7 ارب انسان بے بس کیوں ہیں

مسئلہ نہ صرف پاکستان کے 20 کروڑ عوام کا ہے نہ ہندوستان کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ انسانوں کا ہے


Zaheer Akhter Bedari March 19, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: مسئلہ نہ صرف پاکستان کے 20 کروڑ عوام کا ہے نہ ہندوستان کے ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ انسانوں کا ہے، بلکہ مسئلہ دنیا کے 7 ارب عوام کا ہے جو صدیوں سے غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں۔

جب ہمارے علم میں یہ بات آتی ہے کہ اس معاشی ناانصافی اور طبقاتی استحصال کرنے والوں کی تعداد دو فیصد سے کم ہے تو ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 98 فیصد عوام دو فیصد خواص کے مظالم کیوں سہہ رہے ہیں۔ اس کا جواب اہل علم، اہل خرد کی سمجھ میں تو آجاتا ہے لیکن دنیا کے 7 ارب انسان اس سوال کے جواب میں ناواقف ہیں اور جب تک 7 ارب عوام اپنے استحصال کے اسرار و رموز سے واقف نہیں ہوں گے طبقاتی لوٹ مار اور معاشی ناانصافیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ایسی گمبھیر صورتحال میں اہل علم اور اہل خرد ہی وہ طبقات ہیں جو عوام میں طبقاتی بیداری پیدا کرکے انھیں اس ظلم کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار کریں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں میں حصول دولت کی جو اندھی دوڑ لگادی ہے اس دوڑ میں اہل علم، اہل خرد اور اہل قلم کا ایک بڑا حصہ اپنے ضمیر کی قبر کو پھلانگ کر اس طرح شامل ہوگیا ہے کہ عوام میں طبقاتی بیداری اور طبقاتی استحصال کے خلاف مزاحمت کمزور پڑ گئی ہے۔

لیکن اہل قلم، اہل خرد، اہل علم کا وہ حصہ جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی اس ظلم کے خلاف جدوجہد بنالیا ہے وہ اپنے اس متبرک مشن میں جٹا ہوا ہے اور اسی کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ملک کے ذمے دار طبقات بھی آج اس استحصال اور اشرافیائی لوٹ مار کے خلاف باآواز بلند احتجاجی رویے اپنا رہے ہیں۔

میڈیا آج کے دور کا ایک ایسا موثر ذریعہ ہے جو اس طبقاتی استحصال کے خلاف عوام میں بیداری اور مزاحمت کی ترغیب فراہم کرسکتا ہے اور میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا حکمران طبقات کی بے مہار کرپشن کے اسکینڈلوں کو عوام تک پہنچا کر ان میں مزاحمت کے جذبات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کررہا ہے۔

لیکن میڈیا کی مجبوری یہ ہے کہ وہ اشرافیہ کے ترقیاتی فراڈ کی خبریں بھی عوام تک پہنچانے پر مجبور ہے، جو تقریروں، بیانات، پریس کانفرنسوں وغیرہ کی شکل میں عوام کو کنفیوژ اور گمراہ کرنے کے لیے میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی جاتی ہیں، خاص طور پر ٹاک شوز کی شکل میں اشرافیہ کے ایجنٹ بڑے بڑے ترقیاتی پروجیکٹس کے نام جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں اس سے عوام کو گمراہ کرنے اور انھیں کنفیوژ کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ہم نے اس حقیقت کی نشان دہی کردی ہے کہ دنیا کے 7 ارب انسانوں کا طبقاتی استحصال کرنے والوں کی تعداد عوام کی تعداد کے مقابلے میں آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ پھر اتنی چھوٹی سی اقلیت 90 فیصد سے زیادہ اکثریت پر حاوی ہوکر ان کا استحصال کس طرح کر رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب 90 فیصد اکثریت کو معلوم ہونا چاہیے کیونکہ عوام جب تک استحصال کے اس شاطرانہ میکنزم سے واقف نہیں ہوں گے وہ استحصالی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کیسے کرسکتے ہیں؟ بدقسمتی یہ ہے کہ اس میکنزم کو سرمایہ دارانہ نظام کے ماہرین نے اس قدر پراسرار اور پیچیدہ بنا دیا ہے کہ عوام اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر ریاستی مشینری کے ایک حصے انتظامیہ کو لے لیں، انتظامیہ میں پولیس، رینجرز اور کئی دوسری قسم کی سیکیورٹی فورسز شامل ہیں، جن کا بظاہر کام ملک میں امن و امان کا قیام ہوتا ہے، یہ کام انتہائی اہم اور ضروری بھی ہے لیکن ہمارے انتظامی نظام میں انتظامیہ کی حیثیت چھری کی اور عوام کی حیثیت خربوزے کی سی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے اور بالکل بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر گرے نقصان خربوزے یعنی عوام کا ہی ہوتا ہے۔

اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ کسی ملز یا کسی کارخانے کے مزدور اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے بات چیت کے تمام پرامن ذرایع استعمال کرنے میں ناکامی کے بعد جب ہڑتال کی طرف آتے ہیں تو مالکان کا خیر خواہ محکمہ لیبر ڈپارٹمنٹ عام طور پر مزدوروں کی جائز ہڑتال کو ناجائز قرار دیتا ہے اور ہڑتالی مزدوروں کے خلاف پولیس اور دوسری سیکیورٹی فورسز کو بہیمانہ کارروائیوں کے مواقع فراہم کرتا ہے، یوں مزدوروں کی جائز ہڑتال کو طاقت کے ناجائز ہتھکنڈوں سے دبادیا جاتا ہے۔

اس خطرناک میکنزم کا ایک اور کارنامہ دیکھیے دنیا کے 7 ارب انسانوں کو ملک ، قوم، رنگ، نسل، زبان، قومیت اور مذہب میں تقسیم کرکے انھیں ایک دوسرے سے اس طرح برسر پیکار کردیا ہے کہ وہ اپنی طبقاتی تقسیم سے ہونے والے مظالم کو پس پشت ڈال کر مذہب، ملک، قوم، رنگ، نسل، زبان کے تعصبات میں الجھ جاتے ہیں، حالانکہ غریب کا تعلق خواہ کسی مذہب، کسی ملک، کسی قوم کسی رنگ و نسل اور قومیت سے ہو ریاستی مشینری کے مظالم کا یکساں شکار رہتے ہیں۔

کسی ملک کی ریاستی مشینری کسی غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کو مذہب قوم ملک و ملت کے حوالے سے کوئی رعایت نہیں دیتی، ایک مسلمان مزدور کو اپنے حقوق کی جدوجہد میں ریاستی مشینری کے مظالم کا جس طرح سامنا کرنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے مزدور کو بھی ریاستی مشینری کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن تقسیم کے ان متفرق حوالوں سے ان کی اجتماعی طاقت پاش پاش ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ طبقاتی مظالم طبقاتی استحصال کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ پاکستان میں عوام کی تقسیم کے حوالے نسبتاً زیادہ ہیں یہاں پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان، مہاجر، شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی کی اضافی تقسیم موجود ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عوام کی اجتماعی طاقت ٹکڑوں میں بٹ کر کمزور ہوگئی ہے۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں بلکہ منظم اور منصوبہ بند پلان کا حصہ ہے۔

ایک غریب اپنا گھر بنانے کے لیے ایک لاکھ کا قرضہ لیتا ہے تو اسے بھاری سود دینا پڑتا ہے اور اگر وہ قرض کی قسطیں پابندی سے ادا نہ کرے تو اس کا گھر نیلام کردیا جاتا ہے جب کہ اشرافیہ کے لوگ کروڑوں اربوں کا قرض لیتے ہیں اور معاف کرالیتے ہیں۔ بینکوں سے اشرافیہ کے محترم لوگوں نے ڈھائی کھرب کا قرض لے کر معاف کرالیا ہے یہ کیس عشروں سے عدلیہ میں زیر التوا ہے۔ ایسا کیوں؟ یہی ایسے سوال ہیں جن کے جواب سے عوام کی آگہی ضروری ہے کیونکہ کوئی مظلوم ظلم کے خلاف اس وقت تک مزاحمت نہیں کرتا جب تک ظالم سے واقف نہیں ہوتا۔ اور یہی کام اہل قلم، اہل دانش کا ہے کہ وہ عوام کو ان کے ظالموں اور ان کے داؤ پیچ سے واقف کراتے رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں