دل سوز سے خالی ہے آخری حصہ
میاں اس کو مارتا ہے، آج بھی مار کھا کر آ رہی ہے، کیوں مارتا ہے، شکایت کیا ہے
میاں اس کو مارتا ہے، آج بھی مار کھا کر آ رہی ہے، کیوں مارتا ہے، شکایت کیا ہے؟ مارنے کے لیے شکایت کا ہونا ضروری تو نہیں، رات کو نشہ کرتا ہے پھر کسی بات پر ردی کی طرح ٹھوک کر رکھ دیتا ہے، یہ صبح کا واقعہ شام ہوتے ہوتے بھول گیا۔ شام گھر لوٹا تو ایک قریبی دوست کا کارڈ ملا جس پر فوری رابطے کی ہدایت کی گئی تھی۔
میں اس کے گھر پہنچا تو وہ خاصا پریشان الجھا ہوا تھا۔ خیریت تو ہے؟ اتنے پریشان کیوں ہو؟ بات ہی ایسی ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں۔ مگر تمہارے چار بچے ہیں ان کا کیا بنے گا؟ میں نے ہراساں ہو کر پوچھا۔ ہمارا ایک ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا، وہ بدتمیز ہے، بدزبان ہے، پٹائی بھی کر چکا ہوں لیکن سدھرتی ہی نہیں۔ کیا تم اپنی بیوی کو مارتے ہو؟ ہاں، اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ بیوی کو مارنے کی اجازت ہمارے مذہب نے بھی دی ہے۔
تم میں اور میری ماسی کے شوہر میں کیا فرق ہے؟ وہ بھی اپنی بیوی کو مارتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ نشہ کر کے مارتا ہے اور تم بغیر نشے کے مارتے ہو۔ رات میں دیر تک لان میں کرسی ڈالے بیٹھا رہا۔ بیوی نے پوچھا خیریت تو ہے؟ میں نے کہا سمجھ میں نہیں آ رہا، مرد کمزور عورتوں پر ہاتھ کیسے اٹھا لیتے ہیں؟ سارے مرد نہیں، بیوی نے اطمینان سے کہا۔ صرف وہ مرد جو عورتوں سے بھی کمزور ہوتے ہیں۔ طاہر کا یہ کالم پڑھ کر خواتین پر تشدد کی روک تھام کے قانون کی مخالفت کرنے والے مولوی کی نفسیات سمجھ آ جاتی ہے۔
مصنف نے اپنی مادر علمی جامعہ ملیہ کالج کے بارے میں ایک کالم اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جامعہ ملیہ کالج ملیر کا شمار کراچی کے بہترین کالجوں میں ہوتا تھا۔ جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو بھٹو مرحوم کا دورِ حکومت شروع ہو چکا تھا۔ کالج کی فضا سرخ اور سبز نعروں سے گونج رہی تھی۔ اساتذہ و طلبہ دائیں اور بائیں بازو میں بٹے ہوئے تھے۔
ایک کا مرکز و محور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تھا تو دوسرے کا ماسکو اور بیجنگ۔ کالج میں بائیں بازو کے طلبا پروفیسر اطلاق اختر حمیدی سے فکری رہنمائی لیتے تھے تو دائیں بازو کے طلبا رہنمائی اور مشاورت کے لیے پروفیسر حسینی صاحب اور پروفیسر غوری صاحب سے رابطہ قائم کرتے تھے۔ حسینی صاحب کا انداز تربیت مثبت اور تعمیری تھا۔
باقاعدگی سے کلاسیں لیتے، کوئی طالب علم سوال کرتا تو تحمل اور دانائی سے جواب دیتے۔ طالب علم گھر پر پہنچتا تو تواضع کرتے، پھر وہ پروفیسر سے اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہیں اور یوں زندگی کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ سر آپ کی شفقتیں میں نہیں بھولا لیکن حاضر ہونے کی توفیق نہیں ہوئی، اب انشاء اﷲ آتا رہوں گا۔ استاد محترم نے سر اٹھا کر ایسے دیکھا جیسے وعدے کا یقین نہ آیا ہو۔ پروفیسر حسینی اب دنیا میں نہیں، اس مصروف دنیا میں پرانے اساتذہ سے رابطہ رکھنا خاصا مشکل کام ہے مگر طاہر مسعود صاحب نے اپنے اساتذہ کو یاد کر کے طالب علموں کو ایک راہ یاد دلائی۔
ڈاکٹر طاہر مسعود نے ''ایک معصوم بات چیت'' کے عنوان سے دو بچیوں کی بات چیت کا اقتباس درج کیا۔ یہ بات چیت یہاں سے شروع ہوتی ہے، جب رمیضا نے اپنی دوست ماریہ سے کہا کہ ماریہ دیکھو میرے ابو میرے لیے کیسا بکرا لائے ہیں مگر تمہارا بکرا کہاں ہے؟ میرے ابو کہتے ہیں کہ ہمارا بکرا جنت سے آئے گا۔ جنت سے رمیضا حیران ہوئی، مگر جنت کہاں ہے؟ جنت آسمان پہ ہے۔ ابو بتاتے ہیں کہ وہ بہت حسین جگہ ہے، میرا بکرا وہیں ہے اور جب ہم قیامت کے دن وہاں جائیں گے تو وہ ہمیں ملے گا۔
ماریہ نے اطمینان سے کہا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود بنیادی طور پر مذہبی آدمی رہے ہیں مگر اس کالم میں انھوں نے عیدالاضحیٰ کے طبقاتی فرق کو واضح کیا ہے۔ غریب لوگ عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی قربانی نہیں کر پاتے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے ''جب قیامت آئے گی'' کے عنوان سے کالم میں امریکا سے درآمد کی گئی گڑیوں کے مسلمان کرنے کا ذکر کیا ہے کہ گڑیا ان کی بیٹیوں کے لیے آئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا وعظ سن کر بچیوں نے ان گڑیوں کو پاکستانی لباس پہنا دیے۔
پھر ان کے مسلمان ہونے کی تقریب منعقد ہوئی۔ ایک مولوی صاحب نے اس موقع پر اپنے خطبہ میں فرمایا کہ ہماری تباہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اس مقصد کو بھول گئے ہیں، ہم اپنے دین کو دوسرے تک پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے کو بے دین کہتے اور ایک دوسرے کو لعن طن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اب میرے گھر میں پانچ مسلمان گڑیاں رہتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جس دن قیامت آئے گی آسمان پھٹ پڑے گا، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے اور اﷲ عزوجل سے ارض کو قوی ہیکل فرشتے اٹھائے اتریں گے تو یہ پانچ گڑیاں بخش دی جائیں گی اور ان کی گواہی پر میری دونوں بچیاں بھی داخل جنت کی جائیں گی۔ ڈاکٹر صاحب نے یوں مسلمانوں کو کافروں کو مسلمان کرنے کی ہدایت پر مبنی ایک پراثر کالم تحریر کیا۔ یہ تحریر 16 جون 1998ء کی ہے۔
18 سال میں دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات کی بنا پر ڈاکٹر طاہر مسعود کے خیالات میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ شاید اب وہ بھی اس حقیقت سے اتفاق کرتے ہیں کہ لوگوں کو مذہب کی تبدیلی سے دنیا کے مسائل حل نہیں ہوتے اور مسلمانوں کے زوال کی وجہ تعلیم اور سائنس کے میدان میں پیچھے رہ جانا ہے۔ اگر وہ دوبارہ اس کالم کا جائزہ لیتے تو شاید اس کتاب کی زینت نہ بنتا۔ میں نے اور راقم الحروف کی اہلیہ نے اس کتاب کو ایک ہی نشست میں پڑھا ہے۔ ہر کالم میں آسان زبان اور خوبصورت جملوں کے ساتھ ایک سبق موجود ہے۔ اس آرٹیکل میں چند کالموں کا حوالہ دیا گیا ہے، باقی کالم بھی دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ یہ کتاب سنگ میل پبلکیشنز نے شایع کی ہے۔ اس کی قیمت 695 روپے ہے۔ کتابوں کے قارئین کے لیے یہ ایک خوبصورت تحفہ ہے۔
میں اس کے گھر پہنچا تو وہ خاصا پریشان الجھا ہوا تھا۔ خیریت تو ہے؟ اتنے پریشان کیوں ہو؟ بات ہی ایسی ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے رہا ہوں۔ مگر تمہارے چار بچے ہیں ان کا کیا بنے گا؟ میں نے ہراساں ہو کر پوچھا۔ ہمارا ایک ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا، وہ بدتمیز ہے، بدزبان ہے، پٹائی بھی کر چکا ہوں لیکن سدھرتی ہی نہیں۔ کیا تم اپنی بیوی کو مارتے ہو؟ ہاں، اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ بیوی کو مارنے کی اجازت ہمارے مذہب نے بھی دی ہے۔
تم میں اور میری ماسی کے شوہر میں کیا فرق ہے؟ وہ بھی اپنی بیوی کو مارتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ نشہ کر کے مارتا ہے اور تم بغیر نشے کے مارتے ہو۔ رات میں دیر تک لان میں کرسی ڈالے بیٹھا رہا۔ بیوی نے پوچھا خیریت تو ہے؟ میں نے کہا سمجھ میں نہیں آ رہا، مرد کمزور عورتوں پر ہاتھ کیسے اٹھا لیتے ہیں؟ سارے مرد نہیں، بیوی نے اطمینان سے کہا۔ صرف وہ مرد جو عورتوں سے بھی کمزور ہوتے ہیں۔ طاہر کا یہ کالم پڑھ کر خواتین پر تشدد کی روک تھام کے قانون کی مخالفت کرنے والے مولوی کی نفسیات سمجھ آ جاتی ہے۔
مصنف نے اپنی مادر علمی جامعہ ملیہ کالج کے بارے میں ایک کالم اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جامعہ ملیہ کالج ملیر کا شمار کراچی کے بہترین کالجوں میں ہوتا تھا۔ جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو بھٹو مرحوم کا دورِ حکومت شروع ہو چکا تھا۔ کالج کی فضا سرخ اور سبز نعروں سے گونج رہی تھی۔ اساتذہ و طلبہ دائیں اور بائیں بازو میں بٹے ہوئے تھے۔
ایک کا مرکز و محور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تھا تو دوسرے کا ماسکو اور بیجنگ۔ کالج میں بائیں بازو کے طلبا پروفیسر اطلاق اختر حمیدی سے فکری رہنمائی لیتے تھے تو دائیں بازو کے طلبا رہنمائی اور مشاورت کے لیے پروفیسر حسینی صاحب اور پروفیسر غوری صاحب سے رابطہ قائم کرتے تھے۔ حسینی صاحب کا انداز تربیت مثبت اور تعمیری تھا۔
باقاعدگی سے کلاسیں لیتے، کوئی طالب علم سوال کرتا تو تحمل اور دانائی سے جواب دیتے۔ طالب علم گھر پر پہنچتا تو تواضع کرتے، پھر وہ پروفیسر سے اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہیں اور یوں زندگی کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ سر آپ کی شفقتیں میں نہیں بھولا لیکن حاضر ہونے کی توفیق نہیں ہوئی، اب انشاء اﷲ آتا رہوں گا۔ استاد محترم نے سر اٹھا کر ایسے دیکھا جیسے وعدے کا یقین نہ آیا ہو۔ پروفیسر حسینی اب دنیا میں نہیں، اس مصروف دنیا میں پرانے اساتذہ سے رابطہ رکھنا خاصا مشکل کام ہے مگر طاہر مسعود صاحب نے اپنے اساتذہ کو یاد کر کے طالب علموں کو ایک راہ یاد دلائی۔
ڈاکٹر طاہر مسعود نے ''ایک معصوم بات چیت'' کے عنوان سے دو بچیوں کی بات چیت کا اقتباس درج کیا۔ یہ بات چیت یہاں سے شروع ہوتی ہے، جب رمیضا نے اپنی دوست ماریہ سے کہا کہ ماریہ دیکھو میرے ابو میرے لیے کیسا بکرا لائے ہیں مگر تمہارا بکرا کہاں ہے؟ میرے ابو کہتے ہیں کہ ہمارا بکرا جنت سے آئے گا۔ جنت سے رمیضا حیران ہوئی، مگر جنت کہاں ہے؟ جنت آسمان پہ ہے۔ ابو بتاتے ہیں کہ وہ بہت حسین جگہ ہے، میرا بکرا وہیں ہے اور جب ہم قیامت کے دن وہاں جائیں گے تو وہ ہمیں ملے گا۔
ماریہ نے اطمینان سے کہا۔ ڈاکٹر طاہر مسعود بنیادی طور پر مذہبی آدمی رہے ہیں مگر اس کالم میں انھوں نے عیدالاضحیٰ کے طبقاتی فرق کو واضح کیا ہے۔ غریب لوگ عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی قربانی نہیں کر پاتے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے ''جب قیامت آئے گی'' کے عنوان سے کالم میں امریکا سے درآمد کی گئی گڑیوں کے مسلمان کرنے کا ذکر کیا ہے کہ گڑیا ان کی بیٹیوں کے لیے آئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا وعظ سن کر بچیوں نے ان گڑیوں کو پاکستانی لباس پہنا دیے۔
پھر ان کے مسلمان ہونے کی تقریب منعقد ہوئی۔ ایک مولوی صاحب نے اس موقع پر اپنے خطبہ میں فرمایا کہ ہماری تباہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اس مقصد کو بھول گئے ہیں، ہم اپنے دین کو دوسرے تک پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے کو بے دین کہتے اور ایک دوسرے کو لعن طن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اب میرے گھر میں پانچ مسلمان گڑیاں رہتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جس دن قیامت آئے گی آسمان پھٹ پڑے گا، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے اور اﷲ عزوجل سے ارض کو قوی ہیکل فرشتے اٹھائے اتریں گے تو یہ پانچ گڑیاں بخش دی جائیں گی اور ان کی گواہی پر میری دونوں بچیاں بھی داخل جنت کی جائیں گی۔ ڈاکٹر صاحب نے یوں مسلمانوں کو کافروں کو مسلمان کرنے کی ہدایت پر مبنی ایک پراثر کالم تحریر کیا۔ یہ تحریر 16 جون 1998ء کی ہے۔
18 سال میں دنیا بھر میں رونما ہونے والے واقعات کی بنا پر ڈاکٹر طاہر مسعود کے خیالات میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ شاید اب وہ بھی اس حقیقت سے اتفاق کرتے ہیں کہ لوگوں کو مذہب کی تبدیلی سے دنیا کے مسائل حل نہیں ہوتے اور مسلمانوں کے زوال کی وجہ تعلیم اور سائنس کے میدان میں پیچھے رہ جانا ہے۔ اگر وہ دوبارہ اس کالم کا جائزہ لیتے تو شاید اس کتاب کی زینت نہ بنتا۔ میں نے اور راقم الحروف کی اہلیہ نے اس کتاب کو ایک ہی نشست میں پڑھا ہے۔ ہر کالم میں آسان زبان اور خوبصورت جملوں کے ساتھ ایک سبق موجود ہے۔ اس آرٹیکل میں چند کالموں کا حوالہ دیا گیا ہے، باقی کالم بھی دلچسپ اور سبق آموز ہیں۔ یہ کتاب سنگ میل پبلکیشنز نے شایع کی ہے۔ اس کی قیمت 695 روپے ہے۔ کتابوں کے قارئین کے لیے یہ ایک خوبصورت تحفہ ہے۔