جان لے لیں مگر سرکاری ادارے نہ بھیجیں

سرکاری اداروں میں پلتا فرسودہ نظام عوام کو کتنا زچ کرتا ہے یہ پاکستانیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

ایک برادرانہ مشورہ ہے، آپ کو کبھی بھی سرکاری ادارے میں کوئی کام پڑ جائے تو وہاں جانے سے پہلے بہتر ہے ذہنی اور جسمانی مشقت کیلئے خود کو تیار کرلیں۔

JAMRUD:
ایک برادرانہ مشورہ ہے، آپ کو کبھی بھی سرکاری ادارے میں کوئی کام پڑ جائے تو وہاں جانے سے پہلے بہتر ہے ذہنی اور جسمانی مشقت کیلئے خود کو تیار کرلیں، کیونکہ آپ ایسے گورکھ دھندے میں الجھ رہے ہیں جہاں چکر پر چکر لگانا گویا طے ہے، چھوٹے سے کام کی خاطر آپ کو اتنا گھمائیں گے کہ دن میں تارے نظر آجائیں۔ سرکاری اداروں میں پلتا فرسودہ نظام عوام کو کتنا زچ کرتا ہے یہ پاکستانیوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اس نظام میں کام کیسے ہوتا ہے ذرا ترتیب وار ملاحظہ کیجئے۔

  • سب سے پہلے سرکاری ادارے میں قدم رکھنے کی نیت کریں، بہتر ہے دفتر سے چھٹی لے لیں۔

  • لمبی قطار اور انتظار کی اذیت کو پہلے خیالوں میں محسوس کریں اور پھر سائلین کی دیوار چین کو دیکھ کر اطمینان کر لیجیئے کہ آپ نے چھٹی بالکل ٹھیک لی ہے۔

  • قطار میں لگ جائیں اور وقت گزاری کے لئے آس پاس والوں سے گپ شپ شروع کیجئے۔

  • ہر لمحے آپ کو سائل ہونے کے ساتھ ساتھ چوکیدار کا کردار بھی ادا کرنا ہوگا، کیونکہ کوئی تعلق، کوئی واسطے والا، بلا واسطہ ہی قطار کو بائی پاس کرکے آپ کو اذیت کے امتحان میں ڈال دے گا۔ ہمت ہے تو لائن چھوڑ کر پیچھے سے آنے والے ''سفارشی'' کو قطار کے آداب سکھائیں اور عملے سے شکایت کرکے اسے راہ، قطار میں آنے کی تلقین کریں، لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ واپسی پر آپ کو اپنی لائن میں وہی جگہ ملے گی جو آپ چھوڑ کر گئے ہوں۔

  • ویسے آپس کی بات ہے ایک سے زیادہ لائنیں لگی ہوں تو اپنی لائن ہمیشہ سب سے لمبی لگتی ہے، لیکن خبردار ہوشیار! پیوستہ رہ قطار سے امید باری رکھ۔۔ اپنی لائن چھوڑ کر کبھی دوسری لائن میں نہ جائیں، کیونکہ دو قطاروں کے مسافر کو کھڑکی کی منزل مشکل سے ہی ملتی ہے۔

  • کھڑکی کے پاس پہنچیں تو دل ہی دل میں دعا کریں کہ کہیں باری آنے پر عملہ کھانے کے وقفہ پر ہی نہ چلا جائے، لیکن بہتر ہے کہ کھڑکی بند ہونے کے خوف سے نمٹںے کی نیت کرلیں تا کہ انتظار کی اذیت کی شدت کم ہوسکے۔

  • دستاویزات جمع کراتے وقت یہ یقین کرلیں کہ آپ کے کاغذات میں ''اوبجیکشن'' نکلے ہی نکلے۔ کاغذات چیک کرنے والے کی شکل غور سے دیکھیں اور دعا کریں کہ وہ آپ کی طرف دیکھ کر اپنے لب نہ ہی کھولے تو اچھا ہے۔


ان اعتراضات کی تفصیل بھی جان لیجئے، یہ کچھ یوں بھی ہوں سکتے ہیں۔

  • آپ کی تصویر میں آپ کے کان ٹھیک طرح نظر نہیں آرہے تو اوبجیکشن

  • شناختی کارڈ کی ایک اور فوٹو کاپی چاہیئے، نہیں ہے تو اوبجیکشن

  • کسی دوسرے ادارے کے افسر کے دستخط یا مہر نہیں لگی تو اوبجیکشن

  • کسی قسم کے کوئی بقایاجات نادانستگی میں جمع ہونے سے رہ گئے تو اوبجیکشن



ضابطے کی کوئی کارروائی پوری نہیں ہوئی تو اوبجیکشن، اور یہ وہ اوبجیکشن ہے جو پہلے بتایا ہی نہیں جاتا۔ اوبجیکشن کے انجیکشن پر انجیکشن لگنے کا مطلب ہے کہ دفتر سے ایک اور چھٹی، اگلے دن اپنے تمام اوبجیکشنز کو دور کرکے دوبارہ کلرک بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوں۔

کلرک آپ کی دستاویزات چیک کرکے مہر لگانے لگے تو دعا کریں کہیں مہر گم نہ ہو گئی ہو، ورنہ انتظار ضرب انتظار، کلرک آپ کے کاغذات مکمل ہونے کی خوشخبری دے تو رسید کاٹتے وقت اگر کلرک بادشاہ کا موبائل فون بجنا شروع کردے تو سمجھیں ہوگیا ارمانوں کا خون۔ اب کلرک ساری دنیا کے کام چھوڑ کر اور بھول کر اپنا فون سنے گا چاہے اس دوران لائن بے شک شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوجائے، فون کال سے لمبی نہیں ہوگی۔

کلرک سے جان چھڑانے کے بعد اب وقت ہے افسر سے ملاقات کا، لیکن افسر سے پہلے افسر کے اس اسسٹنٹ سے ملیں جس کا رعب افسر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ مغرور نائب آپ کو حقیر جان کر از خود نوٹس لے کر فرمائے گا، جی صاحب میٹںگ میں ہیں انتظار کریں۔ اس دوران افسر کے کمرے میں جاتے چائے کے کپ اور قہقہوں کی آوازوں سے آپ سمجھ سکتےہیں کہ کتنی اہم میٹںگ ہو رہی ہے۔

دفتری اوقات کار ختم ہونے کے قریب نائب قاصد ترس کھا کر آپ کو صاحب کے کمرے میں بھیجنے ہی لگے گا لیکن کیا کریں کہ صاحب تو بریف کیس کے ساتھ کمرے سے گھر کی راہ لیتے نظر آئیں گے اور کل آجانا کی آواز تلے آپ کا سارا احتجاج دب جائے گا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ درخواست جمع ہونے کی گارنٹی تو مل جائے گی لیکن کام ہونے کی کوئی گارںٹی نہیں، اس لئے الگ چلا کاٹنا پڑتا ہے۔ دو دن ضائع کرنے کے بعد دوستوں کے مشورے سننے کو ملتے ہیں، کسی سے فون کروا دیتے یا مٹھی گرم کردیتے تو آدھے گھنٹے میں کام ہو جاتا۔

عام انسان پھر یہی سوچتا ہے کہ سرکاری اداروں میں کام کا بوجھ کم اور بد نیتی کا بوجھ زیادہ ہے۔ اگر کسی کی مٹھی گرم کرکے یا ایک کال کروانے سے آدھے گھنٹے میں کام ہوسکتا ہے تو کیوں نہ اس نظام کو قبول کرلیں۔ کیا وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے بڑے کام صرف ایک کلک پر ہو جاتے ہیں تو کیا تبدیلی لانی چاہیئے یا نظام ہی بدل دینا چاہیئے؟

حل تو ایک ہی نظر آتا ہے، بدنیتی اور کرپشن سے لتھڑے سسٹم کی ونڈو ڈیلیٹ کرکے نئے سسٹم کی ڈیجیٹل ونڈو انسٹال کردی جائے، ورنہ پرانے سسٹم کا وائرس تو نئے سافٹ ویئرز میں بھی باآسانی گھس جاتا ہے۔ اس کرپٹ ہوجانے والے سسٹم کی آپریٹنگ سیٹنگ بدلنا ہوگی۔ پٹواری کی کمپیوٹر میں رجسٹری کرنا ہوگی، تھانہ کلچر پر بھی ٹیکنالوجی کا سپاہی بٹھانا ہوگا۔ اس سے عام آدمی تو سکون کا سانس لے گا ہی ساتھ ہی عملہ بھی بے ایمانی سے بچ جائے گا، اور امن، چین، سکون اور ترقی کی پوپ اپ ونڈو بھی کھل جائے گی، کیونکہ ڈیجیٹل آنکھیں ہر وقت پہرہ دیتی رہتی ہیں۔

[poll id="1020"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story