18 مارچ ایم کیو ایم کا یوم تاسیس

اﷲ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں بھیجا اور علم کے ذریعے تمام مخلوقات پر فوقیت دی،


Saiqa Naz March 17, 2016

لاہور: (ایم کیو ایم کے 32 ویں یوم تاسیس کے حوالے سے خصوصی مضمون)

اﷲ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر دنیا میں بھیجا اور علم کے ذریعے تمام مخلوقات پر فوقیت دی، عقلِ و شعور جیسی نعمت سے نوازا، اسے من و سلویٰ عنایت کیا، لیکن عقلِ سلیم کو انسان نے خیانت کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا تو رب العزت نے اسے اس نعمت سے محروم کر دیا۔ لیکن حضرت انسان نے پھر بھی عقل نہ پکڑی اور اپنا وتیرہ بنا لیا کہ نعمتیں دینے والے کے ساتھ ہی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے تو جس انسان نے خلق کرنے والی ذات کے ساتھ وفا نہیں کی وہ دنیا میں اس کے نیک بندوں کے ساتھ کیا وفا کرے گا۔ ہوس و لالچ نے انسان کے اندر سے کھرے کھوٹے کی پہچان ختم کر دی۔

احسان فراموشی کی دلدل میں پھنسے لوگ نہ دین کے رہے نہ دنیا کے، آج بھی دنیا ایسے ہی بے ضمیر اور کم ظرف لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ جنہوں نے جس تھالی میں کھایا اس تھالی میں چھید کیا۔ آج دنیا نے ترقی کے نام پر بہت کچھ حاصل کر لیا، لیکن افسوس کہ اپنی اخلاقی اقدار، مذہب، طرزِ زندگی، اعلیٰ کردار، زبان کی شیرنی، علم نافع کا حصول سب کچھ دولت اور اقتدار کی ہوس میں فراموش کر دیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں شر کے خلاف ہمیشہ حق و سچائی نے جنم لیا۔

آج کے دن بھی حق و صداقت کی صدا پاکستان کے طول و عرض میں گونجی تھی، 18 مارچ کو ایک ایسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی جو انسانیت کی فلاح و خدمت کا مشن لے کر اٹھی، اس نے اپنی بنیاد سے پہلے ہی انسانیت کے خدمت کے مشن کا آغاز کر دیا تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم کی ہمشیرہ مادر ملت فاطمہ جناح پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ گزرتے دنوں کے ساتھ ہجرت کر کے آنے والے اردو بولنے والوں کے خلاف پروپیگنڈہ تیز سے تیز تر کر دیا اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی گیا۔

ایسے میں طلبا پلیٹ فارم سے جنم لینے والی ایک تنظیم اے پی ایم ایس او نے ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیار کی اور 18 مارچ 1984ء کو ایم کیو ایم کے نام سے اس تحریک نے سیاست کے میدان میں جذبہ خدمت کے ساتھ قدم رکھا اور پاکستان کی فضا میں سیاست کے آسمان پر ایک ایسا پرچم لہرایا جس نے پاکستان کے متوسط اور غریب عوام کی تقدیر بدل دی۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کی ابتدا سے ہی اسے کچلنے کے لیے اس کے خلاف تمام تر ریاستی مشینری کا استعمال کیا گیا۔

الطاف حسین کے فکر و فلسفے نے ملک کے مظلوم اور محکوم عوام کی سوچ کو بدلا، یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، جسے حکمران اور اسٹیبلشمنٹ آرام سے برداشت کر لیتے۔ الطاف حسین کے فکر و فلسفے نے ان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ کیوں کہ اب شعور آگہی کے در کھلنے لگے تھے، جس کی بدولت ایک انقلابی سوچ نے جنم لینا شروع کر دیا تھا اور یہی الطاف حسین کا جرم ثابت ہوا۔ ایم کیوایم کے قیام کے بعد 31 اکتوبر 1986ء کو حیدرآباد سے واپسی پر انھیں گرفتار کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے مقبولیت سے خوف زدہ حکمرانوں نے قائد و کارکنان پر زندگی کو مشکل کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ لیکن آفریں ہے حق پرستوں پر جنھوں نے ایم کیو ایم کے قیام سے آج تک ہونے والے تمام انتخابات میں ہر منفی پروپیگنڈے کے باوجود ایم کیو ایم کی قیادت پر اندھے اعتماد کا اظہار کیا اور ثابت کر دیا کہ وہ وفا کرنے والوں کو دغا نہیں دیتے۔

الطاف حسین کا تحریک سفر نہ ایک دن کا ہے، نہ جدوجہد کا سفر سہل رہا۔ مصائب اور آزمائشوں کا اور الطاف حسین اور ایم کیو ایم ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا۔ اس پرآزمائش اور کٹھن اور پرخار راستے کا انتخاب قائد تحریک نے قوم کے روشن مستقبل کے لیے کیا۔ ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک جب کوئی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے اس کا الزام اردو بولنے والوں پر لگایا جاتا ہے، ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔

قائد تحریک نے بانیانِ پاکستان کی اولاد کو اس تذلیل سے نکالا، ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی، جس کے ساتھ ہی غریب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ جوق در جوق اس میں شامل ہوتے گئے۔ لیکن جیسے جیسے ایم کیو ایم کو پذیرائی ملی اس کے لیے جتنے کامیابی کے در کھلے، مصائب اور مشکلات کا بھی اتنا ہی سامنا کرنا پڑا۔

تحریک کی جدوجہد میں وہ وقت بھی آیا جب قائد تحریک پر قاتلانہ حملے ہوئے اور جاں نثارانِ الطاف حسین نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے محبوب قائد کو ملک سے باہر جانے کا مشورہ دیا۔ آج طویل جلاوطنی کے باوجود قائد تحریک عوام کے دلوں میں بستے ہیں، کیوں کہ وہ مسلسل خدمت خلق کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ کارکنان سے دیوانہ وار محبت نے کارکنان کو بھی ان کا اسیر بنایا ہوا ہے۔

یہ قائد تحریک کی دی ہوئی تربیت ہی ہے کہ آج بھی کارکنان کا نظم و ضبط، ایثار، قربانی، محبت، اخوت مثالی ہے۔ مسلسل حالات کی مشکلات حالات کی سنگینی، الزامات کی بوچھاڑ، مقدمات کا سامنا نہ الطاف حسین کو کمزور کر سکا ہے اور نہ ہی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی مقبولیت کو کم کر سکا۔ 1992ء کے بدترین آپریشن کے بعد سمجھا گیا کہ الطاف حسین کا باب ختم ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ''مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں'' الطاف حسین کی سیاسی بصیرت کو ان کی آرگنائزیشن کو ان کی فہم و تدبیر کو سراہا۔ الطاف حسین وہ لیڈر ہیں جنھیں نہ صدارت کی ہوس ہے نہ وزارتِ عظمیٰ، نہ وہ وزیراعلیٰ، سینیٹر و منسٹر بننے کے خواہش مند ہیں، پھر بھی ان کی بے لوث خدمات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

وہ انسان جس نے اپنی زندگی قوم کی بقا و سلامتی کے لیے وقف کر دی آج پھر کڑے امتحان سے گزر رہا ہے۔ یہ الطاف حسین ہی ہیں جنھوں نے کراچی میں ہر فکر و سوچ رکھنے والے، ہر رنگ و نسل، فرقے اور زبان کے لوگوں کو باہم یکجا کیا، انھیں ایک جھنڈے تلے جمع کیا، جس کی سزا انھیں اور ان کے ساتھیوں کو غدارِ وطن کہہ کر دی جا رہی ہے۔ گزشتہ ڈیرھ سال میں بالخصوص ایم کیو ایم کے رہنماؤں سمیت ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے اکثریت پر کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا۔ آج ایم کیو ایم اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے ہر کڑے امتحان سے گزر رہی ہے لیکن وقت سب سے بڑا منصف ہے ۔

آج ایم کیو ایم کے یومِ تاسیس کے موقع پر ہر ذمے دار، کارکن اپنے قائد سے تجدید عہدِ وفا کرتا ہے اور آخری سانس تک قائد پر جان قربان کرنے کا عزم ہمارے دلوں میں جواں ہے۔ آج ہم سب کو ایک قوم بن کر سوچنا ہو گا کہ یہ پاکستان اس لیے حاصل نہیں کیا گیا تھا کہ مہاجر جو اس کی بنیاد ہیں وہ اس ملک میں بے یارو مددگار ہو جائیں اور اغیار ہمیں کچل دیں، محرومیوں کو اتنا نہ بڑھنے دیں کہ مزید کوئی سانحہ رونما ہو۔ ہم محب وطن ہیں، ہمارا قائد محب وطن ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے میں ہی ملک اور قوم کی فلاح اور بقا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔