اِس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ کراچی نے اپنے تیس سال گنوا دیے ہیں۔
گزشتہ تیس برسوں میں کراچی نے کیا کھویا اور کیا حاصل کیا۔ یہ لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہو چکا ہے۔ اِن برسوں میں کتنے لوگ قتل ہوئے اور کتنے بے گھر ہوئے۔ کتنے چور اور ڈاکو بنے اور کتنے قاتل اور دہشت گرد بنے۔ کتنی بستیاں آباد ہوئیں اور کتنی برباد ہوئیں۔ اپنے ہی شہر کے لوگوں کا جینا محفوظ ہوا یا محال ہوا۔ ان کا کاروبار اور بزنس پروان چڑھا یا برباد ہوا۔ مہاجر قومیت کو نیک نامی ملی یا رسوائی اور بدنامی۔ مصطفیٰ کمال جیسے اور بھی لوگ اب آگے بڑھیں گے جو وقت اور حالات کے بدلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ رفتہ رفتہ کراچی والوں پر ایم کیو ایم کے لوگوں کی گرفت کمزور پڑتی جائے گی اور قیادت سنبھالنے کے لیے بہت سے نئے لوگ سامنے آئیں گے۔
تحریک انصاف کے عمران خان نے یہ موقع گنوا دیا ہے۔ جماعت اسلامی تو ویسے ہی اس شہر کے لیے آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکی ہے۔ اب صرف وہی اس شہر کے لوگوں کی ہمدردیاں اور محبتیں سمیٹ سکے گا جو انھیں قتل و غارت گری کے بجائے امن و سکون فراہم کرے گا، چندہ مافیا اور بھتہ خوروں سے نجات دلائے گا۔
سڑکیں اور شاہراہیں بنائے گا۔ بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرے گا۔ لہٰذا وہ چاہے مصطفیٰ کمال ہو یا کوئی اور، یہ طے ہے کہ عوام جس پر اعتبار اور اعتماد کریں گے کراچی اسی کا ہو گا۔ کراچی کے لوگوں کو مجبوریوں اور مصلحتوں کی زنجیر میں جکڑے کسی شخص کی نہیں بلکہ نڈر اور بے باک لیڈر کی ضرورت ہے، جو انھیں خوف اور دہشت کی فضا سے باہر نکال سکے اور قومی دھارے میں شامل کر کے ترقی و خوشحالی کی راہ پر ایک بار پھر گامزن کر سکے۔
اپنے قائد سے بغاوت کا فیصلہ انھوں نے اس وقت کیوں نہیں کیا جب کراچی میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جاتا تھا۔ بلدیہ ٹاؤن میں بھتے کی خاطر ایک گارمنٹ فیکٹری کو جلا کر 250 سے زائد معصوم لوگوں کو مار دیا گیا تھا۔ 11 مئی 2007ء کو پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کے دورہ کراچی والے دن جب ایک ڈکٹیٹر کی ایماء پر اس شہر کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا تھا اور پچاس سے پچپن لوگوں کی بلاوجہ جانیں لے لی گئیں تھیں اور اس وقت وہ یہاں کے ناظمِ اعلیٰ تھے تو ان کی آنکھوں سے آنسو کیوں نہیں بہے؟ مصطفیٰ کمال میئر بننے سے قبل کیا تھے۔
ان کو اتنا بڑا صاحب کمال کس نے بنایا؟ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی چھتری کے بغیر کوئی بھی شخص یہاں صرف اپنی ذاتی حیثیت میں اتنا معروف و مقبول نہیں بن سکتا تھا۔ مصطفیٰ کمال کو اِس سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ تین سال قبل جب وہ اپنے لیڈر سے ناراض ہو کر دبئی چلے گئے تھے تو اس وقت بھی ان کی ناراضی کی وجہ اپنی تذلیل اور بے عزتی ہی تھی، نا کہ غریب اور بے بس عوام کی ناگہانی اموات۔ آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور میں ایم کیو ایم کبھی حکومت میں شامل رہتی اور کبھی باہر آ جاتی۔ شہر قائد میں بے گناہ لوگ مرتے رہے، کراچی تباہ ہوتا رہا، روزانہ کی بنیاد پر ہڑتالیں ہوتی رہیں۔
احتجاج ہوتے رہے، لیکن موصوف کا ضمیر نہیں جاگا۔ وہ اگر کچھ کہہ نہیں سکتے تھے تو کم از کم 2013ء کی طرح متحدہ کے معاملات سے خود کو الگ کر کے دبئی یا کہیں اور تو جا سکتے تھے۔ مگر اب جب کہ ایم کیو ایم کے قائد شدید علالت کی وجہ سے پہلے کی طرح فعال اور سرگرم نہیں رہے اور بہت کمزور اور لاغر ہو چکے ہیں اور پھر موجودہ حکومت نے ان کی تقریروں اور بیانوں کی اشاعت و نشریات پر پابندی بھی لگا رکھی ہے، تو وہ صاحب اپنے ضمیر کو جھنجھوڑ کر اور کراچی کے عوام کے خیرخواہ بن کر دبئی سے واپس آ گئے ہیں۔
اب تو حالات ویسے بھی الطاف حسین کے فیور میں نہیں رہے۔ وہ اپنی بیماری اور مختلف پریشانیوں کی وجہ سے سیاست سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں قیادت سنبھالنے کے لیے کوئی نہ کوئی تو آگے بڑھے گا۔ یہی وہ مشکل مرحلہ ہے جس سے ایم کیو ایم نظریں چرا رہی ہے۔ کراچی میں راج کرنے کے لیے تیس سال کوئی کم نہ تھے۔
ایم کیو ایم اِس شہر میں بلاشرکت غیرے تیس سال تک حکومت کرتی رہی۔ 1986ء سے 2016ء تک وہ تنہا یہاں سفید و سیاہ کی مالک بنی رہی۔ جمہوری دور ہو یا پھر غیر جمہوری فوجی حکومت، وہ ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں موجود اور متحرک رہی۔ پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں تو اس نے بہت فوائد و ثمرات حاصل کیے۔
مشرف دور سے قبل وہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے شکستہ حال ہو چکی تھی لیکن یہ مشرف دور ہی کی مہربانیاں ہیں جس میں اسے ایک بار پھر خوب طاقت و توانائی حاصل ہوئی۔ مصطفیٰ کمال کا حسن کمال بھی اسی دور کا مرہون منت ہے۔ جنرل پرویز مشرف اگر خلاف ضابطہ بے تحاشا فنڈز جاری نہ کرتے تو مصطفیٰ کمال اپنے پیشرو میئرز فاروق ستار یا نعمت اللہ ایڈووکیٹ سے ہرگز آگے نہیں بڑھ پاتے، اور ان کی حیثیت بھی فاروق ستار والی ہی رہتی۔ وہ اگر دنیا کے چند کامیاب اور اچھے میئر کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں تو صرف اِسی وجہ سے کہ انھوں نے دنیا کے اس میگا سٹی میں کئی ترقیاتی کام کرائے، سگنل فری کوریڈورز بنائے، انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنائے، سڑکیں اور نالے بنائے۔
لیکن وہ سب پرویز مشرف کی موجودگی اور سرپرستی میں بنائے۔ پرویز مشرف اگر آج بھی صاحبِ اقتدار ہوتے یا رہتے تو ایم کیو ایم بھی اتنی بے بس اور لاوارث نہیں رہتی کہ اس کے نامزد میئر کو بھی اقتدار اور اختیارات کے لیے منت و سماجت کرنا پڑتی۔ نہ الطاف حسین پر اتنے مصائب آتے اور نہ مصطفیٰ کمال ناراض ہو کر پہلے دبئی اور پھر واپس کراچی آ کر اپنے محبوب قائد پر تہمت و بہتان کے تیر چلاتے۔ وہ گالیاں اور جھڑکیاں کھا کر بھی پرانی تنخواہ پر ہی کام کر رہے ہوتے۔
حالات و واقعات کبھی یکساں نہیں رہتے۔ کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں۔ عروج و زوال ہر جنس و انسان کا مقدر ہے۔ کوئی زندگی بھر عروج و بلندی پر نہیں رہ سکتا۔ ہمیشہ رہنے والی ذات صرف خداوند کریم کی ہے۔ ہر ایک کو فنا ہونا ہے اور ہر ایک کو مائنس ہونا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو کوئی حسین، یزید کی بیعت سے انکار نہیں کرتا۔ کوئی موسیٰ، فرعون کی سرکشی نہ کرتا۔ ہر طرف رعونت اور فرعونیت کا ہی راج ہوتا۔ اقتدار کی قاہرانہ قوت کے مظاہرے دنیا نے بہت دیکھے ہیں، لیکن پھر انھیں ذلت و رسوائی کے اندھیروں میں بھی غرق ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔
بھٹو صاحب نے بھی زعم اقتدار میں کرسی کے دستے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ یہ کرسی بہت مضبوط ہے، اِسے کوئی گرا نہیں سکتا۔ لیکن پھر کیا ہوا، زمانے اور تاریخ کی تلخ اور بے رحمانہ حقیقتوں سے گزر کر وہ اقتدار سے محروم بھی ہوئے اور مائنس بھی۔ ''بھٹو زندہ ہے'' کا نعرہ لگا کر خود کو دھوکا تو دیا جا سکتا ہے لیکن حقائق سے چشم پوشی تو نہیں کی جا سکتی۔
آج الطاف حسین کمزور ہوتے جا رہے ہیں اور انھیں بہرحال جانا ہے اور کسی نے تو ان کی جگہ لینی ہی ہے۔ ایم کیو ایم والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی ''الطاف زندہ ہے'' کا نعرہ لگا کر کراچی والوں کو مطمئن کرتے رہیں گے، تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ انھیں بہت جلد اِس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا۔ کراچی نے اپنے تیس سال گنوا دیے ہیں۔
گزشتہ تیس برسوں میں کراچی نے کیا کھویا اور کیا حاصل کیا۔ یہ لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہو چکا ہے۔ اِن برسوں میں کتنے لوگ قتل ہوئے اور کتنے بے گھر ہوئے۔ کتنے چور اور ڈاکو بنے اور کتنے قاتل اور دہشت گرد بنے۔ کتنی بستیاں آباد ہوئیں اور کتنی برباد ہوئیں۔ اپنے ہی شہر کے لوگوں کا جینا محفوظ ہوا یا محال ہوا۔ ان کا کاروبار اور بزنس پروان چڑھا یا برباد ہوا۔ مہاجر قومیت کو نیک نامی ملی یا رسوائی اور بدنامی۔ مصطفیٰ کمال جیسے اور بھی لوگ اب آگے بڑھیں گے جو وقت اور حالات کے بدلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ رفتہ رفتہ کراچی والوں پر ایم کیو ایم کے لوگوں کی گرفت کمزور پڑتی جائے گی اور قیادت سنبھالنے کے لیے بہت سے نئے لوگ سامنے آئیں گے۔
تحریک انصاف کے عمران خان نے یہ موقع گنوا دیا ہے۔ جماعت اسلامی تو ویسے ہی اس شہر کے لیے آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکی ہے۔ اب صرف وہی اس شہر کے لوگوں کی ہمدردیاں اور محبتیں سمیٹ سکے گا جو انھیں قتل و غارت گری کے بجائے امن و سکون فراہم کرے گا، چندہ مافیا اور بھتہ خوروں سے نجات دلائے گا۔
سڑکیں اور شاہراہیں بنائے گا۔ بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرے گا۔ لہٰذا وہ چاہے مصطفیٰ کمال ہو یا کوئی اور، یہ طے ہے کہ عوام جس پر اعتبار اور اعتماد کریں گے کراچی اسی کا ہو گا۔ کراچی کے لوگوں کو مجبوریوں اور مصلحتوں کی زنجیر میں جکڑے کسی شخص کی نہیں بلکہ نڈر اور بے باک لیڈر کی ضرورت ہے، جو انھیں خوف اور دہشت کی فضا سے باہر نکال سکے اور قومی دھارے میں شامل کر کے ترقی و خوشحالی کی راہ پر ایک بار پھر گامزن کر سکے۔