بھائی کہہ کر ماموں بنانے والے
ایک اور قسم ہے ”بھائی بھائی“ یہ رشتہ اکثر بہت جلد ”بائے بائے“ میں بدل جاتا ہے.
گئے دنوں کی بات ہے، ایک تھے ہمارے دوست صابر اور ایک تھے ان کے بھائی۔ یہ بھائی دراصل ان کے بہنوئی تھے، مگر ہمارے دوست جس سرکاری کوارٹر میں بمع خاندان مقیم تھے، وہ انہی بہنوئی کے نام تھا، غالباً اس کنبہ کے جملہ اخراجات بھی بہنوئی ہی کے ذمے تھے، سو وہ بلند درجہ پا کر بہنوئی سے بھائی ہوگئے۔ یہی نہیں، صابر بہ قول خود ہر صفت میں بہ کمال تھے، موٹر سائیکل کی اسپیڈ ہو، کوئی کھیل ہو یا کوئی اور معاملہ، صابر کے مقابل (ان کی اپنی رائے میں جسے کوئی رد کرکے تو دکھائے) کوئی نہ تھا، بس مذکورہ بھائی کو استثنیٰ حاصل تھا۔
یوں سمجھ لیں کہ کوئی بھی موازنہ ہو صابر کے نمبر ننانوے اور بھائی کے پورے سو ہوتے تھے۔ ان دنوں ہمارے حلقہ احباب میں یہ مثل مشہور تھی اور یہ عقیدہ رائج تھا کہ سب سے اعلیٰ درجہ بھائی کا، پھر صابر اور ہم سب کمی کمین۔ صابر کے تذکرے سے بھائی کی وہ قسم بتانا مقصود تھی جسے آپ "چارہ بھائی" کہہ سکتے ہیں۔ یعنی جس شخص سے ملنے والا چارا بھائی چارے کو اتنا فروغ دیتا ہے کہ مستفید ہونے والے افراد "تمہی ہو ماتا، پتا تمہی ہو" کہتے اور "تمہی میرا مندر، تمہی میری پوجا، تمہی دیوتا ہو" گاتے، اسے بھائی کی مسند پر بٹھا دیتے ہیں، پھر ان کی زبان پر ہر وقت بھائی کا تذکرہ ہوتا ہے اور علم، شرافت، ذہانت، دیانت، شجاعت، جرات غرض کہ ہر اچھی صفت بھائی پر ختم ہوتی ہے۔
اتنی تعریف سے بھائی اتنا پھول جاتا ہے کہ چھوٹے بھائیوں پر پھٹ پڑتا ہے، چناںچہ وہ بد دل ہوکر بھائی سے پھر جاتے اور "بھائی پھیرو" کہلاتے ہیں۔ ایسے بھی ہوتے ہیں جو گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہوئے۔ یہ دراصل بھائی بندی کے قائل ہوتے ہیں، بھائی کے بندے بنے رہنے ہی میں عافیت جانتے ہیں۔ بھائیوں کی ایک اور قسم "برادران یوسف" کی تھی، جو اب ناپید ہے۔ یہ بڑے بھولے بھالے حاسد ہوا کرتے تھے۔ سو حسین و جمیل بھائی کو بیچ کر مال بنانے کے بجائے کنویں میں پھینک دیتے تھے اور قتل کرنے کی جگہ اس کے کُرتے پر جانور کا خون لگا کر باپ کو دھوکا دیتے تھے۔ اب ان کی جگہ "تیرا بھائی" اور "آپ کا بھائی" نے لے لی ہے۔ یہ بھائی بنا کر بیچ کھاتے ہیں، اور روتے دھوتے جو کُرتا لاتے ہیں اس پر بھائی ہی کا خون ہوتا ہے۔
مسلمان بھی ان ہی اقسام میں سے ایک ہیں، جن کے بارے میں ایک قوال کا ارشاد ہے کہ "سب مسلماں ایک ہیں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔" بعد میں یہ قوالی گانے والے برادران کے آپس میں اختلافات ہوگئے تھے، اور اس تقسیم سے ڈھول، ہارمونیم اور ہم نوا لیے، دو قوال پارٹیاں وجود میں آگئی تھیں۔ جس حساب سے مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہے ہیں اور کاٹ رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ وہ آپس میں بھائی نہیں، توبہ توبہ! ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ بات بس اتنی سی ہے کہ ہم مسلمان ایک دوسرے کو جلد از جلد جنت میں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارے بھائی دنیا کے آلام، مصائب اور تفکرات سے نجات پا کر دودھ کی نہروں اور حوروں سے مستفید ہوسکیں۔
بھائیوں کی ایک قسم بھائی لوگ بھی ہے۔ کبھی یہ ممبئی تک محدود تھے، مگر وہ بھائی لوگ کیا جو حد میں رہیں، سو اب یہ ہمارے درمیان بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلے انہیں صرف بولی ووڈ کی فلموں میں "آریلا، جاریلا" کرتے دیکھا جاسکتا تھا، لیکن پھر لوگوں نے انہیں اپنے سامنے "ٹھونکتے" اور چائنا کٹنگ کرتے دیکھا۔ ان دنوں یہ خود چائنا کٹنگ کے عمل سے دوچار ہیں اور پلاٹ کے عین مطابق ان کے پلاٹ آڑھے ترچھے کاٹ کاٹ کر الگ کئے جا رہے ہیں۔
ایک اور قسم ہے "بھائی بھائی" یہ رشتہ اکثر بہت جلد "بائے بائے" میں بدل جاتا ہے، مثال کے طور پر پیش ہیں تاریخ سے دو عدد معروف نعرے "ہندی چینی بھائی بھائی" یہ اس دور کی بات ہے جب چین نیا نیا سرخ ہوا تھا اور بھارت پنڈت نہرو کے سوشلزم اور مسلمانوں کے خون سے سُرخی مائل تھا۔ کچھ عرصے میں بھائی بھائی کا یہ نعرہ بھارت اور چین کی سرحد پر مارکٹائی میں تبدیل ہوگیا۔ ہمارے ہاں سندھی مہاجر بھائی بھائی کا نعرہ جن دیواروں پر لکھا نظر آتا تھا، وہیں دیواریں ایک روز "سندھ میں ہوگا کیسے گزارہ، آدھا ہمارا، آدھا تمھارا" کے نعرے سے کالی پائی گئیں۔ تو بھیا! ثابت ہوا کہ بھائی ہوتا نہیں ہر بھائی بنانے والا، زیادہ تر وہ ہیں جو بھائی کہہ کر ماموں بنا دیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یوں سمجھ لیں کہ کوئی بھی موازنہ ہو صابر کے نمبر ننانوے اور بھائی کے پورے سو ہوتے تھے۔ ان دنوں ہمارے حلقہ احباب میں یہ مثل مشہور تھی اور یہ عقیدہ رائج تھا کہ سب سے اعلیٰ درجہ بھائی کا، پھر صابر اور ہم سب کمی کمین۔ صابر کے تذکرے سے بھائی کی وہ قسم بتانا مقصود تھی جسے آپ "چارہ بھائی" کہہ سکتے ہیں۔ یعنی جس شخص سے ملنے والا چارا بھائی چارے کو اتنا فروغ دیتا ہے کہ مستفید ہونے والے افراد "تمہی ہو ماتا، پتا تمہی ہو" کہتے اور "تمہی میرا مندر، تمہی میری پوجا، تمہی دیوتا ہو" گاتے، اسے بھائی کی مسند پر بٹھا دیتے ہیں، پھر ان کی زبان پر ہر وقت بھائی کا تذکرہ ہوتا ہے اور علم، شرافت، ذہانت، دیانت، شجاعت، جرات غرض کہ ہر اچھی صفت بھائی پر ختم ہوتی ہے۔
اتنی تعریف سے بھائی اتنا پھول جاتا ہے کہ چھوٹے بھائیوں پر پھٹ پڑتا ہے، چناںچہ وہ بد دل ہوکر بھائی سے پھر جاتے اور "بھائی پھیرو" کہلاتے ہیں۔ ایسے بھی ہوتے ہیں جو گالیاں کھا کر بے مزہ نہ ہوئے۔ یہ دراصل بھائی بندی کے قائل ہوتے ہیں، بھائی کے بندے بنے رہنے ہی میں عافیت جانتے ہیں۔ بھائیوں کی ایک اور قسم "برادران یوسف" کی تھی، جو اب ناپید ہے۔ یہ بڑے بھولے بھالے حاسد ہوا کرتے تھے۔ سو حسین و جمیل بھائی کو بیچ کر مال بنانے کے بجائے کنویں میں پھینک دیتے تھے اور قتل کرنے کی جگہ اس کے کُرتے پر جانور کا خون لگا کر باپ کو دھوکا دیتے تھے۔ اب ان کی جگہ "تیرا بھائی" اور "آپ کا بھائی" نے لے لی ہے۔ یہ بھائی بنا کر بیچ کھاتے ہیں، اور روتے دھوتے جو کُرتا لاتے ہیں اس پر بھائی ہی کا خون ہوتا ہے۔
مسلمان بھی ان ہی اقسام میں سے ایک ہیں، جن کے بارے میں ایک قوال کا ارشاد ہے کہ "سب مسلماں ایک ہیں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔" بعد میں یہ قوالی گانے والے برادران کے آپس میں اختلافات ہوگئے تھے، اور اس تقسیم سے ڈھول، ہارمونیم اور ہم نوا لیے، دو قوال پارٹیاں وجود میں آگئی تھیں۔ جس حساب سے مسلمان ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہے ہیں اور کاٹ رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ وہ آپس میں بھائی نہیں، توبہ توبہ! ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ بات بس اتنی سی ہے کہ ہم مسلمان ایک دوسرے کو جلد از جلد جنت میں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارے بھائی دنیا کے آلام، مصائب اور تفکرات سے نجات پا کر دودھ کی نہروں اور حوروں سے مستفید ہوسکیں۔
بھائیوں کی ایک قسم بھائی لوگ بھی ہے۔ کبھی یہ ممبئی تک محدود تھے، مگر وہ بھائی لوگ کیا جو حد میں رہیں، سو اب یہ ہمارے درمیان بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلے انہیں صرف بولی ووڈ کی فلموں میں "آریلا، جاریلا" کرتے دیکھا جاسکتا تھا، لیکن پھر لوگوں نے انہیں اپنے سامنے "ٹھونکتے" اور چائنا کٹنگ کرتے دیکھا۔ ان دنوں یہ خود چائنا کٹنگ کے عمل سے دوچار ہیں اور پلاٹ کے عین مطابق ان کے پلاٹ آڑھے ترچھے کاٹ کاٹ کر الگ کئے جا رہے ہیں۔
ایک اور قسم ہے "بھائی بھائی" یہ رشتہ اکثر بہت جلد "بائے بائے" میں بدل جاتا ہے، مثال کے طور پر پیش ہیں تاریخ سے دو عدد معروف نعرے "ہندی چینی بھائی بھائی" یہ اس دور کی بات ہے جب چین نیا نیا سرخ ہوا تھا اور بھارت پنڈت نہرو کے سوشلزم اور مسلمانوں کے خون سے سُرخی مائل تھا۔ کچھ عرصے میں بھائی بھائی کا یہ نعرہ بھارت اور چین کی سرحد پر مارکٹائی میں تبدیل ہوگیا۔ ہمارے ہاں سندھی مہاجر بھائی بھائی کا نعرہ جن دیواروں پر لکھا نظر آتا تھا، وہیں دیواریں ایک روز "سندھ میں ہوگا کیسے گزارہ، آدھا ہمارا، آدھا تمھارا" کے نعرے سے کالی پائی گئیں۔ تو بھیا! ثابت ہوا کہ بھائی ہوتا نہیں ہر بھائی بنانے والا، زیادہ تر وہ ہیں جو بھائی کہہ کر ماموں بنا دیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔