حکومتی قرضوں کی مینجمنٹ
جس کے نتیجہ میں نئے قرضوں کے حوالے سے بڑے خطرات سامنے آ رہے تھے
KARACHI:
موجودہ حکومت نے جب جون 2013ء میں اقتدار سنبھالا تو اسے بھاری مالیاتی خسارے، قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ، ادائیگیوں کے منفی توازن، زرمبادلہ کے ذخائر کے کم حجم ٹیکس وصولی اور اس کے بیس میں کمی، بڑھتے اخراجات، جاری گردشی قرضوں کے بھاری حجم، توانائی کے شعبے کی دگرگوں حالت، سرمائے کے انخلاء، کرنسی کی شرح تبادلہ میں مسلسل کمی اور سرمایہ کاروں کے تیزی سے گرتے اعتماد جیسے چیلنجوں کا سامنا تھا۔
بیرونی محاذ پر ہمارے بڑے ترقیاتی شراکت داروں نے روبہ انحطاط اقتصادی بنیادوں اور مستقبل قریب میں ملک کی طرف سے بیرونی ذمے داریوں کے حوالے سے بظاہر نااہلیت کے باعث اپنی امداد میں خاصی کمی کر دی تھی۔ بڑے چیلنجوں میں سے ایک بیرونی مالیاتی امداد نہ ملنا بھی تھا جس کی وجہ سے مقامی ایکسچینج مارکیٹس زبردست اتار چڑھاؤ کا شکار تھیں۔ حکومتی قرضوں کا بڑا حصہ اندرونی قرضوں کی صورت میں تھا اور ان کی واپسی کی مدت بھی مختصر ہو رہی تھی۔
جس کے نتیجہ میں نئے قرضوں کے حوالے سے بڑے خطرات سامنے آ رہے تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جو جون 2013ء میں 6 ارب ڈالر کی سطح پر تھے، فروری 2014ء میں کم ہو کر 2.8 ارب ڈالر رہ گئے۔ یہ صورتحال بیرونی قرضوں کے حوالہ سے بے حد خطرناک تھی۔
2013ء کے اوائل میں ضروری اقدامات نہ کیے جانے کی صورت میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ یہ پیشین گوئی ان اقتصادی ماہرین نے کی تھی جو پاکستان میں میکرواکنامک صورتحال کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پاکستان کے پاس فروری / جون 2014ء کے بعد بیرونی قرضوں کی واپسی کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے کافی بیرونی وسائل دستیاب نہیں۔
زرمبادلہ کے تیزی سے کم ہونے والے ذخائر اور کرنسی کی تیزی سے گرتی قدر کو سہارا دینے کی اشد ضرورت تھی۔29 نومبر 2013ء کو امریکی ڈالر کی شرح مبادلہ 110.25 روپے تک پہنچ گئی تھی جس کے نتیجہ میں نہ صرف افراط زر بلکہ بیرونی قرضوں کے حجم میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ مقامی قرضوں کی مدت بڑھانے کے ساتھ ساتھ شرح سود کے استحکام ' شرح نمو کی بحالی کی بھی ضرورت تھی تاکہ قرضوں کے بوجھ کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کیے۔ اس سلسلہ میں حکومت نے ایسا مالیاتی نظم متعارف کرایا جس سے گرتی معیشت مستحکم اور اقتصادی نمو کی رفتار تیز ہوئی۔ ساتھ ہی حکومت نے ضروری اصلاحات کے ذریعے معیشت کی بحالی شروع کی جن میں غیر اہدافی زراعانتوں میں کمی' ٹیکس بیس میں توسیع' سرکاری شعبہ کے کاروباری اداروں کی ڈھانچہ جاتی تشکیل نو' غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ' سماجی تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے مالیاتی خسارے میں کمی اور ترقیاتی اخراجات کو نہ صرف تحفظ دینا بلکہ ان میں اضافہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ جون 2013ء سے جون 2015ء تک اہم اقتصادی اشاریوں میں ہونے والی بہتری کا مختصر تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔
1۔مالی سال 2012-13ء میں ایف بی آر کے محصولات 1946 ارب روپے کی سطح پر تھے جو مالی سال 2014-15ء میں بڑھ کر 2588 ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔ ایف بی آر مالی سال 2015-16ء کے دوران اپنے ہدف 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ محصولات جمع کرنے کے ہدف کی جانب گامزن ہے۔
2۔مالی سال 2012-13ء میں 8.8 فیصد کے متوقع بجٹ خسارے کو 8.2 فیصد تک محدود کیا گیا اور یہ کامیابی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے صرف ایک ہفتے کے اندر حاصل کی۔ مالی سال 2014-15ء کے دوران بجٹ خسارے کو کم کر کے 5.3 فیصد کی سطح پر لایا گیا۔ ہم بجٹ خسارے کو جون 2016ء میں ختم ہونے والے مالی سال 2015-16ء کے دوران مزید کم کر کے 4.3 فیصد کی سطح پر لانے کی جانب گامزن ہیں۔
3۔مالی سال 2013-14ء میں افراط زر کی شرح 8.62 فیصد تھی جسے مالی سال 2014-15ء میں کم کر کے 4.53 فیصد کی سطح پر لایا گیا۔ رواں مالی سال کے دوران جولائی 2015ء تا فروری 2016ء صارفین کے لیے قیمتوں کا حساس 2.48 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
4۔مالی سال 2012-13ء کے دوران نجی شعبہ کو دیے جانے والے قرضے منفی 19.2 ارب روپے کی سطح پر تھے یہ قرضے مالی سال 2014-15ء کے دوران بڑھ کر 208.7 ارب کی سطح پر پہنچ گئے۔ رواں مالی سال کے دوران 12 فروری 2016ء کو نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضے 299.7 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
5۔مالی سال 2012-13ء میں زرعی شعبہ کو دیے جانے والے قرضوں کا حجم 336.2 ارب روپے تھے جسے مالی سال 2014.15ء میں بڑھا کر 515.9 ارب روپے کر دیا گیا۔ رواں مالی سال 2015-16ء کے لیے یہ ہدف 600 ارب روپے ہے۔
6۔مالی سال 2012-13ء میں ترقیاتی اخراجات کا حجم 348 ارب روپے تھا' مالی سال 2014-15ء میں یہ حجم بڑھ کر 502 ارب روپے ہو گیا۔ رواں مالی سال کے دوران ترقیاتی اخراجات کے لیے 700 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
7۔مالی سال 2012-13ء میں ترسیلات کا حجم 13.9 ارب ڈالر تھا۔ جو مالی سال 2014-15ء میں بڑھ کر 18.7 ارب ڈالر ہو گیا۔ رواں مالی سال کے دوران 29فروری 2016ء تک 12.7 ارب ڈالر کی ترسیلات ہوئیں۔
مالیاتی استحکام نے قرضوں کی راہ ہموار کی اور (مجموعی پیداوار) جی ڈی پی کے درمیان شرح میں کمی کی۔ مالی سال 2012-13ء کے دوران یہ شرح 64 فیصد تھی جو مالی سال 2014-15ء کے آخر تک کم ہو کر 63.5 فیصد رہ گئی۔ آیندہ تین مالی سال کے دوران ہمارا ہدف قرضوں اور جی ڈی پی کے درمیان شرح کو مالیاتی ذمے داری اور قرضوں کی حدود کے ایکٹ (ایف آر ڈی ایل اے)کے تحت اقدامات کے ذریعے اور قرضوں اور مالیات کی دانشمندانہ مینجمنٹ کے ذریعے 60 فیصد یا اس سے بھی کم کی سطح پر لانا ہے۔
اس سارے پس منظر میں قرضوں کی مینجمنٹ پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی اگرچہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں تسلسل کے ساتھ رہنے والے مالیاتی اور بجٹ خسارے کے باعث مجموعی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ ہماری حکومت کا وژن ہے کہ آیندہ 15 سال کے دوران قرضوں کی حد کو موجودہ 60 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد تک لایا جائے اس مقصد کے لیے اقدامات کا آغاز مالی سال 2018-19ء میں وفاقی سطح پر مالیاتی خسارے میں 4 فیصد کمی کے لیے ایف آر ڈی ایل اے میں ضروری ترامیم کے لیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کر کے کیا جائے گا۔ان کامیابیوں کے باجود حکومت کے بدخواہ ملکی قرضوں کی صورتحال کے حوالے سے مسلسل شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اس لیے ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
30 جون 1999ء کو پاکستان کی مجموعی حکومتی قرضے 2946 ارب روپے تھے جن میں سے اندرونی قرضے 1389 ارب روپے اور بیرونی قرضے 1557 ارب روپے تھے۔ 31 مارچ 2008ء کو مجموعی حکومتی قرضے 5800 ارب روپے تھے جن میں 3020 ارب روپے کے مقامی قرضے بھی شامل تھے جب کہ ان قرضوں میں بیرونی قرضوں کا حجم 2780 ارب روپے تھا، مالی سال 2012-13 ء کے اختتام تک حکومتی قرضہ مزید بڑھ کر14318ارب روپے تک پہنچ گیا، سابقہ حکومت نے 2008ء سے 2013ء کے دوران 8518 ارب روپے کے قرضے کے معاہدے کیے۔
پاکستان کو مسلسل مالیاتی خسارے کاسامنا رہا، 2012-13ء کے لیے ملک کے مالیاتی خسارہ کا جی ڈی پی کے 8.8 فیصد تک رہنے کا اندازہ لگایا گیااور2012-13ء کے آخری مہینے میں ایک بڑی کوشش کے نتیجہ میں اسے 8.2فیصد تک لایا گیا۔ مالیاتی خسارے کی اتنی بڑی شرح غیر پائیدار ہونے کے باعث اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے اور مالیاتی خلاء کو پر کرنے کے لیے بھاری مقدار میں قرضے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔
موجودہ حکومت کو اپنے پہلے مالی سال2013ء میں 14318.4ارب روپے کا قرضہ ورثے میں ملا جس میں48ارب 13کروڑ ڈالر (4ہزار796.5 ارب روپے)کا غیرملکی قرضہ اور 9521.9ارب روپے کا ملکی قرضہ شامل تھا۔ جولائی 2013ء سے دسمبر2015ء کے عرصے کے دوران مجموعی حکومتی قرضہ 18467.3ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں 53.36ارب ڈالر (5ہزار 589.2ارب روپے ) کا غیرملکی قرضہ اور 12 ہزار 878.1 ارب روپے کی ملکی سرکاری قرضہ شامل ہے۔
اس طرح مجموعی حکومتی قرضہ میں 4 ہزار 148.9 ارب روپے کا اضافہ ہوا جس میں 5ارب 23کروڑ ڈالر کا غیرملکی قرضہ بھی شامل ہے۔ ہماری حکومت نے مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں کامیاب رہی جس کی وجہ سے ہم نے کم سے کم قرضہ لیا اورجس کے لیے مالیاتی نظم و ضبط کا نفاذ کیا گیا۔ ہماری حکومت کے پہلے تین مالی سالوں میں مالیاتی خسارے کے کم ہدف کے حصول کے لیے کوششیں کی گئیں۔
سابقہ حکومت نے 2008ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ11ارب ڈالر کے قرضے کا اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا، اپ فرنٹ کے طور پر3089 ملین ڈالرکے قرضے کا بڑا حصہ جاری کیا گیا جس کے بعد4366 ملین ڈالر کے 4 مزید قرضے جاری کیے گئے۔ اس طرح سابق حکومت کو7455 ملین ڈالر کا قرضہ جاری ہوا۔ پچھلی حکومت کی طرف سے طے شدہ اقتصادی اصلاحات پر عملدرآمد میں ناکامی کی وجہ سے اسٹینڈ بائی معاہدہ بعد ازاں معطل کر دیا گیا جس کی وجہ وہ سابق حکومت پروگرام کے تحت ملک کے لیے 3545 ملین ڈالر کا قرضہ نہ حاصل کر سکی۔
موجودہ حکومت نے ستمبر2013ء میں 6 ارب 6کروڑ ڈالر کے آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کا آغاز کیا، اب تک اس پروگرام کے تحت موصول ہونے والی رقم 5271 ملین ڈالر ہے جب کہ آئی ایم ایف کو اس عرصہ میں 4415 ارب ڈالر واپس بھی کیے گئے ہیں۔ اس طرح ہماری حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے 856 ملین ڈالر کی خالص رقم لی گئی ہے ۔
جس میں 5.23 ارب ڈالر کا غیرملکی قرضہ میں اضافہ بھی شامل ہے۔ حکومت نے 10 سہ ماہی جائزے کامیابی کے ساتھ مکمل کیے ہیں اور ستمبر2016ء تک اصلاحات کا پروگرام مکمل کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حکومت اپنے طور پر اقتصادی اصلاحات پر عمل کر رہی ہے اور یہ عام انتخابات 2013ء کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور کا بھی حصہ ہے۔
آئی ایم ایف کے توسیعی پروگرام میں شمولیت کی دو وجوہات ہیں جو کہ کسی دوسری ایسی سہولت کی نسبت زیادہ مشکل ہے، پہلے یہ کہ اسٹینڈ بائی سہولت کے تحت سابق حکومت کی طرف سے لیے جانے والے قرضے کی ایک بڑی رقم کی ادائیگی کی ضرورت اور دوسرے سابق حکومت کے دور میں اصلاحات کے پروگرام پر عملدرآمد جاری رہنے کی وجہ سے دوسرے کثیر جہتی ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ رکا ہوا کاروبار دوبارہ بھرپور انداز میں شروع کرنا ہے، موجودہ حکومت نے دسمبر2015ء تک 10 ارب ڈالر سے زائد کا غیرملکی قرضہ واپس کیا ۔
جس میں اکثریتی قرضے کا تعلق سابقہ حکومتوں کے ادوار سے تھا اس بھاری ادائیگی کے باوجود ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر20 ارب ڈالر سے بڑھ چکے ہیں جن میں سے اسٹیٹ بینک کے پاس دسمبر2015ء کے اختتام تک 15 ارب80 کروڑ ڈالر موجود تھے جو کہ چار ماہ کی درآمدی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہیں جب کہ فروری 2014ء میں اسٹیٹ بینک کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر دو ارب 80 کروڑ ڈالر تھے۔ اڑھائی سال کے دوران غیرملکی حکومتی قرضہ 5 ارب 23 کروڑ ڈالر تک بڑھا ہے جب کہ اسی عرصہ میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 9 ارب 80 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا، پہلے دو مالی سالوں میں قرضے کے بڑے پائیدار اشاریے بہتر ہوئے ہیں جس کو عالمی سٹیک ہولڈرز نے بھی تسلیم کیا ہے۔
٭ری فنانسنگ رسک آف ڈومیسٹک ڈیبٹ پورٹ فولیو، جون2015ء کے اختتام تک میچورٹی پروفائل میں کمی ہوئی ہے اور ایک سال میں اس میں 47 فیصد کی شرح سے کمی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ جون 2013ء کے اختتام تک 64فیصد تھی۔ اس کے علاوہ انٹریسٹ ریٹ رسک میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور ایک سال میں ڈیٹ ری فنانسنگ کی شرح جون 2015ء کے اختتام پر 40 فیصد تک کم ہو گئی جو کہ جون 2013ء کے اختتام پر 12 فیصد تھی۔ شرح منافع میں بھی کمی کی گئی کیونکہ ایک سال میں قرضہ کی دوبارہ فکسنگ میں 2015ء میں جون کے اختتام پر جون 2013ء کے 52% کے مقابلے میں کم ہو کر 40% ہو گئی۔
٭شیئر آف ایکسٹرنل لونز میچورنگ ود ان ون ایئر۔ یہ بھی جون2015ء کے اختتام پر زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کے تقریباً28 فیصد کے برابر ہے جو کہ جون 2013ء کے اختتام پر تقریباً69 فیصد تھا جو کہ غیرملکی زرمبادلہ کے استحکام اور ادائیگی کی صلاحیت کی بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ تاثر اندربرآں کہ زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا حصہ بھاری غیرملکی قرضے بالخصوص یورو بانڈ کی وجہ سے ہے بالکل غلط ہے، حکومت کی طرف سے جاری کیے جانے والے یورو بانڈ کی شرح 7.25 سے 8.25 فیصد ہے، پاکستان اپریل 2014ء میں 7 سال کے وقفے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہوا جس کا مقصد جون 2014ء میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی سے بچنے کے لیے بہتر میکرو اقتصادی اشاریوں کی بنیاد پر اضافی فنڈز کا حصول تھا، اس سے کیپیٹل مارکیٹ میں کامیاب ٹرانزیکشن سے غیرملکی فنڈز اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کے حصول کے نئے راستے کھلتے ہیں۔
مذید برآں، غیر ملکی قرضوں کا بڑا حصہ انتہائی کم شرحوں اور پرکشش شرائط پرحاصل کیا گیا ہے۔ یہ دسمبر 2015ء تک موجودہ حکومت کی طرف سے حاصل کردہ مجموعی بیرونی قرضوں کی اوسط لاگت سے عیاں ہے جو تقریباً 3 فیصد بنتا ہے۔
موجودہ حکومت کی طرف سے متحرک کی گئی گرانٹس شامل کرنے کے بعد قرضہ کی اوسط لاگت مذید 3.3 فیصد تک کم ہو جاتی ہے جو ایکسچینج ریٹ فرسودگی کی بناء پر کیپیٹل خسارہ کے فرق کے بعد بھی تقریباً 10 فیصد کی ملکی فنانسنگ لاگت سے نمایاں طور پر کم ہے۔ اسطرح موجودہ حکومت کی طرف سے حاصل کردہ بیرونی قرضہ کی لاگت نہ صرف اقتصادی طور پر کم ہے بلکہ طویل مدتی فنڈنگ بھی غالب ہے یہ امر واقعہ ہے کہ اس حکومت نے قرضہ جمع ہونے کی رفتار کو سُست کیا ہے، جی ڈی پی کی شرح کے لحاظ سے قرضوں کے کم ہونے کا رجحان اس کا واضح ثبوت ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض حلقے بیرونی سرکاری قرضہ کے غلط اعداد و شمار کا حوالہ دے رہے ہیں۔ بیرونی سرکاری قرضہ اور مجموعی بیرونی قرضہ اور ملک کی ذمے داریوں کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی سرکاری قرضہ دسمبر 2015ء کے اختتام پر 53.4 ارب ڈالر رہا جب کہ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی قرضہ اور ملکی ذمے داریاں 68.5 ارب ڈالر تھیں مجموعی بیرونی قرضہ اور ذمے داریوں میں دیگر شعبوں کا بھی قرضہ شامل ہے جو تعریف کے لحاظ سے سرکاری بیرونی قرضہ شمار نہیں ہوتے کیونکہ حکومت ان کی ادائیگی کی ذمے دار نہیں ہوتی اس میں نجی شعبے اور بینکوں وغیرہ کا قرضہ بھی شامل ہوتا ہے۔
عام طور پر ایک غلط تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ''سی پیک'' کے نتیجے میں 2018ء تک سرکاری بیرونی قرضہ 90ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا۔ یہ نہ تو حقائق پر مبنی ہے اور نہ ہی قرضہ حرکیات کا مناسب ادراک ہے۔ اولاً، 90 ارب ڈالر کا شمار کرتے ہوئے 66 ارب ڈالر کے غلط بنیادی ہندسہ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ دوئم ،46 ارب ڈالر کے مجموعی سی پیک پیکیج میں سے 35 ارب ڈالر کا بڑا حصہ نجی شعبے سے متعلق ہے جس میں سے زیادہ تر آئی پی پی طرز پر بجلی کی پیداوار کے لیے ہے اور اس سے سرکاری بیرونی قرضے میں اضافہ نہیں ہو گا۔
جو اس قسم کے بے بنیاد دعوے کر رہے ہیں در حقیقت انھیں اس امر کا ادراک نہیں کہ قرضہ کو شمار کرتے ہوئے اُسی عرصہ کے دوران واپسی کے لیے واجب الادا قرضہ کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ جب نیا قرضہ حاصل کیا جاتا ہے تو گزشتہ جمع شدہ ذمے داریاں بھی بیک وقت ادا کی جا رہی ہوتی ہیں۔
ایک اور بے بنیاد اور گمراہ کن خبر ''بلوم برگ'' کی طرف سے حال ہی میں جاری کی گئی ہے، جو بصورت دیگر بہت معتبر خبر رساں ادارہ ہے۔ وہ خبر یہ تھی کہ پاکستان کے تقریباً 50 ارب ڈالر کے بیرونی قرضہ کی ادائیگی کی مدت 2016 ء کو پوری ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت سے عاری مضحکہ خیز قیاس آرائی ہے۔ ہمارا مجموعی بیرونی قرضہ اس رقم کے قریب ہے اور آیندہ 40 برسوں میں قابل واپسی ہے۔ وزارت خزانہ نے دو تفصیلی جواب دیے جن میں بلوم برگ کو مناسب طور پر مخاطب کیا گیا۔
ایسے وقت میں جب ہم قرضہ کے انتظام میں نمایاں بہتری لے کر آئے ہیں یہ امر افسوس ناک ہے کہ بعض حلقے عام ذہنوں میں شک اور ابہام کے بیج بو رہے ہیں۔ پاکستان نے دوبارہ بیرونی نیک نامی اور مالیاتی ساکھ حاصل کی ہے اسکو بلا شبہ بین الاقوامی ترقیاتی پارٹنرز اور اکانومسٹ، وال اسٹریٹ جرنل، فاربز جیسے کئی ممتاز عالمی جرائد نے تسلیم کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کی معیشت میں بہتری کے واضح آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ جون 2014ء کے متوقع ڈیفالٹ سے کامیابی سے بچتے ہوئے اور اقتصادی استحکام حاصل کرتے ہوئے ہماری حکومت اب معیشت کو 2018ء تک 7 فیصد کے ہدف کے ساتھ بلند شرح نمو پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہے جس سے غربت میں نمایاں کمی واقع ہو گی اور ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت اب تک حاصل ہونے والے اقتصادی فوائد کو تقویت دینے اور انھیں عام آدمی کے لیے وسیع تر اقتصادی مواقع میں یقینی طور پر ڈھالنے کے لیے پر عزم ہے۔
موجودہ حکومت نے جب جون 2013ء میں اقتدار سنبھالا تو اسے بھاری مالیاتی خسارے، قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ، ادائیگیوں کے منفی توازن، زرمبادلہ کے ذخائر کے کم حجم ٹیکس وصولی اور اس کے بیس میں کمی، بڑھتے اخراجات، جاری گردشی قرضوں کے بھاری حجم، توانائی کے شعبے کی دگرگوں حالت، سرمائے کے انخلاء، کرنسی کی شرح تبادلہ میں مسلسل کمی اور سرمایہ کاروں کے تیزی سے گرتے اعتماد جیسے چیلنجوں کا سامنا تھا۔
بیرونی محاذ پر ہمارے بڑے ترقیاتی شراکت داروں نے روبہ انحطاط اقتصادی بنیادوں اور مستقبل قریب میں ملک کی طرف سے بیرونی ذمے داریوں کے حوالے سے بظاہر نااہلیت کے باعث اپنی امداد میں خاصی کمی کر دی تھی۔ بڑے چیلنجوں میں سے ایک بیرونی مالیاتی امداد نہ ملنا بھی تھا جس کی وجہ سے مقامی ایکسچینج مارکیٹس زبردست اتار چڑھاؤ کا شکار تھیں۔ حکومتی قرضوں کا بڑا حصہ اندرونی قرضوں کی صورت میں تھا اور ان کی واپسی کی مدت بھی مختصر ہو رہی تھی۔
جس کے نتیجہ میں نئے قرضوں کے حوالے سے بڑے خطرات سامنے آ رہے تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر جو جون 2013ء میں 6 ارب ڈالر کی سطح پر تھے، فروری 2014ء میں کم ہو کر 2.8 ارب ڈالر رہ گئے۔ یہ صورتحال بیرونی قرضوں کے حوالہ سے بے حد خطرناک تھی۔
2013ء کے اوائل میں ضروری اقدامات نہ کیے جانے کی صورت میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ یہ پیشین گوئی ان اقتصادی ماہرین نے کی تھی جو پاکستان میں میکرواکنامک صورتحال کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پاکستان کے پاس فروری / جون 2014ء کے بعد بیرونی قرضوں کی واپسی کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے کافی بیرونی وسائل دستیاب نہیں۔
زرمبادلہ کے تیزی سے کم ہونے والے ذخائر اور کرنسی کی تیزی سے گرتی قدر کو سہارا دینے کی اشد ضرورت تھی۔29 نومبر 2013ء کو امریکی ڈالر کی شرح مبادلہ 110.25 روپے تک پہنچ گئی تھی جس کے نتیجہ میں نہ صرف افراط زر بلکہ بیرونی قرضوں کے حجم میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ مقامی قرضوں کی مدت بڑھانے کے ساتھ ساتھ شرح سود کے استحکام ' شرح نمو کی بحالی کی بھی ضرورت تھی تاکہ قرضوں کے بوجھ کے اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کیے۔ اس سلسلہ میں حکومت نے ایسا مالیاتی نظم متعارف کرایا جس سے گرتی معیشت مستحکم اور اقتصادی نمو کی رفتار تیز ہوئی۔ ساتھ ہی حکومت نے ضروری اصلاحات کے ذریعے معیشت کی بحالی شروع کی جن میں غیر اہدافی زراعانتوں میں کمی' ٹیکس بیس میں توسیع' سرکاری شعبہ کے کاروباری اداروں کی ڈھانچہ جاتی تشکیل نو' غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ' سماجی تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے مالیاتی خسارے میں کمی اور ترقیاتی اخراجات کو نہ صرف تحفظ دینا بلکہ ان میں اضافہ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ جون 2013ء سے جون 2015ء تک اہم اقتصادی اشاریوں میں ہونے والی بہتری کا مختصر تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔
1۔مالی سال 2012-13ء میں ایف بی آر کے محصولات 1946 ارب روپے کی سطح پر تھے جو مالی سال 2014-15ء میں بڑھ کر 2588 ارب روپے کی سطح پر پہنچ گئے۔ ایف بی آر مالی سال 2015-16ء کے دوران اپنے ہدف 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ محصولات جمع کرنے کے ہدف کی جانب گامزن ہے۔
2۔مالی سال 2012-13ء میں 8.8 فیصد کے متوقع بجٹ خسارے کو 8.2 فیصد تک محدود کیا گیا اور یہ کامیابی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے صرف ایک ہفتے کے اندر حاصل کی۔ مالی سال 2014-15ء کے دوران بجٹ خسارے کو کم کر کے 5.3 فیصد کی سطح پر لایا گیا۔ ہم بجٹ خسارے کو جون 2016ء میں ختم ہونے والے مالی سال 2015-16ء کے دوران مزید کم کر کے 4.3 فیصد کی سطح پر لانے کی جانب گامزن ہیں۔
3۔مالی سال 2013-14ء میں افراط زر کی شرح 8.62 فیصد تھی جسے مالی سال 2014-15ء میں کم کر کے 4.53 فیصد کی سطح پر لایا گیا۔ رواں مالی سال کے دوران جولائی 2015ء تا فروری 2016ء صارفین کے لیے قیمتوں کا حساس 2.48 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
4۔مالی سال 2012-13ء کے دوران نجی شعبہ کو دیے جانے والے قرضے منفی 19.2 ارب روپے کی سطح پر تھے یہ قرضے مالی سال 2014-15ء کے دوران بڑھ کر 208.7 ارب کی سطح پر پہنچ گئے۔ رواں مالی سال کے دوران 12 فروری 2016ء کو نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضے 299.7 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
5۔مالی سال 2012-13ء میں زرعی شعبہ کو دیے جانے والے قرضوں کا حجم 336.2 ارب روپے تھے جسے مالی سال 2014.15ء میں بڑھا کر 515.9 ارب روپے کر دیا گیا۔ رواں مالی سال 2015-16ء کے لیے یہ ہدف 600 ارب روپے ہے۔
6۔مالی سال 2012-13ء میں ترقیاتی اخراجات کا حجم 348 ارب روپے تھا' مالی سال 2014-15ء میں یہ حجم بڑھ کر 502 ارب روپے ہو گیا۔ رواں مالی سال کے دوران ترقیاتی اخراجات کے لیے 700 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
7۔مالی سال 2012-13ء میں ترسیلات کا حجم 13.9 ارب ڈالر تھا۔ جو مالی سال 2014-15ء میں بڑھ کر 18.7 ارب ڈالر ہو گیا۔ رواں مالی سال کے دوران 29فروری 2016ء تک 12.7 ارب ڈالر کی ترسیلات ہوئیں۔
مالیاتی استحکام نے قرضوں کی راہ ہموار کی اور (مجموعی پیداوار) جی ڈی پی کے درمیان شرح میں کمی کی۔ مالی سال 2012-13ء کے دوران یہ شرح 64 فیصد تھی جو مالی سال 2014-15ء کے آخر تک کم ہو کر 63.5 فیصد رہ گئی۔ آیندہ تین مالی سال کے دوران ہمارا ہدف قرضوں اور جی ڈی پی کے درمیان شرح کو مالیاتی ذمے داری اور قرضوں کی حدود کے ایکٹ (ایف آر ڈی ایل اے)کے تحت اقدامات کے ذریعے اور قرضوں اور مالیات کی دانشمندانہ مینجمنٹ کے ذریعے 60 فیصد یا اس سے بھی کم کی سطح پر لانا ہے۔
اس سارے پس منظر میں قرضوں کی مینجمنٹ پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی اگرچہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں تسلسل کے ساتھ رہنے والے مالیاتی اور بجٹ خسارے کے باعث مجموعی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ ہماری حکومت کا وژن ہے کہ آیندہ 15 سال کے دوران قرضوں کی حد کو موجودہ 60 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد تک لایا جائے اس مقصد کے لیے اقدامات کا آغاز مالی سال 2018-19ء میں وفاقی سطح پر مالیاتی خسارے میں 4 فیصد کمی کے لیے ایف آر ڈی ایل اے میں ضروری ترامیم کے لیے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کر کے کیا جائے گا۔ان کامیابیوں کے باجود حکومت کے بدخواہ ملکی قرضوں کی صورتحال کے حوالے سے مسلسل شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں اس لیے ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
30 جون 1999ء کو پاکستان کی مجموعی حکومتی قرضے 2946 ارب روپے تھے جن میں سے اندرونی قرضے 1389 ارب روپے اور بیرونی قرضے 1557 ارب روپے تھے۔ 31 مارچ 2008ء کو مجموعی حکومتی قرضے 5800 ارب روپے تھے جن میں 3020 ارب روپے کے مقامی قرضے بھی شامل تھے جب کہ ان قرضوں میں بیرونی قرضوں کا حجم 2780 ارب روپے تھا، مالی سال 2012-13 ء کے اختتام تک حکومتی قرضہ مزید بڑھ کر14318ارب روپے تک پہنچ گیا، سابقہ حکومت نے 2008ء سے 2013ء کے دوران 8518 ارب روپے کے قرضے کے معاہدے کیے۔
پاکستان کو مسلسل مالیاتی خسارے کاسامنا رہا، 2012-13ء کے لیے ملک کے مالیاتی خسارہ کا جی ڈی پی کے 8.8 فیصد تک رہنے کا اندازہ لگایا گیااور2012-13ء کے آخری مہینے میں ایک بڑی کوشش کے نتیجہ میں اسے 8.2فیصد تک لایا گیا۔ مالیاتی خسارے کی اتنی بڑی شرح غیر پائیدار ہونے کے باعث اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے اور مالیاتی خلاء کو پر کرنے کے لیے بھاری مقدار میں قرضے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔
موجودہ حکومت کو اپنے پہلے مالی سال2013ء میں 14318.4ارب روپے کا قرضہ ورثے میں ملا جس میں48ارب 13کروڑ ڈالر (4ہزار796.5 ارب روپے)کا غیرملکی قرضہ اور 9521.9ارب روپے کا ملکی قرضہ شامل تھا۔ جولائی 2013ء سے دسمبر2015ء کے عرصے کے دوران مجموعی حکومتی قرضہ 18467.3ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں 53.36ارب ڈالر (5ہزار 589.2ارب روپے ) کا غیرملکی قرضہ اور 12 ہزار 878.1 ارب روپے کی ملکی سرکاری قرضہ شامل ہے۔
اس طرح مجموعی حکومتی قرضہ میں 4 ہزار 148.9 ارب روپے کا اضافہ ہوا جس میں 5ارب 23کروڑ ڈالر کا غیرملکی قرضہ بھی شامل ہے۔ ہماری حکومت نے مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں کامیاب رہی جس کی وجہ سے ہم نے کم سے کم قرضہ لیا اورجس کے لیے مالیاتی نظم و ضبط کا نفاذ کیا گیا۔ ہماری حکومت کے پہلے تین مالی سالوں میں مالیاتی خسارے کے کم ہدف کے حصول کے لیے کوششیں کی گئیں۔
سابقہ حکومت نے 2008ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ11ارب ڈالر کے قرضے کا اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا، اپ فرنٹ کے طور پر3089 ملین ڈالرکے قرضے کا بڑا حصہ جاری کیا گیا جس کے بعد4366 ملین ڈالر کے 4 مزید قرضے جاری کیے گئے۔ اس طرح سابق حکومت کو7455 ملین ڈالر کا قرضہ جاری ہوا۔ پچھلی حکومت کی طرف سے طے شدہ اقتصادی اصلاحات پر عملدرآمد میں ناکامی کی وجہ سے اسٹینڈ بائی معاہدہ بعد ازاں معطل کر دیا گیا جس کی وجہ وہ سابق حکومت پروگرام کے تحت ملک کے لیے 3545 ملین ڈالر کا قرضہ نہ حاصل کر سکی۔
موجودہ حکومت نے ستمبر2013ء میں 6 ارب 6کروڑ ڈالر کے آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کا آغاز کیا، اب تک اس پروگرام کے تحت موصول ہونے والی رقم 5271 ملین ڈالر ہے جب کہ آئی ایم ایف کو اس عرصہ میں 4415 ارب ڈالر واپس بھی کیے گئے ہیں۔ اس طرح ہماری حکومت کے دور میں آئی ایم ایف سے 856 ملین ڈالر کی خالص رقم لی گئی ہے ۔
جس میں 5.23 ارب ڈالر کا غیرملکی قرضہ میں اضافہ بھی شامل ہے۔ حکومت نے 10 سہ ماہی جائزے کامیابی کے ساتھ مکمل کیے ہیں اور ستمبر2016ء تک اصلاحات کا پروگرام مکمل کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حکومت اپنے طور پر اقتصادی اصلاحات پر عمل کر رہی ہے اور یہ عام انتخابات 2013ء کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور کا بھی حصہ ہے۔
آئی ایم ایف کے توسیعی پروگرام میں شمولیت کی دو وجوہات ہیں جو کہ کسی دوسری ایسی سہولت کی نسبت زیادہ مشکل ہے، پہلے یہ کہ اسٹینڈ بائی سہولت کے تحت سابق حکومت کی طرف سے لیے جانے والے قرضے کی ایک بڑی رقم کی ادائیگی کی ضرورت اور دوسرے سابق حکومت کے دور میں اصلاحات کے پروگرام پر عملدرآمد جاری رہنے کی وجہ سے دوسرے کثیر جہتی ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ رکا ہوا کاروبار دوبارہ بھرپور انداز میں شروع کرنا ہے، موجودہ حکومت نے دسمبر2015ء تک 10 ارب ڈالر سے زائد کا غیرملکی قرضہ واپس کیا ۔
جس میں اکثریتی قرضے کا تعلق سابقہ حکومتوں کے ادوار سے تھا اس بھاری ادائیگی کے باوجود ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر20 ارب ڈالر سے بڑھ چکے ہیں جن میں سے اسٹیٹ بینک کے پاس دسمبر2015ء کے اختتام تک 15 ارب80 کروڑ ڈالر موجود تھے جو کہ چار ماہ کی درآمدی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہیں جب کہ فروری 2014ء میں اسٹیٹ بینک کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر دو ارب 80 کروڑ ڈالر تھے۔ اڑھائی سال کے دوران غیرملکی حکومتی قرضہ 5 ارب 23 کروڑ ڈالر تک بڑھا ہے جب کہ اسی عرصہ میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 9 ارب 80 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا، پہلے دو مالی سالوں میں قرضے کے بڑے پائیدار اشاریے بہتر ہوئے ہیں جس کو عالمی سٹیک ہولڈرز نے بھی تسلیم کیا ہے۔
٭ری فنانسنگ رسک آف ڈومیسٹک ڈیبٹ پورٹ فولیو، جون2015ء کے اختتام تک میچورٹی پروفائل میں کمی ہوئی ہے اور ایک سال میں اس میں 47 فیصد کی شرح سے کمی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ جون 2013ء کے اختتام تک 64فیصد تھی۔ اس کے علاوہ انٹریسٹ ریٹ رسک میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور ایک سال میں ڈیٹ ری فنانسنگ کی شرح جون 2015ء کے اختتام پر 40 فیصد تک کم ہو گئی جو کہ جون 2013ء کے اختتام پر 12 فیصد تھی۔ شرح منافع میں بھی کمی کی گئی کیونکہ ایک سال میں قرضہ کی دوبارہ فکسنگ میں 2015ء میں جون کے اختتام پر جون 2013ء کے 52% کے مقابلے میں کم ہو کر 40% ہو گئی۔
٭شیئر آف ایکسٹرنل لونز میچورنگ ود ان ون ایئر۔ یہ بھی جون2015ء کے اختتام پر زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کے تقریباً28 فیصد کے برابر ہے جو کہ جون 2013ء کے اختتام پر تقریباً69 فیصد تھا جو کہ غیرملکی زرمبادلہ کے استحکام اور ادائیگی کی صلاحیت کی بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ تاثر اندربرآں کہ زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا حصہ بھاری غیرملکی قرضے بالخصوص یورو بانڈ کی وجہ سے ہے بالکل غلط ہے، حکومت کی طرف سے جاری کیے جانے والے یورو بانڈ کی شرح 7.25 سے 8.25 فیصد ہے، پاکستان اپریل 2014ء میں 7 سال کے وقفے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہوا جس کا مقصد جون 2014ء میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئی سے بچنے کے لیے بہتر میکرو اقتصادی اشاریوں کی بنیاد پر اضافی فنڈز کا حصول تھا، اس سے کیپیٹل مارکیٹ میں کامیاب ٹرانزیکشن سے غیرملکی فنڈز اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کے حصول کے نئے راستے کھلتے ہیں۔
مذید برآں، غیر ملکی قرضوں کا بڑا حصہ انتہائی کم شرحوں اور پرکشش شرائط پرحاصل کیا گیا ہے۔ یہ دسمبر 2015ء تک موجودہ حکومت کی طرف سے حاصل کردہ مجموعی بیرونی قرضوں کی اوسط لاگت سے عیاں ہے جو تقریباً 3 فیصد بنتا ہے۔
موجودہ حکومت کی طرف سے متحرک کی گئی گرانٹس شامل کرنے کے بعد قرضہ کی اوسط لاگت مذید 3.3 فیصد تک کم ہو جاتی ہے جو ایکسچینج ریٹ فرسودگی کی بناء پر کیپیٹل خسارہ کے فرق کے بعد بھی تقریباً 10 فیصد کی ملکی فنانسنگ لاگت سے نمایاں طور پر کم ہے۔ اسطرح موجودہ حکومت کی طرف سے حاصل کردہ بیرونی قرضہ کی لاگت نہ صرف اقتصادی طور پر کم ہے بلکہ طویل مدتی فنڈنگ بھی غالب ہے یہ امر واقعہ ہے کہ اس حکومت نے قرضہ جمع ہونے کی رفتار کو سُست کیا ہے، جی ڈی پی کی شرح کے لحاظ سے قرضوں کے کم ہونے کا رجحان اس کا واضح ثبوت ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض حلقے بیرونی سرکاری قرضہ کے غلط اعداد و شمار کا حوالہ دے رہے ہیں۔ بیرونی سرکاری قرضہ اور مجموعی بیرونی قرضہ اور ملک کی ذمے داریوں کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی سرکاری قرضہ دسمبر 2015ء کے اختتام پر 53.4 ارب ڈالر رہا جب کہ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی قرضہ اور ملکی ذمے داریاں 68.5 ارب ڈالر تھیں مجموعی بیرونی قرضہ اور ذمے داریوں میں دیگر شعبوں کا بھی قرضہ شامل ہے جو تعریف کے لحاظ سے سرکاری بیرونی قرضہ شمار نہیں ہوتے کیونکہ حکومت ان کی ادائیگی کی ذمے دار نہیں ہوتی اس میں نجی شعبے اور بینکوں وغیرہ کا قرضہ بھی شامل ہوتا ہے۔
عام طور پر ایک غلط تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ''سی پیک'' کے نتیجے میں 2018ء تک سرکاری بیرونی قرضہ 90ارب ڈالر تک بڑھ جائے گا۔ یہ نہ تو حقائق پر مبنی ہے اور نہ ہی قرضہ حرکیات کا مناسب ادراک ہے۔ اولاً، 90 ارب ڈالر کا شمار کرتے ہوئے 66 ارب ڈالر کے غلط بنیادی ہندسہ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ دوئم ،46 ارب ڈالر کے مجموعی سی پیک پیکیج میں سے 35 ارب ڈالر کا بڑا حصہ نجی شعبے سے متعلق ہے جس میں سے زیادہ تر آئی پی پی طرز پر بجلی کی پیداوار کے لیے ہے اور اس سے سرکاری بیرونی قرضے میں اضافہ نہیں ہو گا۔
جو اس قسم کے بے بنیاد دعوے کر رہے ہیں در حقیقت انھیں اس امر کا ادراک نہیں کہ قرضہ کو شمار کرتے ہوئے اُسی عرصہ کے دوران واپسی کے لیے واجب الادا قرضہ کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ جب نیا قرضہ حاصل کیا جاتا ہے تو گزشتہ جمع شدہ ذمے داریاں بھی بیک وقت ادا کی جا رہی ہوتی ہیں۔
ایک اور بے بنیاد اور گمراہ کن خبر ''بلوم برگ'' کی طرف سے حال ہی میں جاری کی گئی ہے، جو بصورت دیگر بہت معتبر خبر رساں ادارہ ہے۔ وہ خبر یہ تھی کہ پاکستان کے تقریباً 50 ارب ڈالر کے بیرونی قرضہ کی ادائیگی کی مدت 2016 ء کو پوری ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت سے عاری مضحکہ خیز قیاس آرائی ہے۔ ہمارا مجموعی بیرونی قرضہ اس رقم کے قریب ہے اور آیندہ 40 برسوں میں قابل واپسی ہے۔ وزارت خزانہ نے دو تفصیلی جواب دیے جن میں بلوم برگ کو مناسب طور پر مخاطب کیا گیا۔
ایسے وقت میں جب ہم قرضہ کے انتظام میں نمایاں بہتری لے کر آئے ہیں یہ امر افسوس ناک ہے کہ بعض حلقے عام ذہنوں میں شک اور ابہام کے بیج بو رہے ہیں۔ پاکستان نے دوبارہ بیرونی نیک نامی اور مالیاتی ساکھ حاصل کی ہے اسکو بلا شبہ بین الاقوامی ترقیاتی پارٹنرز اور اکانومسٹ، وال اسٹریٹ جرنل، فاربز جیسے کئی ممتاز عالمی جرائد نے تسلیم کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کی معیشت میں بہتری کے واضح آثار ظاہر ہو رہے ہیں۔ جون 2014ء کے متوقع ڈیفالٹ سے کامیابی سے بچتے ہوئے اور اقتصادی استحکام حاصل کرتے ہوئے ہماری حکومت اب معیشت کو 2018ء تک 7 فیصد کے ہدف کے ساتھ بلند شرح نمو پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہے جس سے غربت میں نمایاں کمی واقع ہو گی اور ہمارے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت اب تک حاصل ہونے والے اقتصادی فوائد کو تقویت دینے اور انھیں عام آدمی کے لیے وسیع تر اقتصادی مواقع میں یقینی طور پر ڈھالنے کے لیے پر عزم ہے۔