جاگتے رہنا منجانب پی ٹی اے

چونکہ قانون کی آنکھیں نہیں ہیں اس لئے معزز صارفین کو اس بات سے آگاہ کردیا گیا کہ احتیاط کا دامن کبھی ناں چھوڑیں۔


محمد عاصم March 18, 2016
اگر اتنی کھلی جعل سازی کرنے والے قانون کو چکمہ دے سکتے ہیں تو سوچئے! دہشتگرد کتنی آسانی سے ٹیکنالوجی کو اپنے لئے استعمال کرکے صاف بچ سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

صدیوں سے عوام کی حفاظت کا ذمہ دار مقتدر طبقہ رہا ہے، عدل جہانگیر تو زبان زد عام ہے۔ بڑے بڑے بادشاہوں کی سلطنتوں میں عوام کو اندرونی اور بیرونی حملہ آوروں اور چور ڈاکوؤں سے محفوظ رکھنا اپنی اولین ذمہ داری تصور کیا جاتا رہا ہے، لیکن آج کے جمہوری حکمران اس اہم ذمہ داری سے نہ صرف آنکھیں چرا رہے ہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کا کھلا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

آج دوپہر کی ہی بات ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے محتاط رہنے کا پیغام موصول ہوا، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کا پیغام تھا کہ،
''معزز صارف میسج یا کال کے زریعے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر یا انعام کے نام پر رقم طلب کرنے والے فراڈ سے بچیں۔ ایسے نمبر پر رابطہ نہ کیجئے، شکریہ''۔

اس پیغام کو پڑھ کر بے اختیار مجھے اپنے محلے کا سیکیورٹی گارڈ یاد آگیا، جو صدا لگایا کرتا تھا کہ جاگتے رہنا، ساڈے تے ناں رہنا۔ گزشتہ 3 سال کی پر زور مہم کے بعد پی ٹی اے نے اعلان کیا تھا کہ ان تمام سموں کو بند کردیا گیا ہے جن کی بائیو میٹرک تصدیق نہیں کروائی گئی۔ دوسرے لفظوں میں اگر کوئی نمبر کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں استعمال ہوا تو قانون کی گرفت سے بھاگ نہیں سکے گا۔ کیوںکہ اب قانون کے ہاتھ لمبے ہوچکے ہیں، لیکن قانون کی آنکھیں نہیں ہیں اس لئے معزز صارفین کو اس بات سے آگاہ کردیا گیا کہ احتیاط کا دامن کبھی ناں چھوڑیں۔

ایسے افراد یا گروہ جو منظم انداز سے معاشرے میں خرابی کا سبب بن رہے ہیں، آخر ان کو قانون اپنی گرفت میں کیوں نہیں لیتا؟ کیا ایسے نمبرز کو ٹریس کرنا ممکن نہیں ہے؟ اگر اتنی کھلی جعل سازی کرنے والے قانون کو چکمہ دے سکتے ہیں تو سوچئے! دہشتگرد کتنی آسانی سے ٹیکنالوجی کو اپنے لئے استعمال کرکے صاف بچ سکتے ہیں۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسے افراد یا منظم گروہوں کو کسی بااثر شخص کی سرپرستی حاصل ہے، جس تک قانون کی پہنچ ممکن نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ لوٹ مار کرنے والے خود قانون کے رکھوالے ہیں؟ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ ایسے افراد سافٹ وئیرز کا استعمال کرتے ہیں، اگر ایسا بھی ہے تو بھی باآسانی ان افراد تک پہنچا جاسکتا ہے۔ سوال پھر بھی وہی ہے کہ آخر پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے انتباہ کا میسج کیوں بھیجا؟ اپنی معذوری کا اظہار کیوں کیا؟ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کا تعاقب کیوں نہیں کیا گیا؟

نیب جیسے ادارے میں بھی بارگین کی سہولت موجود ہے۔ یعنی آپ لوٹ مار کریں، پھر نیب اُس سب کی تحقیقات فرمائے گا، اب یہ آپ کی ''صلاحیت اور مہارت'' پر منحصر ہے کہ آپ نے ''مال بنانے'' کی کاروائی کتنی صفائی سے کی۔

کیسے جی دار ہوتے ہیں وہ لوگ جو معصومیت کی آڑ میں اپنے ہی لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں اور کتنے ''بہادر'' ہیں عوام، جو ہر بار ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں لٹ جاتے ہیں، لیکن کھیل جس دن بھی پلٹ گیا، تب ان سفید ہاتھیوں کا کیا ہوگا؟ تب کوئی بھی ان کی داد رسی کو سامنے نہیں آئے گا۔

[poll id="1019"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔