سعودی عرب کم عمر لڑکیوں کی بوڑھوں سے شادی کی مخالفت

مفتی اعظم نے قرار دیا تھا کہ لڑکیوں کی 10 سال کی عمر میں بھی شادیاں کی جا سکتی ہیں.


Online November 10, 2012
مخصوص عمر کے افراد کو خاص حالات کے سوا شادی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، شیخ رکبان. فوٹو: وکی پیڈیا

سعودی عرب کے سینئر علما پر مشتمل کونسل کے سابق رکن شیخ عبداللہ ال رکبان کا کہنا ہے کہ مملکت کے دیہی علاقوں میں بدو کمیونٹیوں میں آج بھی کم سن بچیوں کو مالدار افراد کے ہاں شادی کے نام پر فروخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

انھوں نے خاوند اور بیوی کی عمروں کے درمیان تناسب کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انھوں نے یہ بات امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام ''شادی کی عمر مذہبی اور سماجی تناظر ''کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ ''اگر کسی لڑکی کی عمر 25سے زیادہ ہے تو وہ باشعور سمجھی جاتی ہے اور اسے اپنی پسند کے مرد کے ساتھ شادی کا حق حاصل ہے''۔ انھوں نے کہا کہ ''اگر لڑکی کی عمر 20سال سے کم ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے والدین اس کو کسی مالدار بوڑھے سے شادی پر مجبور کرسکتے ہیں۔

شیخ رکبان نے کہا کہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان عمر کا تفاوت مناسب ہو تاکہ وہ صحتمندانہ ازدواجی تعلقات استوار کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ان علما سے متفق نہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ شادی کی کم سے کم عمر کے تعین کی مذہب میں اجازت نہیں۔ ان کے بقول ایک حکمران شادی کی عمر مقرر کرسکتا ہے اور ایک مخصوص عمر کے افراد کو خاص حالات کے سوا شادی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ قبل ازیں سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز ال الشیخ نے قرار دیا تھا کہ اسلام کی رو سے لڑکیوں کی 10 سال کی عمر میں بھی شادیاں کی جا سکتی ہیں۔ انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ اسلامی قانون کسی بھی طرح خواتین پر جبر نہیں کرتا۔ انھوں نے شریعت کے ناقدین پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |