’تعلیم ایک زیور ہے اور زیور مردوں پر حرام ہے‘

’’پڑھو، پڑھو اور جی بھر کے پڑھو‘‘ تا کہ ’’پاکٹ گائیڈ‘‘ کی ڈائیگنوسز کی نوبت نہ آئے۔

ناجانے یہ کیوں نہیں دریافت کیا جاتا کہ نقل کا رجحان کیوں کر بڑھا؟ اسکولوں میں پڑھائی نہیں ہوتی اور نقل کا رجحان ختم کرنے کے لئے ’پاکٹ گائیڈ ‘ پر پابندی لگادی جاتی ہے۔ فوٹو: فائل

خیبر پختونخوا میں میٹرک کے طلباء آج کل ایک ایسے مرض میں مبتلا ہیں کہ جس میں بولنے، کھانے، پینے، سونے حتیٰ کہ ہلنے سے بھی پرہیز کیا جاتا ہے۔ اس مرض کو تعلیمی اصطلاح میں ''امتحانی دباؤ'' کا عارضہ کہا جاتا ہے۔ اس عارضہ کی دوا صرف اور صرف آنکھیں چار کرکے 24 گھنٹے کتابوں کی دید کرنا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایسے مریض بھی جو امتحانی دباؤ کے خطرناک مراحل میں پہنچ کر ''آئی سی یو'' میں پڑے ہو، ان کو ''پاکٹ گائیڈ'' کا نسخہ کھلایا جاتا ہے، مگر ستم بالائے ستم کہ حکومت نے اس آخری نسخہ پر بھی پابندی عائد کرکے ان پر جرم قرار دے ڈالا۔

بہرحال اس امید کے ساتھ کہ دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے، دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ سب کو کامیاب کریں اور سب کے خواب پورے ہوں اور انٹرمڈیٹ کے طلباء جن پر ابھی ابھی مرض کی علامات ظاہر ہورہی ہیں، ان کیلئے ایک پر اثر نسخہ فری میں بتا کر دعائیں حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ''پڑھو، پڑھو اور جی بھر کے پڑھو'' تاکہ ''پاکٹ گائیڈ'' ڈائیگنوسز کی نوبت ہی نہ آئے۔
قارئین کرام، اپنے طالب علم دوستوں کی طرف سے بھیجے گئے کچھ برقی پیغامات پیش کرنا چاہوں گا، ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ ایک دوست جو پشاور میں پڑھتا ہے، موبائل پر پیغام بھیجا،
''تعلیم ایک زیور ہے، اور زیور مردوں پر حرام ہے، یہی وجہ ہے کہ میرا پڑھنے کو جی نہیں کر رہا''

اب دوسرے کی سنیئے! فیس بک پر پیغام بھیجا کہ
''یار مجھے کہیں سے پاکٹ گائیڈ ڈھونڈ کر لادو، میری حالت غیر ہوچکی ہے''۔

میں نے جوابی پیغام میں متعلقہ نیوز ویب سائٹ کا لنک بھیجا، جس میں کے پی کے حکومت کی طرف سے پاکٹ گائیڈ کے استعمال پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت قانونی کارروائی کا حکم صادر فرمایا گیا ہے، اور دوست کو خبر پڑھنے کی گزارش کی تو سامنے سے جواب آیا کہ
''اگر مجھے پڑھنے کی عادت ہوتی تو آپ کی اس خبر کے بجائے اپنی کتابیں کیوں نہ پڑھتا؟

میری ذاتی رائے میں ایسے طالب علم کے ساتھ یوں کرنا چاہیئے کہ ممتحن کو انہیں سوالنامہ ہاتھ میں دینا ہی نہیں چاہیئے اور یہ کہہ کر ہال سے نکال دینا چاہیئے کہ اِس پیپر میں سوالات لکھے گئے ہیں جو پڑھے بغیر سمجھ نہیں آسکتے اور پڑھنے کی آپ کو عادت نہیں۔

لیجئے ایک اور کا پیغام پڑھیے، کہتے ہیں کہ
''تعلیم ہر شہری کا حق ہے، یاد رکھو کہ کہیں تم زیادہ پڑھ کر کسی کا حق غصب نہ کرو''۔

اب ایسے طلباء کے ساتھ ممتحن کو ایسا سلوک کرنا چاہیئے کہ امتحان ختم ہونے سے 2 گھنٹہ قبل پرچہ واپس لے کر گھر بھیج دینا چاہیئے کیوںکہ 'اچھے نمبر لینا ہر طالب علم کا حق ہے، زیادہ لکھ کر تم دوسرے طلباء کا حق نہ غصب کرسکو'۔


ایک مکار سے طالب علم نے صبح صبح فون کھڑکا دیا کہ 'یار خبر شائع کروادو کہ میں لاپتہ ہوچکا ہوں' میں نے دریافت کیا بھئی کہاں لاپتہ ہوچکے ہو؟

جواب ملا کہ ابھی ہاسٹل میں ہوں، کل سے لاپتہ ہو رہا ہوں کیونکہ امتحانات شروع ہونے والے ہیں۔ ایسے طالب علم کو اگر والدین کہیں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے امتحانی ہال تک لے آئیں تو ممتحن کو انہیں ایک الگ کمرے میں بٹھا کر کھڑکی دروازے لاک کرکے باہر سے آواز دینی چاہیئے کہ، تم لاپتہ نہیں ہو، اغواء برائے تاوان ہو۔ جب تک پرچہ حل نہیں ہوتا باہر آنے کی کوئی امید نہ رکھنا۔

ایسے طلباء کے عظیم اقوال سن کر یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب کے سب فطری طور پر دانشور ہیں، ان کو بھانت بھانت کے مضامین پڑھا کر جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ تو چند طالب علم دوستوں کی طرف سے چند پرمزاح پیغامات تھے، جس کا مقصد 'امتحانی دباؤ' کا شکار طالب علموں کے چہروں پر ہنسی بکھیرنا ہے۔

آخر میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں، مشہور پاکستانی مزاحیہ ادارکار سہیل احمد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے گھر کی ایک ٹونٹی میں پانی نہیں آرہا تھا، مستری کو بلایا گیا، اس نے جگہ جگہ کھدائی کرکے سارا فرش توڑ دیا۔ کہیں پر بھی پائپ ٹوٹا ہوا نظر نہ آیا۔ ہم خجل ہو کر رہ گئے، جب سارے فارمولے آزمالیے گئے تو اُس نے خبر سنائی کہ پوری پائپ لائن تبدیل کرنی ہوگی، پھر جوںہی انہوں نے پائپ جوڑ سے نکالا تو گیس کی بو آنے لگی، پھر انہیں خیال آیا کہ پانی کا پائپ تو سرے سے کھولا ہی نہیں۔ پانی کے پائپ کو تلاشتے تلاشتے گیس لائن بھی تباہ ہوگئی اور گیس کی بو نے پورے محلے کو لپیٹ میں لے لیا، سارے پڑوسی جمع ہوگئے۔ جب ہم نے ساری رام کہانی سنائی تو ایک دوست نے واش بیسن کے نیچے والے لگے دو والوز میں سے ایک گھمایا تو پانی خود بخود نلکے میں رواں ہوگیا۔

قارئین کرام! ٹھیک اسی طرح 'نیا خیبر پختونخوا' بنانے والے مستری بھی اصل ''والو'' کو چھوڑ کر نظام کا کباڑا بنارہے ہیں، ناجانے یہ کیوں نہیں دریافت کیا جاتا کہ نقل کا رجحان کیوں کر بڑھا؟ اسکولوں میں پڑھائی نہیں ہوتی اور نقل کا رجحان ختم کرنے کے لئے 'پاکٹ گائیڈ ' پر پابندی لگادی جاتی ہے، جب اسکولوں میں 5 سو طلباء اور ایک استاد ہو تو ایسے میں سے سہیل احمد صاحب کے بلائے ہوئے مستری کا خیال ہی ذہن میں ابھرتا ہے۔

[poll id="1029"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story