لاہور سیاست سے محروم شہر
میں برسوں سے لاہور میں مقیم ہوں میں نے کبھی اس شہر کو خاموش نہیں دیکھا
میں برسوں سے لاہور میں مقیم ہوں میں نے کبھی اس شہر کو خاموش نہیں دیکھا۔ کوئی نہ کوئی ہنگامہ ہمیشہ برپا رہا۔ سیاسی ہنگامہ یا ثقافتی ہنگامہ۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق والا معاملہ رہا لیکن اب بینکوں اور دکانوں پر ڈاکوؤں کے حملے ہی کچھ نہ کچھ ہلچل مچاتے رہتے ہیں اور ہر روز ہمیں لاکھوں کے ڈاکے اور ڈاکوؤں کے بحفاظت فرار کا قصہ پڑھنا پڑتا ہے۔
الحمد للہ کہ ہمارے گھر میں ڈاکوؤں کی دلچسپی کی کوئی چیز موجود نہیں اس کے لیے ایک ملازم صحافی ہونا ہی کافی ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی فوں فاں تو بہت ہے مگر جیب خالی ہے اور خالی جیب ڈاکوؤں اور چوروں کے لیے بے حد ناپسندیدہ ہوا کرتی ہے۔ ایسی خبریں تو ملتی ہیں کہ راہ چلتے کسی صحافی کو اچکوں نے پکڑ لیا اور اس کے پاس جو کچھ ہوا وہ لے اڑے مگر فرصت کے وقت میں جب انھوں نے اپنا ڈاکہ دیکھا ہو گا تو سخت پریشان ہوئے ہوں گے۔
یاد آیا کہ ایک بار عید کے موقع پر نماز عید پڑھ کر مسجد سے نکلے تو جیب میں بٹوا نہیں تھا۔ یہ ایک ایسی چوری ہے کہ کسی جیب کترے کو پولیس بھی نہیں پکڑتی بلکہ کہا تو یہاں تک جاتا ہے جس تھانے کے علاقے میں چوری ہوتی ہے تو تھانیدار کو چوروں کا پتہ ہوتا ہے۔ رات کو کسی وقت جب تھانے کا حصہ پہنچتا ہے تو چوروں کی تفتیش بھی ہوتی ہے کہ کیا مال مسروقہ بس اتنا ہی تھا جتنے سے یہ حصہ نکالا گیا یا کچھ چھپا لیا گیا ہے۔
جیب تراشوں سے دیانت داری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود کچھ چور پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں چنانچہ مسجد والی اس چوری کے چند دن بعد جب میں دفتر گیا تو ہمارے استقبالیہ کے ایک کارکن میرا بٹوا لے کر آ گئے۔ نقدی کے سوا اس میں سب کچھ جوں کا توں موجود تھا۔ میرے کچھ ضروری کارڈ وغیرہ بچ گئے جو میری ایسی ضرورت تھے کہ مجھے یہ پھر سے بنوانے پڑتے اور سرکاری دفتر سے کارڈ بنوانا بڑی ہمت اور صبر حوصلے کا کام ہے۔
میری یہ چوری تو اچکوں کی واردات تھی لیکن وہ جو بینکوں اور زیورات کی دکانوں میں ہوتی ہے اصل ڈاکہ تو یہ ہوتا ہے۔ سچ پوچھئے تو میرا بھی ڈاکو ہونے کو جی چاہتا ہے مگر اب اس عمر میں تو میں بھاگ بھی نہیں سکتا لیکن ضروری نہیں کہ ہر خواہش پوری ہو۔ کچھ خواہش بذات خود اتنی پسندیدہ ہوتی ہیں کہ ان کا زندہ رہنا ہی آپ کو زندہ رکھتا ہے۔
شروع میں ذکر کیا ہے کہ لاہور ان دنوں بہت خاموش ہے اور کسی سیاسی حرکت کا نام و نشان نہیں ہے۔ یہ شہر جو پورے برصغیر میں سیاست کا ایک جاندار مرکز سمجھا جاتا تھا ہمارے سیاستدانوں نے اس سے زندگی چھین لی ہے اور بعض سرگرم سیاستدانوں کو ان کی زندگی چھوڑ گئی ہے۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ' نواب زادہ نصراللہ خان' چوہدری ظہور الٰہی گھر میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے میاں محمود علی قصوری' ملک غلام جیلانی سب لوگ چلے گئے اور سیاسی ہلچل بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان لیڈروں کے کارکن بھی ان کی طرح زندہ و تابندہ ہوا کرتے تھے اور ان کی وجہ سے شہر میں مسلسل ایک رونق رہتی تھی اور شہر میں ہر روز کہیں نہ کہیں کوئی سیاسی سرگرمی دیکھی جاتی تھی لیکن لیڈر گئے تو یہ کارکن بھی گم ہو گئے۔
لاہور میں سیاست کو زندہ رکھنے والے مظفر گڑھ کے نواب زادہ نصراللہ خان تھے جو اپنا علاقہ چھوڑ کر لاہور میں مقیم ہو گئے تھے۔ ان کا ہمہ وقتی کام سیاست تھا اور وہ سیاسی میدان گرم اور رواں دواں رکھتے تھے وہ ایک سیاسی مشیر بھی تھے اور لاہور کے سیاستدان ان کے ہاں باقاعدہ حاضری دیا کرتے تھے اور اپنی سیاسی الجھنوں کا حل تلاش کرتے تھے۔ کوئی نہ کوئی سیاسی اتحاد نواب صاحب کے زیر تعمیر رہتا تھا اور وہ کسی اتحاد کے قیام میں عموماً کامیاب بھی رہتے تھے۔ نکلسن روڈ پر ان کا دفتر اور رہائش دونوں آباد تھے اور لاہور آنے والے سیاستدان سب سے پہلے ان کے ہاں حاضری دیا کرتے تھے۔
ان دنوں پورا پاکستان زندہ تھا اور مشرقی پاکستان کے لیڈر لاہور میں سب سے پہلے نواب صاحب کے ہاں حاضری دے کر مغربی پاکستان کی سیاست کا اندازہ لگاتے تھے۔ بعض درویش قسم کے سیاستدان تو واپسی کا ٹکٹ بھی نواب صاحب سے لیتے تھے اور نواب صاحب کی اپنے اسٹاف کو سخت ہدایت تھی کہ کسی کو اس کا پتہ نہ چلے۔ وہ عزت کرانا اور عزت کرنا جانتے تھے۔ خود نواب صاحب کے پاس اب ایک باغ رہ گیا تھا ان کے مربعے فروخت ہو چکے تھے اس باغ کا پھل بھی وہ تحفوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ اس لیے نواب صاحب خود رئیس نہیں تھے لیکن وہ سیاستدانوں اور کارکنوں کے لیے لاہور میں ایک ڈیرہ قائم رکھتے تھے اور ایک وقار کے ساتھ رہتے تھے۔ لاہور میں ایک ایسا سیاسی ڈیرہ تھا جو ہر ایک کے لیے ہر وقت کھلا تھا۔
ایک کمرے میں چند کرسیاں رکھی ہوتی تھیں اور ایک آدھ صوفہ بھی، ہم لوگوں کو نواب صاحب سے کوئی نہ کوئی خبر ضرور مل جاتی تھی اور اس ڈیرے کا کوئی دن خالی نہیں جاتا تھا۔ اس سے آگے کچھ عرض کرنے کو نہیں ہے کہ نواب صاحب سرکاری کشمیر کمیٹی کے سربراہ بن گئے تھے اس دوران وہ علیل ہو گئے اور اسلام آباد کے ایک اسپتال میں وفات پا گئے ان کے ساتھ ایک زندہ سرگرم اور قبول عام سیاست کا دور ختم ہو گیا۔
ایسے جید اور سراپا سیاستدان اب موجود نہیں ہیں جیسے اس ملک میں سیاست ختم ہو چکی ہے ایک ایسے ملک میں جس کی پیدائش سیاست تھی وہاں سیاست کا نہ ہونا اچھا نہیں لگتا۔ اب بڑے بڑے سیاستدان کاروبار اور زر اندوزی میں مصروف ہو گئے ہیں اور ان کے کارکن اب ختم سمجھئے۔ یہ کارکن زندہ اور سرگرم سیاستدانوں کے طفیل تھے جب سیاست دان ہی نہ رہے تو کارکن کہاں سے پیدا ہوں۔
بھٹو صاحب کی سیاسی حکومت میں کئی لیڈر ان کی کامیاب پالیسیوں کی نذر ہو گئے جیسے دولتانہ صاحب برطانیہ میں ہائی کمشنر بن گئے۔ ایک واقعہ پر کالم ختم کرتا ہوں کہ جب وہ لندن جانے لگے تو انھوں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ میں وہاں اکیلا وقت کیسے کاٹوں گا۔ میرے ساتھ میاں محمد شفیع (میم ش) یا عبدالقادر حسن کو بھی لندن بھیج دیں لیکن یہ دونوں کسی نہ کسی وجہ سے میاں صاحب کی خواہش پوری نہ کر سکے اور انھوں نے اپنی سفارت کا وقت اکیلے ہی گزار دیا۔ یہ وہ سیاستدان تھے جو اپنے ساتھیوں کو کبھی بھولتے نہیں تھے۔ ان کے بغیر اب لاہور ایک خاموش شہر ہے اور اس شہر کی شہرہ آفاق سیاست اب غائب ہو چکی ہے۔