مہاجر فیکٹر کیوں اور کیسے
برصغیر کی تقسیم نے جہاں بڑے مسائل کو حل کیا وہاں چھوٹے مسائل پیدا بھی ہوئے،
برصغیر کی تقسیم نے جہاں بڑے مسائل کو حل کیا وہاں چھوٹے مسائل پیدا بھی ہوئے، خصوصاً پاکستان جہاں بھارت سے لاکھوں کی ہجرت اور ایک بڑے شہر کی جانب آبادی اور اسی کے ساتھ حیدر آباد اور اس کے گرد و نواح میں آبادی، شہر کراچی کی تو حالت قابل دید رہی، حیدرآباد کالونی، بہار کالونی، الٰہ آباد ٹاؤن، انچولی، آگرہ تاج کالونی، لکھنو سوسائٹی، پیتل گلی، مراد آباد وغیرہ وغیرہ، یہ جو سوسائٹیاں وجود میں آئی ہیں۔
اپنی زبان ، بیان اور کلچر ساتھ لائیں سب سے بڑھ کر اپنی زبان ساتھ لائیں، عام طور پر ہجرت کرنے والے جہاں جاتے ہیں مہاجر اپنی ثقافت کھو بیٹھتے ہیں لیکن جب مہاجر تعداد میں ساکنان کم و بیش ہوں، اپنی بیوروکریسی بھی ساتھ لائے ہوں تو فسادات پیدا ہوں گے اور نتیجہ یہ ہونا تھا کہ کوٹہ سسٹم کا نفاذ وجود میں آنا تھا، پھر ملک کے سب سے بڑے شہر پر مہاجروں کی یلغار۔ شروع میں تو مہاجرین نے خود کو مہاجر کہلوانا پسند نہ کیا مگر 1972 یعنی آزادی کے 27 سال بعد ان کو اپنی شناخت کا خیال آیا اور یہ مسئلہ در حقیقت اس لیے پیدا ہوا کہ جب پنجاب میں بننے والی فلمیں پوربی زبان جو لکھنو کے دیہی علاقے کی بولی میں فلمیں بننے لگیں اور صوبوں میں ہونے والے اسکولوں اور کالجوں میں ہونے والے ٹیبلو میں سندھی، بلوچی، پنجابی، بنگالی، پشتو ہونے لگے تو اردو بولنے والے طبقے نے بھی خود کو محسوس کرنا شروع کیا۔
خصوصاً نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری محمود الحق عثمانی، اختر رضوی ، احمد الطاف، رئیس امروہوی اور دیگر شہر کے فعال اردو داں طبقہ اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیڈر امیر حیدر کاظمی، لیکن این ایس ایف میں زیادہ نظریاتی لوگ تھے لہٰذا کاظمی صاحب کا یہ عمل اصلی جامہ نہ پہن سکا، بلوچ اسٹوڈنٹس، پشتون اسٹوڈنٹس،جئے سندھ پنجابی تنظیم ،اس قسم کی تنظیموں نے اور کیفیت پیدا کردی کہ مہاجر بھی ایک فیکٹر ہے اسی لیے جب پہلی بار ایم کیو ایم کی اسٹوڈنٹ باڈی بنی اور پاجامہ اور قمیض کو اپنا تشخص بنایا، گو کہ ملک میں دباؤ کے تحت مہاجر قومی موومنٹ کو بتدریج تبدیل کرنا پڑا اور ملک میں اپنا نام متحدہ قومی موومنٹ کہلایا گیا مگر جب بھی امتحان کی گھڑی آئی یا سخت دن آئے تو لفظ متحدہ کی جگہ مہاجر ایک پریشر کے طور پر استعمال کرنا پڑا۔
جب پہلی بار مہاجر قومی موومنٹ خاصی اکثریت سے جیت کر آئی اور کراچی، نواب شاہ، سکھر، خیرپور، ٹنڈو آدم، ٹنڈو جام، رانی پور، میرپور خاص، حیدرآباد سے جب یہ اپنا تشخص منوانے میں کامیاب ہوئے تو لوگوں کو حیرت ہوئی، الطاف حسین نے اپنا لوہا منوالیا اور الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ کو اپنی فکری اساس بنایا، یہاں تک کہ تسنیم فاروقی اور محمد احمد این ایس ایف کا وہ گروہ جو نظریاتی طور پر روس نواز اور چین نواز تھا، دونوں نے زبردست کام کیے اور الطاف حسین نے پارٹی کو فکری کام کرکے دکھایا، گلی کوچوں میں نظریاتی کلاسیں۔ پھر ایک وقت ایسا آگیا کہ اگر الطاف حسین اگر کسی ڈنڈے کو کھڑا کردیں تو وہ ڈنڈا جیت جائے۔
میں تو 1963 کے بعد بھارت نہ جاسکا مگر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ بھارت نے کون سا کام ایسا الطاف حسین سے لیا ہے البتہ پارٹی کے لیڈران نے جس طرح پارٹی کو ترتیب دیا وہ غیر معمولی عمل ہے، مثلاً کوٹہ سسٹم، چھوٹے کم پڑھے لکھے لوگوں کو مثلاً کانسٹیبل، وارڈن کی ملازمتیں، واٹر بورڈ میں ملازمتیں مگر بلند پوزیشن کی نوکریاں نہیں ملیں اور کسی حد تک چھوٹی نوکریاں دی گئی، عام طور پر 10،12 ہزار کی نوکریاں اب تک جو مایوسی اردو داں طبقہ اب چھوٹی نوکریوں تک پر رہ گیا ہے تو پھر سیاست میں کود کر ہی حاصل ہوا اور اگر سندھ میں مردم شماری ہوجائے تو پھر یہ معلوم ہوگا کہ دیہی اور شہری سندھ کا تناسب کیا ہوگا۔
مگر ایم کیو ایم نے متحدہ کا لبادہ اوڑھ کر اپنی شدت کو کم کردیا ہے مگر جونہی ایم کیو ایم بعض لوگوں نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ بھارت میں قائد تحریک کے کئی شہروں میں ہورڈنگ لگا رکھے ہیں مگر جو لوگ بھارت سے تجارت کررہے ہیں وہ کیسے مستثنیٰ قرار پاگئے اور بھارت کے سائن بورڈ سے کیسے فائدہ ہوسکتا ہے، جب کہ بھارت سے آج تک الطاف حسین کی حمایت میں کوئی بیان نہیں، جب کہ الطاف حسین کی جانب سے بھارت کے خلاف بے شمار تصویریں آچکی ہیں اور اگر یہ ایسا ہی آسان نسخہ ہوتا تو یہ الزام سیاسی پارٹیوں کے بجائے ایجنسیوں کی جانب سے آنا چاہیے تھا۔ جب کہ عام آدمی ایجنسیوں کے بجائے خود کارندے بنے ہوئے ہیں جیساکہ 20 کروڑ کی آبادی والے ملک سے کوئی کارندہ چند ماہ قبل نہ ملا، 1984 سے لے کر آج تک کوئی نہ ملا۔
ایسا لگتا ہے یہ بھی ایک سیاست کی کڑی ہے البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض درندہ صفت لوگوں نے ایم کیو ایم میں اور دوسری جماعت میں پناہ لے رکھی تھی، جس کا رینجرز نے پردہ چاک کیا اور قائد تحریک نے ان کو اپنی تحریک سے نکالنے کی کوششیں کیں، مگر پارٹی کے حجم کے اعتبار سے لگتا ہے کہ گرفت کمزور پڑتی جارہی تھی اور یہ تمام چیزیں پارٹی کی قیادت سے پنہاں رہی۔ آج جو لوگ ایم کیو ایم کے خلاف قیادت لے کر آئے آخر یہ معاملہ اس وقت کیوں نہ اٹھایا، جب یہ معاملات عروج پر تھے اور آخر کار فوج کو قدم اٹھانا پڑا اور نامعلوم لوگوں کی معاشی سرپرستی میں قیادت کررہے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک قافلہ بنالیا۔
مگر پارٹی کا نام تشکیل نہ دیا اور محض پاکستانی جھنڈے کو ہی استعمال کیا جارہا ہے اور ہر بات پر اﷲ اور اس کے رسول کے نام کو استعمال کیا جارہا ہے اور اگر یہ کوشش ہے کہ ایم کیو ایم ٹوٹ کر اس نئی تنظیم سے آملے تو یہ نہایت مشکل ہے کیوں کہ یہ لیڈر شپ کا ٹولہ ہے، جو یہ سمجھ رہا ہے کہ لوگ ایم کیو ایم میں ان کی وجہ سے آئے ہیں آخر ان لوگوں میں کون سا ایسا شخص ہے جو جب ایم کیو ایم ابتدا میں اسٹوڈنٹس کے درجے پر تھی تو وہ آرگنائزر تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایک شخص یا تنظیم ہے جو ڈور ہلارہا ہے اور عوام کے بجائے لیڈروں کا اجتماع ہورہاہے۔
نارتھ ناظم آباد کا بائی الیکشن ہی اس کا فیصلہ کرے گا کہ کراچی کے عوام کس کے ساتھ ہیں۔ میڈیا ٹرائل کے ذریعے سے کوئی فیصلہ نہ ہوگا کیوں کہ ایم کیو ایم کے کارکن اسٹیڈی سرکل اور اپنی نظریاتی اساس کے ذریعے پروان چڑھے نہ کہ پریس کانفرنس کے ذریعے ۔ ایم کیو ایم مقاصد لے کر آگے بڑھی، شہری اور دیہی علاقوں کے مساوی حقوق، وڈیرہ شاہی کا خاتمہ، کراچی میں انڈیا کا ویزہ آفس کیوں کہ 1947 میں ہندو مسلم خاندان تقسیم ہوئے ویزے کے لیے اسلام آباد جانا ہوتا ہے۔
کوٹہ سسٹم خاتمہ، شہری دیہی مساوی حقوق، تعلیمی اداروں میں داخلہ پالیسی اور کراچی کے عوام کے مسائل کو ایڈریس کرنا سندھ کے شہری علاقوں میں 45 فی صد لوگ کرائے کے مکان میں رہتے ہیں، کرائے داروں کو ہاؤس بلڈنگ لون، ٹرانسپورٹ اور کراچی کا مسئلہ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے مہاجر فیکٹر ختم نہ ہوگا اور سندھ کے شہری علاقے بے چین رہیں گے شہری اور دیہی علاقے کب کے الگ ہوگئے ہوتے اگر ہاری اور مزدور کے الگ ہونے کا مسئلہ نہ ہوتا کیوں کہ ہاری مزدور کا شہری اور اندرون سندھ کا ہاری فیکٹر الگ نہ ہوجاتا۔