سندھ حکومت کی ’’مفت تعلیم‘‘

لاڑکانہ میں طلبا و طالبات سے امتحانی فیس کی وصولی


تعلیم کے اعلی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر میں امتحانی پرچے دھڑلے سے فروخت کیے جارہے ہیں ۔ فوٹو : فائل

ووٹ حاصل کر کے اعلیٰ ایوانوں میں جا نے والوں سے نہ صرف عوامی امیدیں بندھی ہوتی ہیں بل کہ ووٹ دینے اور لینے والے کے درمیان تقدس کا رشتہ بھی ہوتا ہے، لیکن افسوس اس رشتے کو جس طرح پامال کیا جاتا ہے اس کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عوام کی تقدیر کے فیصلے کرتے اعلیٰ ایوانوں میں موجود اراکین اسمبلی جو قوانین بناتے ہیں وہ محض کاغذات تک محدود ہیں یا پھر امیروں کے گھر کی لونڈی جس سے وہ غریبوں کا استحصال کرتے آ رہے ہیں۔

لاڑکانہ بیک وقت خوش قسمت اور بد نصیب شہریوں کا ایسا شہر ہے جن کے نام پر سیاسی جماعت کو سندھ بھر پر حکم رانی کے اتنے مواقع میسر آئے کہ وہ معدنیات اور وسائل سے مالا مال اس صوبے کو مثالی صوبہ بنانے کے ساتھ اپنے قائد کے شہر کو ان کے خواب کی تعبیر دیتے ہوئے پیرس بناتے۔

لاڑکانہ میں صفائی ستھرائی کے ناقص نظام، اربوں روپے کے اخراجات کے باوجود سیوریج کے ناکارہ نظام سمیت مسائل سے بھرپور اس شہر کے باسی منتخب نمایندوں کو بددعائیں دیتے نظر آتے ہیں اور کیوں نہ دیں کہ شہر میں جا بہ جا گندگی کے ڈھیر، گلیوں اور راستوں پر کھڑے سیوریج کے گندے پانی، تجاوزات کی بھرمار، بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے سکڑتی شاہ رائیں، ادویات سے محروم اسپتال، بااثر وڈیروں کے زیراثر اوطاقوں میں تبدیل ہوتے اسکولوں کے علاوہ پاکستان بھر میں کراچی کے بعد ایڈز کے مریضوں کا حامل شہر، لاڑکانہ کا مختصر تعارف ہے۔

لاڑکانہ وہ بدقسمت شہر ہے کہ ماضی میں سندھی کی ایک مشہور کہاوت تھی کہ اگر پیسے ہوں تو گھومو لاڑکانہ، لیکن اب یہ کہاوت تبدیل ہوکر پیسے ہوں تو چھوڑو لاڑکانہ ہوچکی ہے اور یہ سچ ہے کہ یہاں کے منتخب نمایندے اور صاحب حیثیت لوگ یہاں سے کوچ کرکے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور بیرون ملک جاچکے ہیں اور جو کوئی مجبوری میں نہیں جاسکا وہ اپنے بچوں کو لاڑکانہ میں تعلیم دلوانے میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا۔ لاڑکانہ ڈویژن میں لگ بھگ پانچ ہزار سے زاید نجی اسکول کھلنے کے کئی سالوں بعد بھی رجسٹرڈ نہیں ہوسکے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں بھی تعلیم سے بے اعتنائی کے ساتھ والدین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور ان کا استحصال بھی جاری ہے۔

تعلیم کی اہمیت سے کسی طور بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا اور یہ حکومتوں کی شہریوں کو دی جانے والی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہوتی ہے، لیکن افسوس کہ تعلیم جیسے مقدس معاملے میں بھی سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم نہ صرف غافل ہیں، بل کہ ان کی جانب سے طلباء کو میٹرک تک مفت تعلیم کے دعوے بھی غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ ان دنوں لاڑکانہ کے 71مڈل، 61ہائی اور 42ہائیر سیکنڈری کے علاوہ ایلیمنٹری اسکولز میں جاری چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت کے مڈل اسکول کے سالانہ پرچوں میں ان اسکولوں کے سیکڑوں بچوں سے فی طالب علم 60سے 70روپے اس وقت لیے گئے، جب محکمہ تعلیم کے بالا افسران کی جانب سے سوالیہ اور جوابی پرچے پرنٹ کرانے کے لیے بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے لاچاری ظاہر کرتے ہوئے پرچے سی ڈی میں ڈال کر تمام اسکولوں کے ہیڈماسٹرز کو بھیج کر ایس ایم سی فنڈز میں سے پرنٹ کرانے کے احکامات جاری کیے گئے۔

تاہم کئی اسکولوں کے پاس ایس ایم سی بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات میں دگنا اضافہ ہوگیا۔ محکمہ تعلیم کے مصدقہ ذرایع کا کہنا ہے کہ سی ڈی موصول ہوتے ہیڈ ٹیچرز نے اساتذہ کی میٹنگ بلوا کر ہر ٹیچر کو سات ہزار فوری جمع کرانے کی ہدایات دیں، تاہم اساتذہ کے انکار کے بعد یہ سارا بوجھ طالب علموں اور ان کے والدین کے گلے میں ڈال دیا گیا اور ہر طالب علم سے 60روپے وصول کرلیے گئے۔ اس سلسلے میں گرلز ہائی اسکول لاڑکانہ کی انچارج ہیڈ مسٹریس جو کہ گسٹا کی عہدے دار بھی ہیں سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بعد میں موقف دینے کا کہہ کر فون بند کردیا۔ کمشنر لاڑکانہ کا نمبر مسلسل بند رہا، ڈپٹی کمشنر جاوید علی جاگیرانی نے کال اٹینڈ نہیں کی، جب کہ اسسٹنٹ کمشنر لاڑکانہ ڈاکٹر مسعود احمد بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ پرائمری اسکولز کے معاملات دیکھتے ہیں۔

مڈل اور ہائی اسکولز کے متعلق انہیں کچھ معلوم نہیں ہے۔ دوسری جانب رابطہ کرنے پر ڈی او ایلیمنٹری نواب کھوکھر نے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے پہلی بار سی ڈی سسٹم استعمال کر کے تمام اسکولز کے ہیڈ ٹیچرز میل، فی میل کو سی ڈی فراہم کرتے ہوئے پرچے ایس ایم سی فنڈز میں سے پرنٹ کرانے کی احکامات دیے تھے اور یہ کہا گیا تھا کہ جو پیسے خرچ ہوں گے وہ انہیں جلد ٹرانسفر کردیے جائیں گے، لیکن بچوں سے پیسے لینے کی کوئی ایک شکایت بھی موصول نہیں ہوئی ہے۔

اب ایس ایم سی بجٹ ڈائریکٹر اسکولز انور کھوکھر کے پاس آ گیا ہے، محکمہ تعلیم سے وابستہ چند ٹیچرز نے نام ظاہر نہ کرنے پر یہ بھی انکشاف کیا کہ سی ڈی میں چھٹی کلاس سے آٹھویں کلاس کے تمام سبجیکٹس کے سوالیہ پرچے موجود ہیں، جو کہ بیک وقت پرنٹ کرالیے گئے ہیں اور اب بااثر ٹیچرز، ہیڈ ٹیچرز سے مل کر سوالیہ پرچے نہ صرف اپنے عزیز و اقارب کو دے رہے ہیں بل کہ فروخت کیے جا رہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس ساری صورت حال سے سندھ حکومت کے مفت اور معیاری تعلیم کے دعوے کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں