کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
آج کل سیاسی سطح پر یوں تو ملک بھر میں مگر بالخصوص سندھ (کراچی) میں ذرایع ابلاغ کے لیے وافر مواد کا اہتمام کیا گیا ہے
لاہور:
آج کل سیاسی سطح پر یوں تو ملک بھر میں مگر بالخصوص سندھ (کراچی) میں ذرایع ابلاغ کے لیے وافر مواد کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم جو نچلی سطح کے استحصالی طبقے کی محرومیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی تھی اول اول صرف جامعہ کراچی میں اردو بولنے والے طلبا کے ساتھ دیگر طلبا تنظیموں کی جارحیت اور کسی حد تک انتظامیہ کی عاقبت نااندیشی کے باعث بطور طلبا تنظیم وجود میں آئی (واضح ہو کہ تمام لسانی، مذہبی، ترقی پسند اور لبرل طلبا تنظیموں تعلیمی اداروں میں پہلے ہی سے فعال تھیں) رفتہ رفتہ اسی طلبا تنظیم کے بطن سے ملکی سیاست میں ایک فعال سیاسی جماعت وجود میں آ گئی۔
ہجرت کر کے آنے والے اس کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے لگے۔ یہ جماعت اردو بولنے والوں کو نظرانداز کرنے اور ان کا استحصال کرنے والے سے نبرد آزمائی کے لیے بے حد پرجوش تھی۔ اس پر لسانی جماعت کا لیبل لگا تو اس کو مہاجر قومی موومنٹ کے بجائے متحدہ قومی موومنٹ میں ڈھال دیا گیا اور نعرہ یہ دیا گیا کہ اب یہ جماعت ملک بھر میں تمام محروم، استحصالی اور مظلوم عوام کی بلاتفریق صوبائی، لسانی و مذہبی نمایندگی کر کے ان کو جائز حقوق دلانے کی جدوجہد کرے گی۔
اس جماعت کو بنانے، منوانے اور آگے بڑھانے کے لیے اس کے بانیوں نے بڑی جانفشانی سے کام لیا، بطور طلبا تنظیم بھی اس کو کافی مزاحمت کا سامنا رہا، مگر یہ بات روز اول سے اس کی نمایاں خصوصیات میں شامل رہی کہ اس میں پڑھے لکھے، روشن خیال، باعمل، پرجوش اور فعال طلبا شریک رہے۔ جب اس طلبا تنظیم نے قومی سیاسی پارٹی کا روپ اختیار کیا، اس کا منشور، اس کے ارادے منظر عام پر آئے تو اسی دن سے ملک کا وڈیرہ، جاگیردار، اعلیٰ مراعات یافتہ طبقہ، حکمراں اور بیورو کریسی ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گئے، کیونکہ ملکی سیاست میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی شرکت کا کوئی تصور نہ تھا۔
ایوان اقتدار ہمیشہ مراعات یافتہ (وڈیروں، جاگیرداروں کے حمایتی) طبقے کے لیے مخصوص تھا جب کہ آئین و قانون ان کے گھر کی باندی تھی۔ عوام کے مسائل کیا ہیں؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں؟ ان کی کیا حیثیت ہے اس سے صاحبان اقتدار کو کوئی مطلب واسطہ نہ تھا، عوام ان کے لیے کیڑے مکوڑے سے زیادہ وقعت نہ رکھتے تھے، مگر جمہوریت کے نام پر جب ان ہی عوام کے ووٹوں کی ضرورت پڑتی تو یہ اکڑی گردن اور اونچے شملے ان سے رابطہ کرتے، وہ بھی صرف شہری علاقوں میں، دیہی عوام تو تھے ہی ان کے پروردہ۔
ایم کیو ایم کے خلاف بالکل آغاز ہی سے پورے ملک، خصوصاً پنجاب میں بھرپور مہم چلائی گئی اور اس کا امیج اس قدر بگاڑا گیا کہ وہاں ایم کیو ایم کا نام سن کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے، بلا کسی مشاہدے اور ذاتی تجربے کے جو کچھ سمجھ میں آتا یا سنا ہوتا اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے۔ یہ پارٹی اپنے قیام سے لے کر اب تک تقریباً تین بھرپور آپریشن اپنے خلاف جھیل چکی ہے اور کوئی منفی تاثر ایسا نہیں جو اس سے منسوب نہ کیا گیا ہو۔
شروع میں کراچی میں بھی اردو بولنے والے سب اس کے حامی نہ تھے بلکہ اکثریت پیپلزپارٹی سے بڑے جذباتی انداز سے وابستہ تھی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں میں بھی اردو بولنے والے موجود تھے، اول الذکر دو پارٹیوں میں اعلیٰ طبقے اور جاگیرداروں کی پذیرائی دیکھ کر (جہاں کروڑوں میں پارٹی ٹکٹ ملتے تھے) خاص کر متکبرانہ رویے نے ان کو رفتہ رفتہ پارٹی سے دور کر دیا، ان میں کچھ نے ایم کیو ایم کا رخ کیا مگر اکثریت خاموشی سے گوشہ نشین ہو گئی۔ بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے جنرل ضیا الحق سیاسی افق پر طلوع ہوئے پھر ان کے بعد چراغ جمہوریت عرصے تک روشن نہ ہو سکا۔
جمہوریت پر آمروں کا یہ پہلا شب خوں نہ تھا بلکہ اس سے قبل ایوب خان بھی جمہوریت کو پاؤں تلے کچل چکے تھے، جب اقتدار یحییٰ خان کی جھولی میں آ گرا تو انھوں نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک خداداد کو دو لخت کر دیا بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام آمرانہ ادوار میں سیاستدانوں پر غداری، بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات کے علاوہ ان کی کردار کشی بڑے پیمانے پر کی گئی۔ کچھ سیاستدانوں نے خود بھی ثابت کی۔ عوام میں سیاستدانوں کا چہرہ مسخ کر کے دکھایا گیا۔اس کے علاوہ عوامی اہمیت، عوامی کردار اور فیصلوں کو پس پشت ڈال کر ان میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت احساس محرومی اور ناامیدی کے بیج بوئے گئے جو آج تناور درخت بن چکے ہیں۔
اس صورتحال میں عوامی خواہشات، اکثریتی صوبے کی امنگوں کو ہمارے طالع آزماؤں نے غداری و بغاوت کا رنگ دیا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق انھوں نے خود کو ملک سے الگ کرنے میں ہی عافیت جانی۔ جو کردار مغربی پاکستان نے سابق مشرقی پاکستانیوں کے خلاف ادا کیا (جب کہ تحریک آزادی میں ان کا حصہ مغربی پاکستان کے تمام صوبوں سے کہیں زیادہ تھا) وہ رویہ جو بنگالیوں سے روا رکھا گیا وہی کم و بیش ایم کیو ایم کے ساتھ بھی جاری رہا، جن طبقات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے انھوں نے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔
اس تناظر میں جب ہمارے طالع آزماؤں نے ایم کیو ایم کو تشکیل وطن، تحریک آزادی کے لیے اپنی قربانیوں، اپنی علمی و تہذیبی اقدار پر نازاں دیکھا تو ہر محاذ پر ان کے استحصال کے منصوبے بنائے گئے (دارالحکومت کی منتقلی وغیرہ) اور وہ وہ کیڑے ان میں ڈالے گئے جو کسی ذی روح میں بھی نہ ہوتے ہوں گے۔ یہی نہیں اگر صرف ان کی کردار کشی پر ہی اکتفا کیا جاتا تو عوام اپنے فیصلے میں حق بجانب ہوتے کہ وہ ان بدکرداروں کا ساتھ دیں یا نہ دیں۔ مگر اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ طاقت کے ذریعے بار بار انھیں کچلنے کی کوشش کی گئی جو خدمت خلق اور مظلوموں کو جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارا دلانے کا عزم رکھتے تھے۔
مگر ہر بار یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی کیونکہ ''ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے'' ایم کیو ایم پر جو الزامات ہر دور میں لگائے گئے وہ آج تک کسی عدالت میں ثابت نہ ہوسکے۔ جب تمام تر کوششوں کے بعد بھی ایم کیو ایم کو ختم نہ کیا جاسکا تو دوسرے حربے آزمائے گئے۔ جنرل آصف نواز نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب مسلم لیگ دھڑوں میں بٹ سکتی ہے تو ایم کیو ایم کیوں نہیں؟ پھر انھوں نے اپنی مساعی جمیلہ سے ایم کیو ایم کو دو دھڑوں میں (حقیقی اور حق پرست) میں تقسیم کرنے کا کار ثواب بھی انجام دیا۔
مگر آج تک حقیقی وہ اعتبار حاصل نہ کرسکی جو حق پرست کو حاصل ہے۔ اس کا اظہار عوام نے بار بار انتخابات میں حق پرست کے امیدواروں کو کامیاب کرکے دیا ہے۔ اس حقیقت کی موجودگی میں اب پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے ان تمام سابقہ ارکان کو جن پر ملکی یا پارٹی کی سطح پر کوئی نہ کوئی الزام عائد ہے۔ نہلا دھلا کر عوام کے سامنے بطور معتبر شخصیات پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی پاک و پاکیزہ زبان سے وہی الزام ان کی سابقہ پارٹی پر لگوائے جا رہے ہیں جو اس سے پہلے کئی بار لگ چکے ہیں پر ثابت نہ ہو سکے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ پارٹی فرشتوں کی ہے اور اس میں کوئی بھی خامی ہو ہی نہیں سکتی۔ دراصل بات یہ ہے کہ تمام سیاسی ہی نہیں مذہبی جماعتیں بھی اولاد آدم پر ہی مشتمل ہیں، لہٰذا غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، بلکہ ایم کیو ایم پر سب سے بڑے الزام ''را سے تعلقات'' ہی پر غور کیجیے اور ذرا ماضی میں جھانک کر دیکھیے کہ یہ الزام کس کس پر کب کب عائد ہو چکا ہے۔ بھارت کے لیے جاسوسی اور مخبری کے الزامات تو بڑی اعلیٰ شخصیات تک پر لگائے جا چکے ہیں مگر کیا ایسی ہاہاکار کسی اور کے بارے میں مچی، جیسی اب مچ رہی ہے؟ الزام واقعی بہت سنگین ہے اس کو عدالت میں ثابت کرنا چاہیے اور ملزم کو قرار واقعی سزا بھی دی جانی چاہیے۔
آج کل سیاسی سطح پر یوں تو ملک بھر میں مگر بالخصوص سندھ (کراچی) میں ذرایع ابلاغ کے لیے وافر مواد کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم جو نچلی سطح کے استحصالی طبقے کی محرومیوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی تھی اول اول صرف جامعہ کراچی میں اردو بولنے والے طلبا کے ساتھ دیگر طلبا تنظیموں کی جارحیت اور کسی حد تک انتظامیہ کی عاقبت نااندیشی کے باعث بطور طلبا تنظیم وجود میں آئی (واضح ہو کہ تمام لسانی، مذہبی، ترقی پسند اور لبرل طلبا تنظیموں تعلیمی اداروں میں پہلے ہی سے فعال تھیں) رفتہ رفتہ اسی طلبا تنظیم کے بطن سے ملکی سیاست میں ایک فعال سیاسی جماعت وجود میں آ گئی۔
ہجرت کر کے آنے والے اس کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے لگے۔ یہ جماعت اردو بولنے والوں کو نظرانداز کرنے اور ان کا استحصال کرنے والے سے نبرد آزمائی کے لیے بے حد پرجوش تھی۔ اس پر لسانی جماعت کا لیبل لگا تو اس کو مہاجر قومی موومنٹ کے بجائے متحدہ قومی موومنٹ میں ڈھال دیا گیا اور نعرہ یہ دیا گیا کہ اب یہ جماعت ملک بھر میں تمام محروم، استحصالی اور مظلوم عوام کی بلاتفریق صوبائی، لسانی و مذہبی نمایندگی کر کے ان کو جائز حقوق دلانے کی جدوجہد کرے گی۔
اس جماعت کو بنانے، منوانے اور آگے بڑھانے کے لیے اس کے بانیوں نے بڑی جانفشانی سے کام لیا، بطور طلبا تنظیم بھی اس کو کافی مزاحمت کا سامنا رہا، مگر یہ بات روز اول سے اس کی نمایاں خصوصیات میں شامل رہی کہ اس میں پڑھے لکھے، روشن خیال، باعمل، پرجوش اور فعال طلبا شریک رہے۔ جب اس طلبا تنظیم نے قومی سیاسی پارٹی کا روپ اختیار کیا، اس کا منشور، اس کے ارادے منظر عام پر آئے تو اسی دن سے ملک کا وڈیرہ، جاگیردار، اعلیٰ مراعات یافتہ طبقہ، حکمراں اور بیورو کریسی ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گئے، کیونکہ ملکی سیاست میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی شرکت کا کوئی تصور نہ تھا۔
ایوان اقتدار ہمیشہ مراعات یافتہ (وڈیروں، جاگیرداروں کے حمایتی) طبقے کے لیے مخصوص تھا جب کہ آئین و قانون ان کے گھر کی باندی تھی۔ عوام کے مسائل کیا ہیں؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ان کی بنیادی ضروریات کیا ہیں؟ ان کی کیا حیثیت ہے اس سے صاحبان اقتدار کو کوئی مطلب واسطہ نہ تھا، عوام ان کے لیے کیڑے مکوڑے سے زیادہ وقعت نہ رکھتے تھے، مگر جمہوریت کے نام پر جب ان ہی عوام کے ووٹوں کی ضرورت پڑتی تو یہ اکڑی گردن اور اونچے شملے ان سے رابطہ کرتے، وہ بھی صرف شہری علاقوں میں، دیہی عوام تو تھے ہی ان کے پروردہ۔
ایم کیو ایم کے خلاف بالکل آغاز ہی سے پورے ملک، خصوصاً پنجاب میں بھرپور مہم چلائی گئی اور اس کا امیج اس قدر بگاڑا گیا کہ وہاں ایم کیو ایم کا نام سن کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے، بلا کسی مشاہدے اور ذاتی تجربے کے جو کچھ سمجھ میں آتا یا سنا ہوتا اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے۔ یہ پارٹی اپنے قیام سے لے کر اب تک تقریباً تین بھرپور آپریشن اپنے خلاف جھیل چکی ہے اور کوئی منفی تاثر ایسا نہیں جو اس سے منسوب نہ کیا گیا ہو۔
شروع میں کراچی میں بھی اردو بولنے والے سب اس کے حامی نہ تھے بلکہ اکثریت پیپلزپارٹی سے بڑے جذباتی انداز سے وابستہ تھی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں میں بھی اردو بولنے والے موجود تھے، اول الذکر دو پارٹیوں میں اعلیٰ طبقے اور جاگیرداروں کی پذیرائی دیکھ کر (جہاں کروڑوں میں پارٹی ٹکٹ ملتے تھے) خاص کر متکبرانہ رویے نے ان کو رفتہ رفتہ پارٹی سے دور کر دیا، ان میں کچھ نے ایم کیو ایم کا رخ کیا مگر اکثریت خاموشی سے گوشہ نشین ہو گئی۔ بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے جنرل ضیا الحق سیاسی افق پر طلوع ہوئے پھر ان کے بعد چراغ جمہوریت عرصے تک روشن نہ ہو سکا۔
جمہوریت پر آمروں کا یہ پہلا شب خوں نہ تھا بلکہ اس سے قبل ایوب خان بھی جمہوریت کو پاؤں تلے کچل چکے تھے، جب اقتدار یحییٰ خان کی جھولی میں آ گرا تو انھوں نے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک خداداد کو دو لخت کر دیا بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام آمرانہ ادوار میں سیاستدانوں پر غداری، بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات کے علاوہ ان کی کردار کشی بڑے پیمانے پر کی گئی۔ کچھ سیاستدانوں نے خود بھی ثابت کی۔ عوام میں سیاستدانوں کا چہرہ مسخ کر کے دکھایا گیا۔اس کے علاوہ عوامی اہمیت، عوامی کردار اور فیصلوں کو پس پشت ڈال کر ان میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت احساس محرومی اور ناامیدی کے بیج بوئے گئے جو آج تناور درخت بن چکے ہیں۔
اس صورتحال میں عوامی خواہشات، اکثریتی صوبے کی امنگوں کو ہمارے طالع آزماؤں نے غداری و بغاوت کا رنگ دیا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق انھوں نے خود کو ملک سے الگ کرنے میں ہی عافیت جانی۔ جو کردار مغربی پاکستان نے سابق مشرقی پاکستانیوں کے خلاف ادا کیا (جب کہ تحریک آزادی میں ان کا حصہ مغربی پاکستان کے تمام صوبوں سے کہیں زیادہ تھا) وہ رویہ جو بنگالیوں سے روا رکھا گیا وہی کم و بیش ایم کیو ایم کے ساتھ بھی جاری رہا، جن طبقات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے انھوں نے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔
اس تناظر میں جب ہمارے طالع آزماؤں نے ایم کیو ایم کو تشکیل وطن، تحریک آزادی کے لیے اپنی قربانیوں، اپنی علمی و تہذیبی اقدار پر نازاں دیکھا تو ہر محاذ پر ان کے استحصال کے منصوبے بنائے گئے (دارالحکومت کی منتقلی وغیرہ) اور وہ وہ کیڑے ان میں ڈالے گئے جو کسی ذی روح میں بھی نہ ہوتے ہوں گے۔ یہی نہیں اگر صرف ان کی کردار کشی پر ہی اکتفا کیا جاتا تو عوام اپنے فیصلے میں حق بجانب ہوتے کہ وہ ان بدکرداروں کا ساتھ دیں یا نہ دیں۔ مگر اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ طاقت کے ذریعے بار بار انھیں کچلنے کی کوشش کی گئی جو خدمت خلق اور مظلوموں کو جاگیردارانہ نظام سے چھٹکارا دلانے کا عزم رکھتے تھے۔
مگر ہر بار یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی کیونکہ ''ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے'' ایم کیو ایم پر جو الزامات ہر دور میں لگائے گئے وہ آج تک کسی عدالت میں ثابت نہ ہوسکے۔ جب تمام تر کوششوں کے بعد بھی ایم کیو ایم کو ختم نہ کیا جاسکا تو دوسرے حربے آزمائے گئے۔ جنرل آصف نواز نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب مسلم لیگ دھڑوں میں بٹ سکتی ہے تو ایم کیو ایم کیوں نہیں؟ پھر انھوں نے اپنی مساعی جمیلہ سے ایم کیو ایم کو دو دھڑوں میں (حقیقی اور حق پرست) میں تقسیم کرنے کا کار ثواب بھی انجام دیا۔
مگر آج تک حقیقی وہ اعتبار حاصل نہ کرسکی جو حق پرست کو حاصل ہے۔ اس کا اظہار عوام نے بار بار انتخابات میں حق پرست کے امیدواروں کو کامیاب کرکے دیا ہے۔ اس حقیقت کی موجودگی میں اب پھر وہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کے ان تمام سابقہ ارکان کو جن پر ملکی یا پارٹی کی سطح پر کوئی نہ کوئی الزام عائد ہے۔ نہلا دھلا کر عوام کے سامنے بطور معتبر شخصیات پیش کیا جا رہا ہے اور ان کی پاک و پاکیزہ زبان سے وہی الزام ان کی سابقہ پارٹی پر لگوائے جا رہے ہیں جو اس سے پہلے کئی بار لگ چکے ہیں پر ثابت نہ ہو سکے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ پارٹی فرشتوں کی ہے اور اس میں کوئی بھی خامی ہو ہی نہیں سکتی۔ دراصل بات یہ ہے کہ تمام سیاسی ہی نہیں مذہبی جماعتیں بھی اولاد آدم پر ہی مشتمل ہیں، لہٰذا غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، بلکہ ایم کیو ایم پر سب سے بڑے الزام ''را سے تعلقات'' ہی پر غور کیجیے اور ذرا ماضی میں جھانک کر دیکھیے کہ یہ الزام کس کس پر کب کب عائد ہو چکا ہے۔ بھارت کے لیے جاسوسی اور مخبری کے الزامات تو بڑی اعلیٰ شخصیات تک پر لگائے جا چکے ہیں مگر کیا ایسی ہاہاکار کسی اور کے بارے میں مچی، جیسی اب مچ رہی ہے؟ الزام واقعی بہت سنگین ہے اس کو عدالت میں ثابت کرنا چاہیے اور ملزم کو قرار واقعی سزا بھی دی جانی چاہیے۔