سرتاج عزیز سشما سوراج ملاقات مثبت پیش رفت
بھارت میں موجود انتہا پسند گروہ ان تعلقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے
لاہور:
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے نیپال میں ہونے والے سارک وزارتی اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ جمعرات کو ہونے والی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے یہ خوش کن خبر سنائی کہ بھارتی وزیر خارجہ سے تمام معاملات پر سمجھوتہ اور معاہدہ ہو گیا جن امور پر اختلافات تھے وہ ملاقات میں طے کر لیے گئے ہیں' سارک کے ایجنڈے پر بھی بات چیت ہوئی۔
جس میں سارک کے تمام ایشوز کونسل کے اجلاس میں حل کر لیے گئے ہیں' نریندر مودی کے لیے سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ بھی پیش کیا' پٹھانکوٹ واقعے سے پاکستان اور بھارت کی قیادت کے رابطوں میں التوا آیا تھا' پاکستان کی طرف سے پٹھان کوٹ واقعہ کی تحقیقات میں تعاون کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے' وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نیو کلیئر کانفرنس میں شرکت کے لیے 31 مارچ کو امریکا جا رہے ہیں' امید ہے وہاں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات ہو گی جس کے بعد دو طرفہ رابطے بڑھیں گے' بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی اور پاک بھارت مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سرتاج عزیز اور سشما سوراج کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاک بھارت مذاکرات کی بحالی اور پٹھانکوٹ حملہ سمیت تمام ایشوز پر بات ہوئی، اگر اس ملاقات میں اختلافی امور طے کر لیے گئے اور تمام معاملات پر سمجھوتہ ہو گیا ہے تو یہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اہم پیش رفت ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
پاک بھارت عہدیداروں کے درمیان مذاکرات ہوتے رہتے ہیں اور یہ خوشخبری بھی سنائی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات جلد ختم ہو جائیں گے اور دوستانہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو گا مگر ان سب خوش کن اعلانات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور معاملات وہیں کے وہیں موجود رہتے ہیں بلکہ سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کے علاوہ جنم لینے والا دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کو پھر سے ہوا دے دیتا ہے اور معاملات وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔
سشما سوراج کچھ عرصہ قبل اسلام آباد تشریف لائی تھیں جس کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ اب دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنا شروع ہو جائے اور باہمی تعلقات میں مثبت جانب پیش رفت ہو گی۔ پٹھانکوٹ واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات پیدا کرنے کی جو باتیں ہو رہی تھیں وہ ایک بار پھر پس منظر میں چلی گئیں۔ اس واقعہ کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے شدید مخاصمانہ بیانات کے بجائے جس نرم رویے کا اظہار کیا گیا وہ اس امر کا واضح ثبوت تھا کہ دونوں کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے اور وہ ایک دوسرے کے قریب آنے کے خواہش مند ہیں۔ پٹھانکوٹ واقعے کی تحقیقات کے لیے پاکستان نے ہر ممکن تعاون کیا اور اب پاکستانی تحقیقاتی ٹیم 27مارچ کودہلی جائے گی اب بھارت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحقیقاتی ٹیم سے ہر ممکن تعاون کرے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔
بھارت میں موجود انتہا پسند گروہ ان تعلقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس نے بھارت میں ہونے والے حالیہ کرکٹ میچ کے سلسلے میں پاکستانی ٹیم کی شرکت کے حوالے سے جو طرز عمل اپنایا وہ اس امر کا عکاس ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو زیادہ سے زیادہ ہوا دینے کے لیے سرگرم ہے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت کا رویہ بھی ابھی تک انتہا پسندوں کی سوچ سے مختلف نظر نہیں آ رہا' پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ کولکتہ میں پاکستانی سفارتکاروں کو میچ دیکھنے کی اجازت نہ دینے پر بھارتی رویے سے مایوسی ہوئی۔ ایک جانب خارجہ امور کے اعلیٰ عہدیداروں کی ملاقاتوں میں اختلافات ختم کرنے کی خوشخبری سنائی جا رہی ہے تو دوسری جانب بھارتی حکومت عملی طور پر اختلافات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اب امریکا میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کی باتیں کی جا رہی ہیں جو خوش آیند ہے' بیرون ملک پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقاتیں تو پہلے بھی ہو چکی ہیں لیکن معاملات اس وقت ہی آگے بڑھیں گے جب نفرتوں اور اختلافات کو ختم کر دیا جائے گا۔
رواں سال نومبر میں پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں نریندر مودی اگر شرکت کرتے ہوئے اختلافات ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہیں تو معاملات آگے بڑھیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی تمام تر کوششوں کا پھر سے اختلافات کی بھینٹ چڑھنے کا خدشہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔ عالمی طاقتیں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھا رہیں اس لیے پاک بھارت حکومتوں پر یہ ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ دوستاتہ تعلقات پائیدار بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ان اسباب کا تدارک کریں جو کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے نیپال میں ہونے والے سارک وزارتی اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی۔ جمعرات کو ہونے والی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے یہ خوش کن خبر سنائی کہ بھارتی وزیر خارجہ سے تمام معاملات پر سمجھوتہ اور معاہدہ ہو گیا جن امور پر اختلافات تھے وہ ملاقات میں طے کر لیے گئے ہیں' سارک کے ایجنڈے پر بھی بات چیت ہوئی۔
جس میں سارک کے تمام ایشوز کونسل کے اجلاس میں حل کر لیے گئے ہیں' نریندر مودی کے لیے سارک سربراہی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ بھی پیش کیا' پٹھانکوٹ واقعے سے پاکستان اور بھارت کی قیادت کے رابطوں میں التوا آیا تھا' پاکستان کی طرف سے پٹھان کوٹ واقعہ کی تحقیقات میں تعاون کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے' وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نیو کلیئر کانفرنس میں شرکت کے لیے 31 مارچ کو امریکا جا رہے ہیں' امید ہے وہاں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات ہو گی جس کے بعد دو طرفہ رابطے بڑھیں گے' بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی اور پاک بھارت مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سرتاج عزیز اور سشما سوراج کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاک بھارت مذاکرات کی بحالی اور پٹھانکوٹ حملہ سمیت تمام ایشوز پر بات ہوئی، اگر اس ملاقات میں اختلافی امور طے کر لیے گئے اور تمام معاملات پر سمجھوتہ ہو گیا ہے تو یہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے اہم پیش رفت ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔
پاک بھارت عہدیداروں کے درمیان مذاکرات ہوتے رہتے ہیں اور یہ خوشخبری بھی سنائی جاتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات جلد ختم ہو جائیں گے اور دوستانہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو گا مگر ان سب خوش کن اعلانات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور معاملات وہیں کے وہیں موجود رہتے ہیں بلکہ سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کے علاوہ جنم لینے والا دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کو پھر سے ہوا دے دیتا ہے اور معاملات وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔
سشما سوراج کچھ عرصہ قبل اسلام آباد تشریف لائی تھیں جس کے بعد یہ امید بندھی تھی کہ اب دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنا شروع ہو جائے اور باہمی تعلقات میں مثبت جانب پیش رفت ہو گی۔ پٹھانکوٹ واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات پیدا کرنے کی جو باتیں ہو رہی تھیں وہ ایک بار پھر پس منظر میں چلی گئیں۔ اس واقعہ کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے شدید مخاصمانہ بیانات کے بجائے جس نرم رویے کا اظہار کیا گیا وہ اس امر کا واضح ثبوت تھا کہ دونوں کی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے اور وہ ایک دوسرے کے قریب آنے کے خواہش مند ہیں۔ پٹھانکوٹ واقعے کی تحقیقات کے لیے پاکستان نے ہر ممکن تعاون کیا اور اب پاکستانی تحقیقاتی ٹیم 27مارچ کودہلی جائے گی اب بھارت پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تحقیقاتی ٹیم سے ہر ممکن تعاون کرے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔
بھارت میں موجود انتہا پسند گروہ ان تعلقات کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس نے بھارت میں ہونے والے حالیہ کرکٹ میچ کے سلسلے میں پاکستانی ٹیم کی شرکت کے حوالے سے جو طرز عمل اپنایا وہ اس امر کا عکاس ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو زیادہ سے زیادہ ہوا دینے کے لیے سرگرم ہے۔ دوسری جانب بھارتی حکومت کا رویہ بھی ابھی تک انتہا پسندوں کی سوچ سے مختلف نظر نہیں آ رہا' پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ کولکتہ میں پاکستانی سفارتکاروں کو میچ دیکھنے کی اجازت نہ دینے پر بھارتی رویے سے مایوسی ہوئی۔ ایک جانب خارجہ امور کے اعلیٰ عہدیداروں کی ملاقاتوں میں اختلافات ختم کرنے کی خوشخبری سنائی جا رہی ہے تو دوسری جانب بھارتی حکومت عملی طور پر اختلافات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اب امریکا میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات کی باتیں کی جا رہی ہیں جو خوش آیند ہے' بیرون ملک پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقاتیں تو پہلے بھی ہو چکی ہیں لیکن معاملات اس وقت ہی آگے بڑھیں گے جب نفرتوں اور اختلافات کو ختم کر دیا جائے گا۔
رواں سال نومبر میں پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں نریندر مودی اگر شرکت کرتے ہوئے اختلافات ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہیں تو معاملات آگے بڑھیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کی بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی تمام تر کوششوں کا پھر سے اختلافات کی بھینٹ چڑھنے کا خدشہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔ عالمی طاقتیں بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی سرگرمی نہیں دکھا رہیں اس لیے پاک بھارت حکومتوں پر یہ ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ دوستاتہ تعلقات پائیدار بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے ان اسباب کا تدارک کریں جو کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔