ہر نسل ہی قائد تیرے افکار کی تجدید کرے گی
آج ایم کیو ایم اپنا 32واں یوم تاسیس اگرچہ ایک بار پھر نہایت کٹھن، نازک اور ناموافق حالات کے سائے تلے منارہی ہے۔
آج ایم کیو ایم اپنا 32واں یوم تاسیس اگرچہ ایک بار پھر نہایت کٹھن، نازک اور ناموافق حالات کے سائے تلے منارہی ہے جہاں ایک طرف اس کے خلاف غیر اعلانیہ آپریشن جارہی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف اس کے کارکنان کو بلاجواز گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ ماورائے عدالت قتل بھی کیا جارہا ہے وہاں دوسری جانب اس کا ...Imageعوام کے سامنے خراب کرنے کے لیے ایم کیو ایم کی مخالفت میں میڈیا ٹرائل کی پریکٹس بھی بڑی شدت سے جاری ہے۔
اس ضمن میں سچ تو یہ ہے کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر ایم کیو ایم کے بینک اکاؤنٹ کو توڑنے، تحریک کا خاتمہ کرنے کے لیے قائد تحریک الطاف حسین کو راستے سے ہٹانے اور مہاجر عوام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کی تحریک کو دبانے کی تین دہائیوں سے جو محنت کی جارہی ہے ان منظم سازشوں میں مزید شدت آتی جارہی ہے ۔
جس کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت قائدِ تحریک الطاف حسین کی علالت کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں تو آئے دن میڈیا پر بیٹھا کرایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے افراد کے ذریعہ سے طرح طرح کی ٹیبل اسٹوریز عوام کے سامنے پیش کرکے تعصب کی انتہا کی جارہی ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے شاید بھول رہے ہیں کہ مذموم ہتھکنڈوں کے ذریعے چند ضمیر فروش افراد کو تو خریدا جاسکتا ہے لیکن ایم کیو ایم کے وجود اور اس کے قائد کی شخصیت اور کردار کو داغ دار کرنے میں نہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ ہی تحریک کے وجود کو مٹایا جاسکتا ہے۔
اگرجہ نئی سازشوں کے ذریعے، پرانے ہتھکنڈوں اور الزامات کو استعمال کروا کے مائنس ون کی پریکٹس ہنوز جارہی ہے تاہم اس بات میں قطعی دورائے نہیں ہونی چاہئے کہ ایم کیوا یم کی مخالف قوتوں کی جانب سے جتنا اس تحریک کو دبانے، مٹانے اور دیوار سے لگانے کی قابلِ مذمت کوشش جاری رکھی جائیں گی اتنا ہی غریب و متوسط طبقے میں اس کی جڑیں پھیلیں گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایم کیوا یم ملک کی وہ واحد غریب اور متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت ہے جو گزشتہ 32سال سے ملک کی سیاست میں پاور فل رول ادا کررہی ہے جو یقینا اس ملک کے دو فی صد مراعاتی یافتہ طبقے کی آنکھوں کو ایک آنکھ نہیں بہارہا۔
دنیا بھر کی سیاسی تاریخ اس امر پر گواہ نظر آتی ہے کہ دنیا میں اٹھنے والی نظریاتی تحریکیںخصوصاً ایک مخصونظر ہے، مقصد کازاور کسی اہم مشن کی تکمیل کے لیے وجود میں لائی جاتی رہی ہیں۔لہذا کسی بھی ٹھوس نظریئے اور فکر و فلسفے کے تحت اس ضمن میں ایک انقلابی لیڈر شپ ہی وہ عظیم صلاحیت تسلیم کی جاتی ہے جو اپنے پیش کردہ نظریئے یا فکر و فلسفے کی بنیاد پر اپنی سیاسی اور سماجی بصیرت کو شعور اور دانش وری اور تدبر کے ساتھ استعمال کرکے حالات کو بدلنے کا ہنر و حوصلہ رکھتی ہے اس حقیقت کے مطابق قوم کا اصل رہنما وہی سمجھا جاتا ہے جو قوم کی آنکھوں کو نامساعد حالات میں بھی نہ صرف تبدیلی کے خواب دیتا ہے بلکہ ان خوابوں کی حقیقی تعبیر یعنی ''انقلاب'' کے آغاز کو عوام کی آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کردیتا ہے۔
دنیا کے ایک ایسے ہی عظیم اور کرشماتی شخصیت کے حامل، دور اندیش، مستقبل بینی میں ماہر انقلابی رہنما جو پاکستانی قوم کو برسوں کے بعد میسر آئے ان کا نام الطاف حسین ہے جو حق کی کھلی کتاب ہیں اور جن کی شخصیت کے بارے میں برملا کہا جاتا ہے کہ وہ اس ملک کے وہ واحد رہنما ہیں جنہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی اپنی قوم کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور حق تلفیوں کو زیادتیوں کی شکل میں دیکھ کر اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ جامعہ کراچی میں ایک طلباء تنظیم اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی جس نے صرف چند سال بعد ہی 18مارچ 1994ء کو پاکستان کی ایک مضبوط و منظم، حق پر ست اور اہم سیاسی جماعت کو جنم دے کر غریب اور متوسط طبقے کی واحد نمائندہ جماعت کا اعزاز ایم کیو ایم کے نام کروایا۔
قائد تحریک الطاف حسین سے ازلی دشمنی اور تحریک کی مخالفت کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ایم کیو ایم ملک کی چوتھی اور سندھ کی دوسری بڑی اور طاقتور سیاسی جماعت بن کر ملک کے سیاسی نقشے پر ابھری۔ ایم کیو ایم در حقیقت ایک ایسی نظریاتی اور سماجی تحریک ثابت ہوئی جس کے قائد اور نظریئے کے خالق الطاف حسین اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ اس ملک کے 98فی صد عوام کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں برسوں کے بعد ایک ایساعظیم، مخلف اور قوم کا درد مند رہنما مسیسر آیا جس نے اپنی ذات کے لیے کوئی عہدہ، کوئی رتبہ اور اپنے اہل و عیال کے لیے کوئی مفاد حاصل کرنے کی کوئی خواہش اپنے دل میں نہیں رکھی۔
ایم کیو ایم کی سیاسی جدوجہد اس بات کی شاہد ہے کہ گزشتہ 32 سال کے طویل اور کٹھن تحریکی سفر میں بلاشبہ قائد تحریک الطاف حسین نے اس ملک کو ایسا غیر معمولی شعور فکر آگہی اور ایسا فلسفہء محبت دیا جس نے اس ملک کی سیاست کا نقشہ اور ایوانوں کی کایا پلٹ کررکھ دی۔ لہذا اس بات کی سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 18مارچ 1984ء کو ایم کیو ایم کا قیام ملک کی کتاب سیاست کا اہم سنگِ میل تھا جو قائد تحریک الطاف حسین کی غیر معمولی حد تک فعال، متحرک اور کرشماتی قیادت کے زیر سایہ وجود میں لائی گئی۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ایم کیو ایم کے قیام کے بعد ہی سے الطاف حسین اور ان کے تحریکی ساتھیوں و کارکنوں کے ساتھ نہ صرف سیاسی، سماجی اور معاشی زیادتیوں کا لامتناہی سلسلہ ''ریاستی جبر'' اور تعصب کی شکل میں شروع ہوا بلکہ اخلاقی طور پر بھی ان کے کردار کو مسخ کرنے کی بھرپور کوششوں کا آغاز کیا گیا جس کے تانے بانے آج بھی ''کمال'' کے ساتھ جاری ہیں۔
لیکن ستم کرنے والے اور قائد تحریک الطاف حسین کے خلاف شرمناک زہر اگلنے والے غالباً اس حقیقت کو ایکبار پھر فراموش کر بیٹھے ہیں کہ 18مارچ کو وجود میں آنے والی تحریک در اصل بانی و قائد تحریک الطاف حسین کی وہ عظیم فکر ہے جو اس ملک کے مجبور و محکوم عوام کے ذہنوں میں اتر کر شعور و آگہی اور حق و سچ کے وہ بند در کھولتی ہے جو اس ملک کے مظلوموں، محکموں اور استحصال زدہ طبقوں کو انقلاب کی راہ پر گامزن کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔32برسوں سے جاری حق کی یہ تحریک، اپنے قائد کی ولولہ انگیز قیادت میں منزل کی جانب ہمت و حوصلے سے رواں دواں قافلہ حق پرستی کی نئی تاریخ رقم کرنے جاری ہے۔
میرے قائد تو ہی خواب تو ہی تعبیر ہے
تو ہی منزل تو ہی ہماری تقدیر ہے
اہل خرد بھلا کہاں کریں تیری فکر کا احاطہ؟
لہو سے لکھی قائد تیری فکر تحریر ہے
اس ضمن میں سچ تو یہ ہے کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر ایم کیو ایم کے بینک اکاؤنٹ کو توڑنے، تحریک کا خاتمہ کرنے کے لیے قائد تحریک الطاف حسین کو راستے سے ہٹانے اور مہاجر عوام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کی تحریک کو دبانے کی تین دہائیوں سے جو محنت کی جارہی ہے ان منظم سازشوں میں مزید شدت آتی جارہی ہے ۔
جس کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت قائدِ تحریک الطاف حسین کی علالت کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں تو آئے دن میڈیا پر بیٹھا کرایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے افراد کے ذریعہ سے طرح طرح کی ٹیبل اسٹوریز عوام کے سامنے پیش کرکے تعصب کی انتہا کی جارہی ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے شاید بھول رہے ہیں کہ مذموم ہتھکنڈوں کے ذریعے چند ضمیر فروش افراد کو تو خریدا جاسکتا ہے لیکن ایم کیو ایم کے وجود اور اس کے قائد کی شخصیت اور کردار کو داغ دار کرنے میں نہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور نہ ہی تحریک کے وجود کو مٹایا جاسکتا ہے۔
اگرجہ نئی سازشوں کے ذریعے، پرانے ہتھکنڈوں اور الزامات کو استعمال کروا کے مائنس ون کی پریکٹس ہنوز جارہی ہے تاہم اس بات میں قطعی دورائے نہیں ہونی چاہئے کہ ایم کیوا یم کی مخالف قوتوں کی جانب سے جتنا اس تحریک کو دبانے، مٹانے اور دیوار سے لگانے کی قابلِ مذمت کوشش جاری رکھی جائیں گی اتنا ہی غریب و متوسط طبقے میں اس کی جڑیں پھیلیں گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ایم کیوا یم ملک کی وہ واحد غریب اور متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت ہے جو گزشتہ 32سال سے ملک کی سیاست میں پاور فل رول ادا کررہی ہے جو یقینا اس ملک کے دو فی صد مراعاتی یافتہ طبقے کی آنکھوں کو ایک آنکھ نہیں بہارہا۔
دنیا بھر کی سیاسی تاریخ اس امر پر گواہ نظر آتی ہے کہ دنیا میں اٹھنے والی نظریاتی تحریکیںخصوصاً ایک مخصونظر ہے، مقصد کازاور کسی اہم مشن کی تکمیل کے لیے وجود میں لائی جاتی رہی ہیں۔لہذا کسی بھی ٹھوس نظریئے اور فکر و فلسفے کے تحت اس ضمن میں ایک انقلابی لیڈر شپ ہی وہ عظیم صلاحیت تسلیم کی جاتی ہے جو اپنے پیش کردہ نظریئے یا فکر و فلسفے کی بنیاد پر اپنی سیاسی اور سماجی بصیرت کو شعور اور دانش وری اور تدبر کے ساتھ استعمال کرکے حالات کو بدلنے کا ہنر و حوصلہ رکھتی ہے اس حقیقت کے مطابق قوم کا اصل رہنما وہی سمجھا جاتا ہے جو قوم کی آنکھوں کو نامساعد حالات میں بھی نہ صرف تبدیلی کے خواب دیتا ہے بلکہ ان خوابوں کی حقیقی تعبیر یعنی ''انقلاب'' کے آغاز کو عوام کی آنکھوں کے سامنے لاکھڑا کردیتا ہے۔
دنیا کے ایک ایسے ہی عظیم اور کرشماتی شخصیت کے حامل، دور اندیش، مستقبل بینی میں ماہر انقلابی رہنما جو پاکستانی قوم کو برسوں کے بعد میسر آئے ان کا نام الطاف حسین ہے جو حق کی کھلی کتاب ہیں اور جن کی شخصیت کے بارے میں برملا کہا جاتا ہے کہ وہ اس ملک کے وہ واحد رہنما ہیں جنہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی اپنی قوم کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور حق تلفیوں کو زیادتیوں کی شکل میں دیکھ کر اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ جامعہ کراچی میں ایک طلباء تنظیم اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی جس نے صرف چند سال بعد ہی 18مارچ 1994ء کو پاکستان کی ایک مضبوط و منظم، حق پر ست اور اہم سیاسی جماعت کو جنم دے کر غریب اور متوسط طبقے کی واحد نمائندہ جماعت کا اعزاز ایم کیو ایم کے نام کروایا۔
قائد تحریک الطاف حسین سے ازلی دشمنی اور تحریک کی مخالفت کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ایم کیو ایم ملک کی چوتھی اور سندھ کی دوسری بڑی اور طاقتور سیاسی جماعت بن کر ملک کے سیاسی نقشے پر ابھری۔ ایم کیو ایم در حقیقت ایک ایسی نظریاتی اور سماجی تحریک ثابت ہوئی جس کے قائد اور نظریئے کے خالق الطاف حسین اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ اس ملک کے 98فی صد عوام کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں برسوں کے بعد ایک ایساعظیم، مخلف اور قوم کا درد مند رہنما مسیسر آیا جس نے اپنی ذات کے لیے کوئی عہدہ، کوئی رتبہ اور اپنے اہل و عیال کے لیے کوئی مفاد حاصل کرنے کی کوئی خواہش اپنے دل میں نہیں رکھی۔
ایم کیو ایم کی سیاسی جدوجہد اس بات کی شاہد ہے کہ گزشتہ 32 سال کے طویل اور کٹھن تحریکی سفر میں بلاشبہ قائد تحریک الطاف حسین نے اس ملک کو ایسا غیر معمولی شعور فکر آگہی اور ایسا فلسفہء محبت دیا جس نے اس ملک کی سیاست کا نقشہ اور ایوانوں کی کایا پلٹ کررکھ دی۔ لہذا اس بات کی سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 18مارچ 1984ء کو ایم کیو ایم کا قیام ملک کی کتاب سیاست کا اہم سنگِ میل تھا جو قائد تحریک الطاف حسین کی غیر معمولی حد تک فعال، متحرک اور کرشماتی قیادت کے زیر سایہ وجود میں لائی گئی۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ایم کیو ایم کے قیام کے بعد ہی سے الطاف حسین اور ان کے تحریکی ساتھیوں و کارکنوں کے ساتھ نہ صرف سیاسی، سماجی اور معاشی زیادتیوں کا لامتناہی سلسلہ ''ریاستی جبر'' اور تعصب کی شکل میں شروع ہوا بلکہ اخلاقی طور پر بھی ان کے کردار کو مسخ کرنے کی بھرپور کوششوں کا آغاز کیا گیا جس کے تانے بانے آج بھی ''کمال'' کے ساتھ جاری ہیں۔
لیکن ستم کرنے والے اور قائد تحریک الطاف حسین کے خلاف شرمناک زہر اگلنے والے غالباً اس حقیقت کو ایکبار پھر فراموش کر بیٹھے ہیں کہ 18مارچ کو وجود میں آنے والی تحریک در اصل بانی و قائد تحریک الطاف حسین کی وہ عظیم فکر ہے جو اس ملک کے مجبور و محکوم عوام کے ذہنوں میں اتر کر شعور و آگہی اور حق و سچ کے وہ بند در کھولتی ہے جو اس ملک کے مظلوموں، محکموں اور استحصال زدہ طبقوں کو انقلاب کی راہ پر گامزن کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔32برسوں سے جاری حق کی یہ تحریک، اپنے قائد کی ولولہ انگیز قیادت میں منزل کی جانب ہمت و حوصلے سے رواں دواں قافلہ حق پرستی کی نئی تاریخ رقم کرنے جاری ہے۔
میرے قائد تو ہی خواب تو ہی تعبیر ہے
تو ہی منزل تو ہی ہماری تقدیر ہے
اہل خرد بھلا کہاں کریں تیری فکر کا احاطہ؟
لہو سے لکھی قائد تیری فکر تحریر ہے