کیا ہم دہشتگرد ہیں
بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کا ضرور واویلا کرتا رہتا ہے
لاہور:
بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی موجودگی کا ضرور واویلا کرتا رہتا ہے مگر حالات و واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ حقیقی دہشت گرد تو بھارت میں ہی موجود ہیں اور وہ موجودہ مودی حکومت کے اپنے خاص لوگ ہیں۔ وہی تو کرکٹ جیسے پرامن کھیل کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے، پچ کو کھودنے اور مہمان کھلاڑیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
نریندر مودی جس ہندوتوا کے فلسفے کے تحت دلی کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں وہ اس انتہاپسندانہ فلسفے سے سرشار ہنسا کے پجاری شیوسینا اور بی جے پی کے غنڈے ہیں، وہی تو آج پورے بھارت میں عدم برداشت اور بربریت کا رویہ عام کیے ہوئے ہیں۔ وہی لوگ تمام اقلیتوں کو بھارت سے نکال باہر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، خاص طور پر مسلمان ان کے نشانے پر ہیں، انھیں تیسرے درجے کا شہری بنا کر کبھی گائے کے گوشت کے کھانے یا رکھنے کے شبے میں اور کبھی پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر بہیمانہ طریقے سے قتل کیا جا رہا ہے۔
عیسائیوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا، ان کے چرچ تباہ کیے جا رہے ہیں، مگر حکومت خاموش تماشائی ہے، اگر ان حکومتی دہشتگردوں کے ظلم اور بربریت کا صرف اقلیتیں ہی نشانہ ہوتیں تو شاید بھارتی عوام خاموش ہو جاتے مگر وہ تو خود بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں نے چانکیائی سیاست سے جو دنیا میں اپنی شان بنا رکھی ہے وہ تو اسے بھی تہہ و بالا کرنے پر بضد ہیں۔ کرکٹ کا کھیل بھارت کے لیے اس کے وقار کا معاملہ بن چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شیوسینا اور بی جے پی کے غنڈے ممبئی حملوں سے لے کر پٹھان کوٹ تک کے حملوں میں ملوث ہیں مگر مودی حکومت جان بوجھ کر بوالعجبی سے کام لے رہی ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ کرنیوالے دہشت گردوں کی نشاندہی ہو چکی ہے، ایک بھارتی عدالت اپنے فیصلے میں بی جے پی کے کئی کارکنان اور ایک حاضر سروس بھارتی فوجی کو اس سانحے کا واحد ذمے دار قرار دے چکی ہے۔ خوش قسمتی سے مجرموں نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا ہے مگر بھارتی حکومت نے انھیں سزا نہیں ہونے دی، جس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارتی حکومت دہشتگردی میں خود معاون ہے۔
مودی حکومت کی ان ہی انتہاپسندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے بھارتی عوام اس کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں، اس کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں عوام کو جو سبز باغ دکھائے تھے ان کی حقیقت اب کھل کر عوام کے سامنے آ چکی ہے، مگر بی جے پی حکومت اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے عوام کو پاکستان فوبیا میں پھنسا کر ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ اب بھارتی عوام حکومتی چالوں کو خوب سمجھ چکے ہیں۔
وہ یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ حکومت بھارت میں ہونے والی دہشتگردی کا پاکستان پر الزام لگا کر اپنے لوگوں کی دہشت گردی پر پردہ ڈالنے کی چال چل رہی ہے۔ یہ اب حقیقت ہے کہ بھارتی عوام بلاجواز پاکستان دشمنی سے تنگ آ چکے ہیں اور اندرونی دہشتگردوں کو حاصل حکومتی سرپرستی کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے نظر آ رہے ہیں۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں یہی کچھ ہوا ہے، وہاں جو کچھ ہوا وہ بی جے پی حکومت کی پاکستان دشمنی کے خلاف کھلا اظہار تھا، وہاں کے ہندو طالب علموں نے کشمیری حریت پسند شہید رہنما افضل گورو کی برسی کے موقعے پر کھلم کھلا کشمیری طلبا کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستان زندہ باد اور کشمیریوں کی آزادی کے حق میں نعرے بلند کیے تھے۔ جن کی آواز کشمیر سے راس کماری اور جیسلمیر سے تری پورہ تک سنی گئی۔
یہ حقیقت پسندانہ نعرے بھارتی حکومت کی پاکستان مخالف پالیسیوں کے خلاف کھلا احتجاج تھا۔ ان نعروں کے خلاف عام بھارتیوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا، اس کے خلاف بھارت میں کہیں کوئی ریلی نہیں نکلی، اگر تکلیف ہوئی تو صرف بی جے پی کو۔ اس کے پاکستان دشمن غنڈوں نے مذکورہ یونیورسٹی کے طلبا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ حکومت نے طلبا کے خلاف مقدمہ درج کرا کے طلبا یونین کے قائدین کو جیل بھجوا دیا۔ خاص طور پر طلبا یونین کے صدر کنہیا کمار کو غدار قرار دے کر اسے سخت اذیت کا نشانہ بنایا گیا، حد تو یہ ہے کہ اس دلت طالب علم رہنما کے سر کی قیمت مقرر کر دی گئی ہے کہ جو بھی اسے قتل کرے گا اسے بھاری رقم انعام کے طور پر دی جائے گی۔
یہ ہے امن پسند اور روشن بھارت کی اصل تصویر۔ بھارت میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ جو ظلم و ستم کیا جا رہا ہے اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے کنہیا کمار کے ماں باپ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں، جن سے خوف زدہ ہوکر وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی انجان مقام پر منتقل ہو گئے ہیں۔ جواہر لال یونیورسٹی کے اس واقعے سے بہرحال یہ بات اب پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ بھارتی عوام حکومتی کشمیر پالیسی سے بیزار ہو چکے ہیں، وہ کشمیریوں پر مزید ظلم کے پہاڑ توڑنے اور انھیں مزید غلام بنائے رکھنے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اب تک بھارتی حکومتیں کشمیریوں کو آزادی دینے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی ضرور رو گردانی کرتی چلی آئی ہیں مگر اب اپنے عوام کی ضرور سننا ہو گی۔
بھارت نے کشمیر کو زبردستی اپنا اٹوٹ انگ بنانے کے لیے لاکھوں فوجیوں کو وہاں متعین کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود بھی کشمیری اپنی آزادی کے لیے بے جگری سے لڑ رہے ہیں اور جانیں دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسی کسی قوم کو کوئی بھی طاقتور سامراجی ملک زیادہ عرصے تک غلام بنا کر نہیں رکھ سکتا، جو اپنی آزادی کے لیے جانوں کو قربان کرنے میں دریغ نہیں کرتی۔ بھارتی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ کشمیریوں کو ہمیشہ اپنا محکوم بنا کر نہیں رکھ سکتی انھیں بہرحال آزاد کرنا ہی ہو گا۔
گوکہ وہ برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ جیسے عاقبت نااندیش حمایتی کے مشوروں اور اسرائیلی فارمولے کے تحت کشمیریوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہے، انھیں فلسطینیوں کی طرح بے دریغ قتل کر رہی ہے مگر نہ تو اسرائیل ہمیشہ فلسطینیوں کو اپنا غلام بنا کر رکھ سکتا ہے اور نہ ہی بھارت۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ بھارت کشمیریوں کی آزادی کو روکنے کے لیے بے دریغ رقم خرچ کر رہا ہے، عالمی میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اپنے آلہ کاروں پر بھی بے دریغ رقم نچھاور کر رہا ہے۔
اپنی فوج کو خطے کی سب سے طاقتور فوج بنانے کے لیے قسم قسم کا جدید اسلحہ خرید رہا ہے ان بے جا اور بے تحاشا اخراجات کی وجہ سے سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہی نہیں ہو پا رہا ہے، جس سے ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی بڑے شہروں میں ضرور چمک دمک ہے مگر اندرون بھارت لوگ بھوکوں مر رہے ہیں، کسان خودکشیاں کر رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کی اس عوام کش پالیسی کی وجہ سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ بھارتی حکمراں اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر زمینی حقائق کا ادراک کرنا اپنا شعار بنا لیں تو اس سے بھارت کی مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے پہلی دفعہ بھارتی حکومت کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا گیا ہے، یہ اپنی نوعیت کا انوکھا اقدام بھارت میں شیوراتری کے تہوار کے موقع پر اٹھایا گیا۔ بھارت کو حکومتی سطح پر خفیہ پیغام دیا گیا کہ پاکستان سے فدائین کا ایک دس رکنی گروپ بھارتی ریاست گجرات میں داخل ہو گیا ہے جو وہاں دہشتگردی کر سکتا ہے۔ اتنی اہم خبر بھارت کو پہنچائی گئی مگر بھارتی حکام نے پاکستان کا شکریہ تک ادا نہیں کیا، البتہ یہ ضرور ہوا کہ پاکستان کے خفیہ پیغام نے پورے بھارت میں شیوراتری کے خوشگوار تہوار کے مزے کو کرکرا کرا دیا تھا۔ ہر طرف پاکستانی دہشت گردوں کی تلاش جاری تھی مگر جب سے ابھی تک کوئی پاکستانی دہشت گرد دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔ آخر ایسی بے پر کی خبر بھارت سے کیوں نشر کی گئی۔
بہرحال اب اس حکومتی بھارت نوازی کے بعد ہم پاکستانی اس سوچ میں ڈوب گئے ہیں کہ کیا ہم واقعی دہشت گرد ہیں؟ اس کے علاوہ یہ بھی ہوا ہے کہ بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اٹھائے گئے ان اقدام کو بھارت اپنی روایتی چالاکی سے پاکستانی دہشتگردی کے ثبوت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ حکومت نے دہشتگردی سے متعلق جس طرح کی معلومات بھارت سے شیئر کی ہیں کیا بھارت سے بھی ایسی ہی معلومات کی امید کی جا سکتی ہے؟