اور نفرتیں ہار گئیں
ایڈن گارڈن کے خوشگوار لمحات کو دیکھنے کے بعد ایک بار پھر ثابت یوگیا کہ نفرتیں ہار گئیں اور محبتیں جیت گئیں۔
SUKKUR:
آفریدی کے ہر شارٹ پر تماشائیوں کا پُرجوش ہو کر خوشی سے جھومنا اور والہانہ رقص کرنا، پھر عامر کی جھومتی گھومتی گیندوں کے کامیاب نشانوں پر آسمان سر پر اٹھا لینا، حفیظ اور شہزاد کو نصف سینچری کی تکمیل پر کھڑے ہو کر داد دینا۔ یہ مناظر پاکستان یا دبئی میں کھیلے جانے والے کسی میچ کے نہیں، بلکہ بھارتی شہر میں واقع ایڈن گارڈن کے تھے جہاں، پاکستان ورلڈ کپ کا پہلا میچ بنگلہ دیش کے خلاف کھیل رہا تھا۔ اگر سچ پوچھیں تو ان مناظر نے کروڑوں پاکستانیوں کا دل جیت لیا۔
ان خوبصورت لمحوں نے آج ایک بات ثابت کردی کہ نفرتیں ہار گئیں اور محبتیں جیت گئیں۔ یہ کرکٹ کی جیت کے ساتھ نفرت کی ہار ہے، یہ ان شدت پسند عناصر کی شکست ہے جنہوں نے صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کا میچ دھرم شالا سے کولکتہ منتقل کروایا۔ یہ ان تنگ ذہن عناصر کی شکست ہے جنہوں نے آفریدی کے ایک سادہ سے بیان کو لے کر ان کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر طوفانِ بدتمیزی کھڑا کردیا تھا۔ نفرت کے دکانداروں کو شاید احساس ہوگیا ہوگا کہ ان کی چاندی ختم ہوگئی، نفرت کے ٹوٹکوں سے مزید اس خطے کی عوام کا ذہن زہر آلود نہیں کیا جا سکتا۔
شاید اس خطے کی عوام کو احساس ہوگیا ہے کہ نفرتوں نے انہیں جنگوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ان جنگوں سے جہاں قیمتی وسائل کا بے دریغ زیاں ہوا وہیں کئی لوگ جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اس وقت یہ بحث بے معنی ہے کہ غلطی کس کی تھی۔ ماضی کریدنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا، ہاں مندمل ہوتے زخموں سے خون دوبارہ رسنا شروع ہوجائے گا۔ محبت کا جو سمندر گزشتہ روز ایڈن گارڈن سے نکلا ہے اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ اس محبت کے دئیے کو بجھنے سے بچانا ہے۔ آج دونوں ممالک کی عوام نے نفرت کے زخموں پر محبت کا جو مرہم رکھا ہے اسے ماضی کے دکھوں کا کافی حد تک مداوا ہوا ہے۔
یہ لمحات دیکھ کر دل میں زور کی خواہش ابھری کہ کاش یہ محبتیں امر ہوجائیں۔ کاش جس طرح ان دو ممالک کی عوام نے ایک دوسرے کے لئے اپنے دل وار دئیے اسی طرح ان کے بڑے بھی دل کو وسیع کرلیں۔ اگر دوسری جنگ عظیم کے سبھی دشمن آج دوست اور اتحادی ہیں تو یہ دو ممالک کیوں نہیں اچھے ہمسائیوں کی طرح رہ سکتے؟ چین اور امریکہ تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آج سب سے بڑے تجارتی حلیف ہیں تو اس خطے کے حکمرانوں کو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو بدلنا ہوگا، تاکہ اپنے عوام کی بھلائی کے لئے خلوص نیت سے کام کرسکیں اور جو وسائل ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں انہیں خطے کی عوام کی بھلائی پر خرچ کیا جا سکے۔
[poll id="1018"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آفریدی کے ہر شارٹ پر تماشائیوں کا پُرجوش ہو کر خوشی سے جھومنا اور والہانہ رقص کرنا، پھر عامر کی جھومتی گھومتی گیندوں کے کامیاب نشانوں پر آسمان سر پر اٹھا لینا، حفیظ اور شہزاد کو نصف سینچری کی تکمیل پر کھڑے ہو کر داد دینا۔ یہ مناظر پاکستان یا دبئی میں کھیلے جانے والے کسی میچ کے نہیں، بلکہ بھارتی شہر میں واقع ایڈن گارڈن کے تھے جہاں، پاکستان ورلڈ کپ کا پہلا میچ بنگلہ دیش کے خلاف کھیل رہا تھا۔ اگر سچ پوچھیں تو ان مناظر نے کروڑوں پاکستانیوں کا دل جیت لیا۔
ان خوبصورت لمحوں نے آج ایک بات ثابت کردی کہ نفرتیں ہار گئیں اور محبتیں جیت گئیں۔ یہ کرکٹ کی جیت کے ساتھ نفرت کی ہار ہے، یہ ان شدت پسند عناصر کی شکست ہے جنہوں نے صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کا میچ دھرم شالا سے کولکتہ منتقل کروایا۔ یہ ان تنگ ذہن عناصر کی شکست ہے جنہوں نے آفریدی کے ایک سادہ سے بیان کو لے کر ان کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر طوفانِ بدتمیزی کھڑا کردیا تھا۔ نفرت کے دکانداروں کو شاید احساس ہوگیا ہوگا کہ ان کی چاندی ختم ہوگئی، نفرت کے ٹوٹکوں سے مزید اس خطے کی عوام کا ذہن زہر آلود نہیں کیا جا سکتا۔
شاید اس خطے کی عوام کو احساس ہوگیا ہے کہ نفرتوں نے انہیں جنگوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ان جنگوں سے جہاں قیمتی وسائل کا بے دریغ زیاں ہوا وہیں کئی لوگ جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ اس وقت یہ بحث بے معنی ہے کہ غلطی کس کی تھی۔ ماضی کریدنے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا، ہاں مندمل ہوتے زخموں سے خون دوبارہ رسنا شروع ہوجائے گا۔ محبت کا جو سمندر گزشتہ روز ایڈن گارڈن سے نکلا ہے اسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہیئے۔ اس محبت کے دئیے کو بجھنے سے بچانا ہے۔ آج دونوں ممالک کی عوام نے نفرت کے زخموں پر محبت کا جو مرہم رکھا ہے اسے ماضی کے دکھوں کا کافی حد تک مداوا ہوا ہے۔
یہ لمحات دیکھ کر دل میں زور کی خواہش ابھری کہ کاش یہ محبتیں امر ہوجائیں۔ کاش جس طرح ان دو ممالک کی عوام نے ایک دوسرے کے لئے اپنے دل وار دئیے اسی طرح ان کے بڑے بھی دل کو وسیع کرلیں۔ اگر دوسری جنگ عظیم کے سبھی دشمن آج دوست اور اتحادی ہیں تو یہ دو ممالک کیوں نہیں اچھے ہمسائیوں کی طرح رہ سکتے؟ چین اور امریکہ تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے آج سب سے بڑے تجارتی حلیف ہیں تو اس خطے کے حکمرانوں کو تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو بدلنا ہوگا، تاکہ اپنے عوام کی بھلائی کے لئے خلوص نیت سے کام کرسکیں اور جو وسائل ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے استعمال ہو رہے ہیں انہیں خطے کی عوام کی بھلائی پر خرچ کیا جا سکے۔
[poll id="1018"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔