میانمار کے ’ممنون حسین‘
جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کے لئے ایسے افراد کو عہدوں پر بٹھا دیا گیا ہے جن کی ڈوریں کہیں اور سے ہی ہلائی جاتی ہیں۔
KARACHI:
دنیا میں اس وقت کتنے ہی طرز کے نظام حکومت رائج ہیں، کہیں صدارتی نظام ہے تو کہیں پارلیمانی اور کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں شاہی نظام حکومت ہے۔ صدارتی نظام حکومت والے ممالک میں صدر ملک کا مضبوط ترین شخص ہوتا ہے جس کے پاس مستقبل کی حکمت عملی اور فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح پارلیمانی نظام میں وزیراعظم سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے اور شاہی نظام حکومت میں شاہی فرماں روا کے فیصلے ہی حتمی تصور کئے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان دنیا میں شاید وہ واحد ملک ہے کہ جہاں اب تک اس بات کا تعین ہی نہیں ہوسکا کہ یہاں کس طرز کی حکمرانی رائج ہے؟
قانونی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان ایک پارلیمانی ملک ہے جہاں اختیارات کا منبع وزیراعظم ہوتا ہے، لیکن یہاں کبھی فوجی حکومت کا غلبہ ہوتا ہے تو کبھی وزیراعظم کے بجائے صدر مختار کُل ہوتا ہے، اور بات اگر موجودہ حالات کے بارے میں کی جائے تو صدر کے بجائے وزیراعظم کے پاس تمام تر اختیارات ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے۔
گزشتہ حکومت میں سابق صدر آصف علی زرداری کے پاس تمام تر اختیارات تھے اور مستقبل کے فیصلے ایوان صدر سے ہوتے تھے۔ پھر یہاں حکومت تبدیل ہوئی نواز شریف قومی اسمبلی کی سیٹ جیت کر پارلیمان میں پہنچے، لہذا اُن کا وزیراعظم بننا تو طے تھا، اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں صدر کے پاس ذرا بھر بھی طاقت ہوتی، لہذا صدر کے لئے ایسے شخص کا انتخاب ضروری تھا جس کی سب سے بڑی خوبی وفاداری اور فرمانبرداری ہو۔ لہذا صدر ممنون حسین سے اچھا شخص شاید ہی پاکستان میں کوئی اور ہوتا، یہی وجہ ہے کہ کبھی فیصلے کرنے کا وقت آن پڑے یا کہیں دورے کرنا ہوں تو انہیں گرین سگنل کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
لیکن ایسا مت سمجھیں کہ فرمانبرداری اور وفاداری کی بنیاد پر عہدے بانٹنے کا سلسلہ صرف پاکستان میں چلتا ہے، ارے نہیں نہیں، یہ ابھی گزشتہ روز کی ہی تو بات ہے کہ انہی خوبیوں کی حامل ایک شخصیت میانمار (برما) کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ جنہیں عالمی میڈیا پر یہ کہہ کر سراہا جارہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والی آنگ سانگ سوچی کے ڈرائیور تھے اور میانمار وہ ملک ہے جہاں ایک ڈرائیور کو صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔
میانمار نے حال ہی میں 50 سال بعد فوجی حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا اور انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو صدر کے لئے الیکشن میں کامیاب ہونے والی جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی خود تو اس عہدے پر فائز نہیں ہوسکتی تھیں کیوںکہ ان کے شوہر کا تعلق غیر ملک سے ہے، اور ان کے بیٹوں کے پاس بھی غیر ملکی شہریت ہے۔ اس لئے ملک اور عوام کے فیصلے کرنے کے لئے ایسے شخص کا انتخاب ضروری تھا جو صدر ممنون حسین کی طرح وفادار بھی اور فرماں بردار بھی۔ اسی لئے آنگ سان سوچی نے اپنے سابق ڈرائیور ہتھن کیو کا انتخاب کیا کیوںکہ وہی وہ شخص ہوسکتے تھے جو ہر حکم پر لبیک کہیں اور بغیر کوئی سوال کئے ہر بات مان لیں۔
میرا خیال ہے آنگ سان سوچی نے یہ خیال بھارت میں کامیاب تجربے سے لیا ہوگا جہاں کانگریس کی دو بار آنے والی حکومت کے باوجود اُس کی سربراہ سونیا گاندھی اِسی وجہ سے وزیراعظم نہیں بن سکیں تھی، جس کے بعد قرعہ منموہن سنگھ کے نام نکلا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح منموہن سنگھ نے لگاتار دس برسوں تک سر تسلیم خم کرتے ہوئے ہر ایک بات پر سونیا گاندھی سے اتفاق کیا اور ہر حکم پر عمل کیا۔
نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی کے مختلف حلقوں میں بھی ہتھن کیو کو قابل بھروسہ اور بااعتماد شخص تصور کیا جاتا ہے اس لئے کسی حلقے نے بھی ان کی نامزدگی پر اعتراض نہیں کیا، کیونکہ ظاہر ہے جو شخص آپ کی غیرموجودگی میں بھی آپ کی زبان بولتا ہو تو اس سے پریشان ہونے کی بھلا کیا ضرورت؟ اگر پاکستان اور میانمار میں طرز حکمرانی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے کئی بار اپنی آزادی کے بعد سے کئی بار جمہوریت کا مزہ چکھا لیکن میانمار 50 سال بعد حال ہی میں جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوا، لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک میں شخصی آمریت برقرار ہے۔
جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کے لئے ایسے افراد کو عہدوں پر بٹھا دیا گیا ہے جن کی ڈوریں کہیں اور سے ہی ہلائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کے پاس جو اختیارات تھے وہ آج صدر ممنون حسین کے پاس نہیں، بالکل اسی طرح جو اختیارات میانمار کے آمر کے پاس تھے وہ کیتھن ہیو کے پاس ہونا ممکن نہیں۔ دونوں سربراہانِ مملکت کی یہی خوبی کافی ہے کہ وہ بااعتماد، پُرخلوص، وفادار، فرمانبردار اور قابل بھروسہ ہیں اور جب قابل بھروسہ شخص عہدوں پر فائز ہوں تو فیصلوں کے مراکز کو کوئی خوف نہیں ہوا کرتا۔
[poll id="1014"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دنیا میں اس وقت کتنے ہی طرز کے نظام حکومت رائج ہیں، کہیں صدارتی نظام ہے تو کہیں پارلیمانی اور کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں شاہی نظام حکومت ہے۔ صدارتی نظام حکومت والے ممالک میں صدر ملک کا مضبوط ترین شخص ہوتا ہے جس کے پاس مستقبل کی حکمت عملی اور فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح پارلیمانی نظام میں وزیراعظم سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے اور شاہی نظام حکومت میں شاہی فرماں روا کے فیصلے ہی حتمی تصور کئے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان دنیا میں شاید وہ واحد ملک ہے کہ جہاں اب تک اس بات کا تعین ہی نہیں ہوسکا کہ یہاں کس طرز کی حکمرانی رائج ہے؟
قانونی پہلو سے جائزہ لیا جائے تو پاکستان ایک پارلیمانی ملک ہے جہاں اختیارات کا منبع وزیراعظم ہوتا ہے، لیکن یہاں کبھی فوجی حکومت کا غلبہ ہوتا ہے تو کبھی وزیراعظم کے بجائے صدر مختار کُل ہوتا ہے، اور بات اگر موجودہ حالات کے بارے میں کی جائے تو صدر کے بجائے وزیراعظم کے پاس تمام تر اختیارات ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے۔
گزشتہ حکومت میں سابق صدر آصف علی زرداری کے پاس تمام تر اختیارات تھے اور مستقبل کے فیصلے ایوان صدر سے ہوتے تھے۔ پھر یہاں حکومت تبدیل ہوئی نواز شریف قومی اسمبلی کی سیٹ جیت کر پارلیمان میں پہنچے، لہذا اُن کا وزیراعظم بننا تو طے تھا، اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی موجودگی میں صدر کے پاس ذرا بھر بھی طاقت ہوتی، لہذا صدر کے لئے ایسے شخص کا انتخاب ضروری تھا جس کی سب سے بڑی خوبی وفاداری اور فرمانبرداری ہو۔ لہذا صدر ممنون حسین سے اچھا شخص شاید ہی پاکستان میں کوئی اور ہوتا، یہی وجہ ہے کہ کبھی فیصلے کرنے کا وقت آن پڑے یا کہیں دورے کرنا ہوں تو انہیں گرین سگنل کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
لیکن ایسا مت سمجھیں کہ فرمانبرداری اور وفاداری کی بنیاد پر عہدے بانٹنے کا سلسلہ صرف پاکستان میں چلتا ہے، ارے نہیں نہیں، یہ ابھی گزشتہ روز کی ہی تو بات ہے کہ انہی خوبیوں کی حامل ایک شخصیت میانمار (برما) کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ جنہیں عالمی میڈیا پر یہ کہہ کر سراہا جارہا ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کے لئے قربانیاں دینے والی آنگ سانگ سوچی کے ڈرائیور تھے اور میانمار وہ ملک ہے جہاں ایک ڈرائیور کو صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔
میانمار نے حال ہی میں 50 سال بعد فوجی حکومت سے چھٹکارا حاصل کیا اور انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو صدر کے لئے الیکشن میں کامیاب ہونے والی جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی خود تو اس عہدے پر فائز نہیں ہوسکتی تھیں کیوںکہ ان کے شوہر کا تعلق غیر ملک سے ہے، اور ان کے بیٹوں کے پاس بھی غیر ملکی شہریت ہے۔ اس لئے ملک اور عوام کے فیصلے کرنے کے لئے ایسے شخص کا انتخاب ضروری تھا جو صدر ممنون حسین کی طرح وفادار بھی اور فرماں بردار بھی۔ اسی لئے آنگ سان سوچی نے اپنے سابق ڈرائیور ہتھن کیو کا انتخاب کیا کیوںکہ وہی وہ شخص ہوسکتے تھے جو ہر حکم پر لبیک کہیں اور بغیر کوئی سوال کئے ہر بات مان لیں۔
میرا خیال ہے آنگ سان سوچی نے یہ خیال بھارت میں کامیاب تجربے سے لیا ہوگا جہاں کانگریس کی دو بار آنے والی حکومت کے باوجود اُس کی سربراہ سونیا گاندھی اِسی وجہ سے وزیراعظم نہیں بن سکیں تھی، جس کے بعد قرعہ منموہن سنگھ کے نام نکلا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح منموہن سنگھ نے لگاتار دس برسوں تک سر تسلیم خم کرتے ہوئے ہر ایک بات پر سونیا گاندھی سے اتفاق کیا اور ہر حکم پر عمل کیا۔
نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی کے مختلف حلقوں میں بھی ہتھن کیو کو قابل بھروسہ اور بااعتماد شخص تصور کیا جاتا ہے اس لئے کسی حلقے نے بھی ان کی نامزدگی پر اعتراض نہیں کیا، کیونکہ ظاہر ہے جو شخص آپ کی غیرموجودگی میں بھی آپ کی زبان بولتا ہو تو اس سے پریشان ہونے کی بھلا کیا ضرورت؟ اگر پاکستان اور میانمار میں طرز حکمرانی کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے کئی بار اپنی آزادی کے بعد سے کئی بار جمہوریت کا مزہ چکھا لیکن میانمار 50 سال بعد حال ہی میں جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوا، لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک میں شخصی آمریت برقرار ہے۔
جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کے لئے ایسے افراد کو عہدوں پر بٹھا دیا گیا ہے جن کی ڈوریں کہیں اور سے ہی ہلائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کے پاس جو اختیارات تھے وہ آج صدر ممنون حسین کے پاس نہیں، بالکل اسی طرح جو اختیارات میانمار کے آمر کے پاس تھے وہ کیتھن ہیو کے پاس ہونا ممکن نہیں۔ دونوں سربراہانِ مملکت کی یہی خوبی کافی ہے کہ وہ بااعتماد، پُرخلوص، وفادار، فرمانبردار اور قابل بھروسہ ہیں اور جب قابل بھروسہ شخص عہدوں پر فائز ہوں تو فیصلوں کے مراکز کو کوئی خوف نہیں ہوا کرتا۔
[poll id="1014"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔