کچھ گروہ

68 سال گزر جانے کے باوجود بھی ملک کو فلاحی ریاست نہیں بنایا جاسکا۔


Zaheer Akhter Bedari March 17, 2016
[email protected]

طبقاتی ظلم و استحصال کس قدر شدید اور بے لگام ہوگیا ہے اس کا اندازہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ''جمہوریت کے نام پر کچھ گروہ ملکی وسائل پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ عام آدمی کو دو وقت کی روٹی ملنا محال ہے، ملک کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی ملک سچے رہنماؤں سے محروم ہوگیا۔

68 سال گزر جانے کے باوجود بھی ملک کو فلاحی ریاست نہیں بنایا جاسکا۔ قوم لسانی، علاقائی، دیہی، شہری اور مذہبی تقسیم کا شکار ہوگئی، مشرقی پاکستان الگ ہوگیا، ان مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا، اگر وسائل کا درست استعمال ہو تو ہمارا ملک دنیا کا بہترین ملک بن جائے گا''۔ چیف جسٹس سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی میں اپنے اعزاز میں دیے گئے عشایئے سے خطاب کررہے تھے۔ چیف جسٹس نے طلبا پر زور دیا کہ وہ ''اپنے تمام اختلافات بھلاکر ملک کے لیے اپنا کردار ادا کریں''

ہمارے ملک کے 20 کروڑ عوام میں سے 53 فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب بالکل بجا فرما رہے ہیں کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہے، یہی نہیں بلکہ بھوک سے تنگ آئے ہوئے پاکستانی عوام اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو زہر دے کر ہلاک کررہے ہیں اور خود بھی زہر کھاکر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کررہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو اس بدترین حالت تک کس نے پہنچایا؟ اس سوال کا جواب چیف جسٹس صاحب نے دیا ہے کہ ''جمہوریت کے نام پر کچھ گروہ ملکی وسائل پر قابض ہیں'' یہ غریب کوئی نیا یا اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں ہے، اس کی جڑیں تحریک پاکستان ہی میں گڑی ہوئی ہیں، جب استحصالی طبقات کو تقسیم ہند یقینی نظر آنے لگی تو ان طبقات نے جن میں جاگیردار اور وڈیرے سرفہرست تھے، مسلم لیگ میں گھسنے لگے اور مسلم لیگ کی صف اول میں شامل ہوگئے، کیوں کہ انھیں یہ خوف لاحق تھا کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوا تو آزادی کے بعد سب سے پہلے زرعی اصلاحات کرکے جاگیرداروں کی کمر توڑ دی جائے گی اور انھیں اقتدار سے دور کردیا جائے گا۔ یہی وہ خوف تھا جس کی وجہ یہ استحصالی طبقات مسلم لیگ کی صف اول میں شامل ہوگئے اور تقسیم کے بعد سیاست اور اقتدار پر قابض ہوگئے۔

68 سال کے درمیان لوٹ مار اور عوام کے استحصال کا سلسلہ اس فرق یا اضافے کے ساتھ جاری رہا کہ اس میں صنعتی اشرافیہ بھی شامل ہوگئی اور باری باری کا وہ کھیل شروع ہوا جسے جمہوریت کا نام دیا گیا۔ چیف جسٹس صاحب نے جن گروہوں کا ذکر کیا ہے جو ملکی وسائل پر قابض ہوگئے ہیں وہ نئے نہیں بلکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی جنم لینے والے وہ گروہ ہیں، جنھوں نے اس ملک کے 20کروڑ عوام کی زندگیوں کو جہنم بنادیا ہے، یہ گروہ در اصل پندرہ بیس خاندان ہیں، جن کی نشان دہی ایوب خان کے زمانے میں ڈاکٹر محبوب نے کی تھی۔ یہ گروہ ایوب خان کے دور ہی کا تسلسل ہیں جن میں آمر ضیا الحق نے ایک نئے صنعتی گروہ کو داخل کرکے لوٹ مار کے اس بہیمانہ نظام کو اور مستحکم کردیا۔

سب سے پہلے اس نقاب کی اصلیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جسے ان لٹیرے گروہوں نے اپنے بھیانک چہروں پر ڈال رکھا ہے، وہ نقاب ہے وہی جمہوریت جس کا حوالہ چیف جسٹس صاحب نے دیا ہے، جمہوریت کے نام پر اس بے شرمی سے خاندانی حکمرانی کو مستحکم کیا گیا ہے جس کی مثال جمہوریت کی تاریخ میں نہیں ملتی بلکہ اس سے ولی عہدی نظام کو عوام پر مسلط کیا جارہاہے کہ ''جس طرف آنکھ اٹھاؤ تیری تصویر ہے'' والی صورتحال پیدا ہوگئی ہے اور بدقسمتی سے میڈیا اس جمہوری بادشاہتوں کو مستحکم کرنے کا کردار ادا کررہا ہے۔

اس قبضے کے خلاف ممکنہ طور پر ہونے والی عوامی بغاوت کا راستہ روکنے کے لیے ان گروہوں نے پاکستانی عوام کو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ لسانی، علاقائی، دیہی، شہری، مذہبی حوالوں سے تقسیم کرکے انھیں آپس میں اس طرح برسر پیکار کردیا ہے کہ ان کی وہ اجتماعی طاقت جو ان استحصالی اور ملکی وسائل پر قابض گروہوں کو تہس نہس کرسکتی ہے آپس ہی میں برسر پیکار کردی گئی ہے، یہ ہے وہ سازش جس کا ذکر چیف جسٹس صاحب نے اپنی تقریر میں کیا ہے۔

اس مکروہ سازش کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کا کام بہتر طور پر طلبا برادری کرسکتی ہے اسی تناظر میں چیف جسٹس صاحب نے بجا طور پر کہا ہے کہ طلبا اپنے داخلی اختلافات ختم کرکے ''ملک کے لیے اپنا کردار ادا کریں''۔ ایک زمانہ تھا جب طلبا برادری ایک موثر طاقت کی حیثیت سے اہم قومی مسائل میں اپنا کردار ادا کرتی تھی لیکن انتہائی چالاکی اور عیاری سے طلبا برادری کو ان ہی ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا جن ٹکڑوں میں عوام کو بانٹ دیا گیا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ عوام دشمن سیاست دانوں نے دوسرے شعبوں کی طرح طلبا برادری میں بھی اپنے اپنے ونگز بنا رکھے ہیں اور یہ ونگز استحصالی قوتوں کے خلاف جد وجہد کرنے کے بجائے اپنی اپنی سرپرست سیاسی پارٹیوں کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں اور طلبا کو سیاسی پارٹیاں اپنی طاقت کے مظاہروں میں استعمال کرتی ہیں۔ ہماری بعض مذہبی جماعتوں کے رہنما آج کل طبقاتی سیاست کرتے ہوئے طبقاتی استحصال کی بات تو کررہے ہیں لیکن اپنے زیر اثر طلبا تنظیموں کو طبقاتی جد وجہد سے دور رکھ کر انھیں نان ایشوز کی طرف دھکیلا جارہا ہے، اور آپس کے سر پھٹول میں الجھایا جارہا ہے۔

جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والے ان گروہوں کے خلاف کچھ خفیہ ایجنسیاں متحرک ہورہی ہیں تو جمہوریت ہی کے نام پر ان کا گلہ دبانے اور انھیں اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر کام کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، کبھی قانون کے نام پر، کبھی آئین کے نام پر ان تحقیقاتی اداروں کو کرپشن کی تحقیقات سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے اور موجودہ مقتدر طاقتیں چپ کا روزہ رکھی ہوئی ہیں۔

کیا اس' اسٹیٹس کو' کو ان سازشوں کے ذریعے برقرار رکھا جاسکتا ہے؟ جب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہمارے سامنے اخبارات میں شایع ہونے والی یہ خبریں آجاتی ہیں جن میں عوام کے ہجوم ڈاکوؤں کو پکڑ کر زندہ جلارہے ہیں اور تشدد کرکے انھیں جان سے مار رہے ہیں۔ کیا یہ مایوس عوام کا قانونی ردعمل ہے، کیا قانون سے مایوسی کا ردعمل ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں