تحفظ نسواں بل
عورتوں پر تشدد سے تحفظ کے لیے پنجاب حکومت کا قانون ایک خوش آیند اقدام ہے۔
عورتوں پر تشدد سے تحفظ کے لیے پنجاب حکومت کا قانون ایک خوش آیند اقدام ہے۔ یہ بل پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔ اس بل کی اکتیس شقیں ہیں۔ اس میں شکایتیں درج کرانے کا ایک نظام بنایا گیا ہے اور تشدد کرنیوالوں کے لیے سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اس قانون کے تحت فیملی کورٹ کو شکایت موصول ہونے کے سات دن کے اندر سماعت کی تاریخ مقرر کرنا ہوگی اور نوے دن کے اندر مقدمے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
اس قانون کے تحت تشدد سے مراد انسانی جسم کے حوالے سے کسی بھی قسم کی مجرمانہ حرکت کرنا ہے، اس حرکت میں معاونت کرنا، گھریلو تشدد، جنسی تشدد، نفسیاتی زیادتی، تعاقب کرنا اور سائبر کرائم بھی اس میں شامل ہے۔ اقتصادی زیادتی سے مراد گھریلو رشتوں میں عورت کو کھانے پینے، کپڑے لتے اور چھت سے محروم کرنا ہے۔ نفسیاتی زیادتی میں نفسیاتی بگاڑ بھی شامل ہے، جس کا نتیجہ کھانا پینا چھوٹ جانا، خودکشی کی کوشش اور انتہائی ڈپریشن کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ ایسا مدعا علیہ کے جابرانہ رویہ کی بنا پر ہوتا ہے۔
پنجاب حکومت متاثرہ افراد کے لیے ایک فری ہاٹ لائن قائم کرے گی، مرحلہ وار مراکز برائے تحفظ اور شیلٹر ہومز بنائے گی۔ فریقین کے درمیان ثالثی اور مصالحت کے لیے ضروری عملہ کا تقرر کرے گی۔ طبی اور نفسیاتی علاج اور قانونی مدد فراہم کرے گی اور متاثرہ افراد کے خلاف ہونیوالے جرائم کی تحقیقات کرائے گی۔ حکومت وسیع پیمانے پر اردو اور ضروری ہوا تو مقامی زبانوں میں اس کی تشہیر کرائے گی۔
سرکاری عہدے داروں میں اس حوالے سے حساسیت اور آگاہی پیدا کرنے کا نظام تشکیل دے گی تاکہ وہ عورتوں کے مسائل اور تحفظ کی ضروریات سے آگاہ ہوسکیں۔ حکومت بروقت سروس ڈیلیوری اور نگرانی کے لیے ایک ڈیٹابیس اور سافٹ وئیر بنائے گی۔ متاثرہ شخص یا اس کا مقرر کردہ شخص یا خاتون پروٹیکشن آفیسر عدالت میں تحفظ، رہائش اور مالی اعانت کی درخواست دائر کرسکتی ہے۔
اس قانون کے تحت تشدد کا شکار ہونے والی خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے نہیں نکالا جاسکتا۔ عورت چاہے تو اسی گھر میں رہے یا پھر مدعا علیہ اپنی حیثیت کیمطابق اس کے لیے متبادل رہائش کا بندوبست کرے یا پھر عورت شیلٹر ہوم میں رہے۔اگر عدالت اس بات کی تسلی کرلیتی ہے کہ مدعا علیہ نے تشدد کا ارتکاب کیا ہے یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ عورت کے جمع کرائے ہوئے حلف نامے کی بنا پر آرڈر جاری کرسکتی ہے کہ مدعا علیہ متاثرہ شخص سے کوئی رابطہ نہیں رکھے گا اور اس سے دور رہے گا۔
اگر اس کی جانب سے تشدد کے کسی ایسے اقدام کا امکان ہو جس سے متاثرہ شخص کی زندگی، عزت یا ساکھ خطرے میں پڑسکتی ہو تو اسے اپنے ٹخنے یا کلائی میں ایک کڑا پہننا ہوگا جو دراصل ٹریکر ہوگا۔ اگر عورت کی زندگی، عزت یا ساکھ کو شدید خطرہ لاحق ہو تو مرد کو گھر چھوڑنا ہوگا۔ یہ دو باتیں ایسی ہیں جن پر کچھ مرد سیاستدان اور چند صحافی بہت شور مچا رہے ہیں۔اگر مرد کے پاس لائسنس یافتہ ہتھیار ہیں تو وہ اسے عدالت کے پاس جمع کرانے ہوں گے۔
عورت جہاں کام کرتی ہے، مدعا علیہ وہاں جانے سے پرہیز کرے گا اور اس جگہ بھی نہیں جائے گا جہاں متاثرہ شخص (عورت) کو بارہا جانا ہوتا ہو۔ وہ متاثرہ شخص (عورت) کی مدد کرنیوالے کسی شخص کو بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ گھریلو تشدد کی صورت میں عدالت فیصلہ کرسکتی ہے کہ عورت کو گھر سے نہیں نکالا جائے گا۔ ریلیف، پروٹیکشن اور بحالی کے نقطہ نظر سے عورت کو شیلٹر ہوم میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مرد یا اس کے رشتے داروں کو شیلٹر ہوم یا اس کے کام والی جگہ پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مرد کو عورت کے لیے متبادل رہائش گاہ کا انتظام کرنا ہوگا یا اس کا کرایہ دینا ہوگا۔
عدالت فیصلہ کرتے ہوئے فریقین کی مالی ضروریات اور مالی حیثیت کا خیال رکھے گی۔اس قانون کے تحت اضلاع میں کمیٹیاں برائے تحفظ نسواں بنائی جائیں گی اور حکومت مرحلہ وار پروٹیکشن سینٹرز اور شیلٹرز ہومز بنائے گی۔ ان کے لیے ویمن پروٹیکشن آفیسرز کا تقرر کیا جائے گا۔ ان خاتون افسروں کو متاثرہ عورت کو بچانے کے لیے کسی بھی جگہ یا گھر میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ لیکن وہ متاثرہ عورت کی اجازت اور مرضی کے بغیر اسے ریسکیو نہیں کرسکتیں۔
ویمن پروٹیکشن آفیسر کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی سزا چھ ماہ قید یا/ اور پانچ لاکھ جرمانہ ہے۔ تشدد کے ارتکاب کی جھوٹی اطلاع دینے یا جھوٹی شکایت درج کرانے کی سزا تین ماہ قید اور/ یا ایک لاکھ جرمانہ ہوگی۔ عدالت کے حکم کے خلاف ورزی کرنے یا ٹریکر کا کام میں مداخلت کرنے کی سزا ایک سال قید اور دو لاکھ تک جرمانہ ہوگا۔ متاثرہ شخص عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے۔ اس قانون میں معلومات کا حق بھی دیا گیا ہے اور حکومت اپنی ویب سائٹ پر معلومات ڈالے گی۔ لیکن عورتوں کے تحفظ کے پیش نظر کچھ معلومات روکی جاسکتی ہیں۔ حکومت اپنے افسروں کے لیے ٹریننگ کا انتظام بھی کرے گی۔ یہ قانون عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ مگر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے جو شور مچایا ہوا ہے، اس کے بارے میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ہم لوگوں نے یہ بیان جاری کیا ہے:
حقوق نسواں قانون کے خلاف سیاسی ملاؤں کے پروپیگنڈا نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہ دینی جماعتیں جو قیام پاکستان کی شدید مخالف تھیں، پاکستان کو کبھی بھی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل نہیں ہونے دیں گی۔
روز اول سے ان کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کی نصف آبادی کو مفعو ل اور مجہول بناکر رکھا جائے اور پاکستان کو کبھی بھی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل نہ ہونے دیا جائے۔ دنیا کے ہر ملک میں مجرموں کی سزا اور اصلاح کے لیے اور جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں۔ عورت پر تشدد بھی ایک جرم ہے اور مجرم کو سزا دینا اور آیندہ اسے اس جرم سے باز رکھنا ریاست کی ذمے داری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پنجاب نے تحفظ نسواں قانون پاس کرکے اپنی ذمے داری کو پورا کیا ہے، حالانکہ سندھ حکومت 2013ء میں گھریلو تشدد کے خلاف قانون بناچکی ہے لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا، دوسرے پنجاب کے قانون میں عمل درآمد کا جو طریقہ کار بنایا گیا ہے، وہ بدر جہا بہتر ہے۔ وہاں عورت پر تشدد کرنیوالے مرد کا نام حکومت کے ڈیٹابیس میں آجائے گا اور اس کی نگرانی کی جاسکے گی۔کیا ملا حضرات اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ہمارے گھروں میں مرد غصے میں آکر عورت کی ناک کاٹ دیتے ہیں۔ کیا ہمارے گھروں میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی؟
کیا بہت سے گھروں میں مار مار کر عورت کی ہڈی پسلی نہیں توڑی جاتی؟ اگر حکومت پنجاب نے ان جرائم کے سدباب کے لیے ایک قانون بنایا ہے تو ہمیں اس کو سراہنا چاہیے، نہ کہ بے سروپا باتیں کرکے حکومت کے ایک اچھے اقدام کو بدنام کیا جائے۔ سیاسی ملا شروع سے عورت کے نام پر اپنی سیاست چمکاتے رہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ان لوگوں نے پورا قانون پڑھا بھی نہیں ہوگا لیکن صرف یہ سن کر کہ مردوں کو تشدد کرنے سے روکنے اور عورتوں کے تحفظ کے لیے ایک قانون بن گیا ہے انھوں نے واویلا مچانا شروع کردیا اور پنجاب حکومت کا اور عورتوں کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔
پاکستانی عورتوں کا مطالبہ ہے کہ باقی صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت بھی اس قانون کو فوری طور پر منظور کریں تاکہ پاکستان میں عورتوں پر ہونیوالے تشدد کا خاتمہ ہوسکے۔ سول سوسائٹی ایسے سارے سیاسی رہنماؤں کی مذمت کرتی ہیں اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں، روشن خیال علماء، دانشوروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ تحفظ نسواں بل کے حق میں آواز اٹھائیں۔ اور ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کے قیام میںاپنا حصہ ڈالیں۔
اس قانون کے تحت تشدد سے مراد انسانی جسم کے حوالے سے کسی بھی قسم کی مجرمانہ حرکت کرنا ہے، اس حرکت میں معاونت کرنا، گھریلو تشدد، جنسی تشدد، نفسیاتی زیادتی، تعاقب کرنا اور سائبر کرائم بھی اس میں شامل ہے۔ اقتصادی زیادتی سے مراد گھریلو رشتوں میں عورت کو کھانے پینے، کپڑے لتے اور چھت سے محروم کرنا ہے۔ نفسیاتی زیادتی میں نفسیاتی بگاڑ بھی شامل ہے، جس کا نتیجہ کھانا پینا چھوٹ جانا، خودکشی کی کوشش اور انتہائی ڈپریشن کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ ایسا مدعا علیہ کے جابرانہ رویہ کی بنا پر ہوتا ہے۔
پنجاب حکومت متاثرہ افراد کے لیے ایک فری ہاٹ لائن قائم کرے گی، مرحلہ وار مراکز برائے تحفظ اور شیلٹر ہومز بنائے گی۔ فریقین کے درمیان ثالثی اور مصالحت کے لیے ضروری عملہ کا تقرر کرے گی۔ طبی اور نفسیاتی علاج اور قانونی مدد فراہم کرے گی اور متاثرہ افراد کے خلاف ہونیوالے جرائم کی تحقیقات کرائے گی۔ حکومت وسیع پیمانے پر اردو اور ضروری ہوا تو مقامی زبانوں میں اس کی تشہیر کرائے گی۔
سرکاری عہدے داروں میں اس حوالے سے حساسیت اور آگاہی پیدا کرنے کا نظام تشکیل دے گی تاکہ وہ عورتوں کے مسائل اور تحفظ کی ضروریات سے آگاہ ہوسکیں۔ حکومت بروقت سروس ڈیلیوری اور نگرانی کے لیے ایک ڈیٹابیس اور سافٹ وئیر بنائے گی۔ متاثرہ شخص یا اس کا مقرر کردہ شخص یا خاتون پروٹیکشن آفیسر عدالت میں تحفظ، رہائش اور مالی اعانت کی درخواست دائر کرسکتی ہے۔
اس قانون کے تحت تشدد کا شکار ہونے والی خاتون کو اس کی مرضی کے بغیر گھر سے نہیں نکالا جاسکتا۔ عورت چاہے تو اسی گھر میں رہے یا پھر مدعا علیہ اپنی حیثیت کیمطابق اس کے لیے متبادل رہائش کا بندوبست کرے یا پھر عورت شیلٹر ہوم میں رہے۔اگر عدالت اس بات کی تسلی کرلیتی ہے کہ مدعا علیہ نے تشدد کا ارتکاب کیا ہے یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ عورت کے جمع کرائے ہوئے حلف نامے کی بنا پر آرڈر جاری کرسکتی ہے کہ مدعا علیہ متاثرہ شخص سے کوئی رابطہ نہیں رکھے گا اور اس سے دور رہے گا۔
اگر اس کی جانب سے تشدد کے کسی ایسے اقدام کا امکان ہو جس سے متاثرہ شخص کی زندگی، عزت یا ساکھ خطرے میں پڑسکتی ہو تو اسے اپنے ٹخنے یا کلائی میں ایک کڑا پہننا ہوگا جو دراصل ٹریکر ہوگا۔ اگر عورت کی زندگی، عزت یا ساکھ کو شدید خطرہ لاحق ہو تو مرد کو گھر چھوڑنا ہوگا۔ یہ دو باتیں ایسی ہیں جن پر کچھ مرد سیاستدان اور چند صحافی بہت شور مچا رہے ہیں۔اگر مرد کے پاس لائسنس یافتہ ہتھیار ہیں تو وہ اسے عدالت کے پاس جمع کرانے ہوں گے۔
عورت جہاں کام کرتی ہے، مدعا علیہ وہاں جانے سے پرہیز کرے گا اور اس جگہ بھی نہیں جائے گا جہاں متاثرہ شخص (عورت) کو بارہا جانا ہوتا ہو۔ وہ متاثرہ شخص (عورت) کی مدد کرنیوالے کسی شخص کو بھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ گھریلو تشدد کی صورت میں عدالت فیصلہ کرسکتی ہے کہ عورت کو گھر سے نہیں نکالا جائے گا۔ ریلیف، پروٹیکشن اور بحالی کے نقطہ نظر سے عورت کو شیلٹر ہوم میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ مرد یا اس کے رشتے داروں کو شیلٹر ہوم یا اس کے کام والی جگہ پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ مرد کو عورت کے لیے متبادل رہائش گاہ کا انتظام کرنا ہوگا یا اس کا کرایہ دینا ہوگا۔
عدالت فیصلہ کرتے ہوئے فریقین کی مالی ضروریات اور مالی حیثیت کا خیال رکھے گی۔اس قانون کے تحت اضلاع میں کمیٹیاں برائے تحفظ نسواں بنائی جائیں گی اور حکومت مرحلہ وار پروٹیکشن سینٹرز اور شیلٹرز ہومز بنائے گی۔ ان کے لیے ویمن پروٹیکشن آفیسرز کا تقرر کیا جائے گا۔ ان خاتون افسروں کو متاثرہ عورت کو بچانے کے لیے کسی بھی جگہ یا گھر میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ لیکن وہ متاثرہ عورت کی اجازت اور مرضی کے بغیر اسے ریسکیو نہیں کرسکتیں۔
ویمن پروٹیکشن آفیسر کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی سزا چھ ماہ قید یا/ اور پانچ لاکھ جرمانہ ہے۔ تشدد کے ارتکاب کی جھوٹی اطلاع دینے یا جھوٹی شکایت درج کرانے کی سزا تین ماہ قید اور/ یا ایک لاکھ جرمانہ ہوگی۔ عدالت کے حکم کے خلاف ورزی کرنے یا ٹریکر کا کام میں مداخلت کرنے کی سزا ایک سال قید اور دو لاکھ تک جرمانہ ہوگا۔ متاثرہ شخص عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرسکتا ہے۔ اس قانون میں معلومات کا حق بھی دیا گیا ہے اور حکومت اپنی ویب سائٹ پر معلومات ڈالے گی۔ لیکن عورتوں کے تحفظ کے پیش نظر کچھ معلومات روکی جاسکتی ہیں۔ حکومت اپنے افسروں کے لیے ٹریننگ کا انتظام بھی کرے گی۔ یہ قانون عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ مگر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے اس کے نفاذ کو روکنے کے لیے جو شور مچایا ہوا ہے، اس کے بارے میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ہم لوگوں نے یہ بیان جاری کیا ہے:
حقوق نسواں قانون کے خلاف سیاسی ملاؤں کے پروپیگنڈا نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی ہے کہ وہ دینی جماعتیں جو قیام پاکستان کی شدید مخالف تھیں، پاکستان کو کبھی بھی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل نہیں ہونے دیں گی۔
روز اول سے ان کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کی نصف آبادی کو مفعو ل اور مجہول بناکر رکھا جائے اور پاکستان کو کبھی بھی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل نہ ہونے دیا جائے۔ دنیا کے ہر ملک میں مجرموں کی سزا اور اصلاح کے لیے اور جرائم کی روک تھام کے لیے مختلف طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں۔ عورت پر تشدد بھی ایک جرم ہے اور مجرم کو سزا دینا اور آیندہ اسے اس جرم سے باز رکھنا ریاست کی ذمے داری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پنجاب نے تحفظ نسواں قانون پاس کرکے اپنی ذمے داری کو پورا کیا ہے، حالانکہ سندھ حکومت 2013ء میں گھریلو تشدد کے خلاف قانون بناچکی ہے لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا، دوسرے پنجاب کے قانون میں عمل درآمد کا جو طریقہ کار بنایا گیا ہے، وہ بدر جہا بہتر ہے۔ وہاں عورت پر تشدد کرنیوالے مرد کا نام حکومت کے ڈیٹابیس میں آجائے گا اور اس کی نگرانی کی جاسکے گی۔کیا ملا حضرات اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ہمارے گھروں میں مرد غصے میں آکر عورت کی ناک کاٹ دیتے ہیں۔ کیا ہمارے گھروں میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی؟
کیا بہت سے گھروں میں مار مار کر عورت کی ہڈی پسلی نہیں توڑی جاتی؟ اگر حکومت پنجاب نے ان جرائم کے سدباب کے لیے ایک قانون بنایا ہے تو ہمیں اس کو سراہنا چاہیے، نہ کہ بے سروپا باتیں کرکے حکومت کے ایک اچھے اقدام کو بدنام کیا جائے۔ سیاسی ملا شروع سے عورت کے نام پر اپنی سیاست چمکاتے رہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ ان لوگوں نے پورا قانون پڑھا بھی نہیں ہوگا لیکن صرف یہ سن کر کہ مردوں کو تشدد کرنے سے روکنے اور عورتوں کے تحفظ کے لیے ایک قانون بن گیا ہے انھوں نے واویلا مچانا شروع کردیا اور پنجاب حکومت کا اور عورتوں کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔
پاکستانی عورتوں کا مطالبہ ہے کہ باقی صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت بھی اس قانون کو فوری طور پر منظور کریں تاکہ پاکستان میں عورتوں پر ہونیوالے تشدد کا خاتمہ ہوسکے۔ سول سوسائٹی ایسے سارے سیاسی رہنماؤں کی مذمت کرتی ہیں اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں، روشن خیال علماء، دانشوروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ تحفظ نسواں بل کے حق میں آواز اٹھائیں۔ اور ایک صحت مند اور ترقی یافتہ معاشرے کے قیام میںاپنا حصہ ڈالیں۔