تدریسِ اردو غیر سنجیدہ رویہ کیوں۔۔۔

امتیازی نمبروں کے حامل طلباء بھی اب قومی زبان میں تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار سے معذور نظر آتے ہیں۔


Irfan Shah November 10, 2012
طلباء میں قومی زبان لکھنے اور سمجھنے کی استعداد میں کمی لمحۂ فکریہ ہے۔ فوٹو : فائل

صوبۂ سندھ کے تعلیمی منظر نامے پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ پرائمری سے جامعات کی سطح تک عمومی صورت حال کس مستقبل کی نشان دہی کر رہی ہے۔

صرف نئے اداروں کے قیام سے تعلیم کا معیار بلند نہیں کہا جا سکتا، جب تک کہ ان میں تدریسی عوامل موجود نہ ہوں۔ تعلم اور تعلیم میں بنیادی عنصر ''زبان'' ہے۔ مادری زبان ابتدائی مدارج میں یقیناً مرکزی حیثیت رکھتی ہے، لیکن ثانوی اور اعلیٰ سطح پر ''قومی زبان'' کی بندش دور رس اور اجتماعی فکر کے حامل نتائج دیتی ہے۔ تعلیم کے دیگر وظائف میں مقصد معاشرتی طبقات کا خاتمہ بھی ہے۔ ویسے بھی ذہانت اور لیاقت کا تعلق فہم سے ہے اور مفاہیم کی تشریح و تعبیر ''قومی زبان'' سے بہتر ہو ہی نہیں سکتی، لیکن بدقسمتی یہ ہے ارباب حل و عقد اور منصوبہ سازوں کا رویہ تعلیم کی روح ''زبان'' کے بارے میں نادان دوست جیسا ہے۔

تاریخی پس منظر رکھنے والے سندھ مدرسۃ الاسلام جسے بابائے قوم حضرت قائداعظم سے بھی نسبت ہے، کو حال ہی میں ''جامعہ'' کا درجہ دیا جانا خوش آیند ہے، لیکن اس جامعہ میں دیگر شعبے تو قائم کیے گئے، اور اساتذہ کا تقرر بھی ہوا، تاہم صد افسوس کہ قائداعظمؒ سے منسوب اس جامعہ میں ''شعبۂ اردو'' کا کوئی وجود ہی نہیں، یقیناً اس کی فوری طور پر تلافی ہونا ضروری ہے۔ خیر یہ تو ضمناً بات تھی، اصل مسئلہ تو قومی زبان میں تعلیمی اور تدریسی معاملات ہیں، جو گزرتے وقت کے ساتھ گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ امتیازی نمبروں کے حامل طلباء بھی اب قومی زبان میں تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار سے معذور نظر آتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہماری ترجیحات میں تعلیم کو کبھی مرکزی اہمیت حاصل نہیں ہو سکی، جس کے اسباب پر بحث اس وقت ممکن نہیں، لیکن سندھ میں تدریس اردو سے متعلق اعلیٰ سطح پر جو رویہ روا رکھا گیا ہے، اس سے صرفِ نظر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 70 کی دہائی تک بلکہ 80 کے آخر تک ثانوی مدارس میں اورینٹل ٹیچرز (O.T) کی باقاعدہ اسامی موجود تھی، جس کے تحت تربیت یافتہ اور مضمون کے ماہر استاد، عربی، فارسی اور اردو کی تدریس کرتے تھے، رفتہ رفتہ یہ اسامی ختم کر دی گئی۔

او ایس ایل ٹی ''سندھی لینگویج ٹیچر'' کیڈر کی اسامی ثانوی سے لے کر اعلیٰ ثانوی سطح تک قائم کی گئی، جو ایک احسن اقدام تھا کہ طلباء اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرکے صلاحیتوں کو ابھار سکیں اور صوبائی زبان کو بھی اس کا مقام مل سکے، لیکن دوسری طرف یہ بھی لازم تھا کہ پورے سندھ میں عمومی اور خصوصاً سندھی میڈیم اسکولوں میں قومی زبان کی تدریس کے لیے یو ایل ٹی، اردو لینگویج ٹیچر کا کیڈر بھی متعارف کرایا جاتا تاکہ وہ طلباء جن کی مادری زبان اردو نہیں، وہ قومی زبان میں اپنی علمی استعداد کو بڑھا کر لسانی، ثقافتی اور سماجی روابط کو پوری طرح سمجھتے۔

عام کلیہ ہے کہ جس کی طلب ہو اسی کی وقعت ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حکومت نے ممکنہ طور اسکولوں کی حالت زار اور اساتذہ کے تعلیمی معیار و قابلیت کو جانچنے کے لیے کئی تربیتی ادارے اور منصوبے نیک نیتی سے شروع کر رکھے ہیں اور ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کا کسی بھی نجی ادارے کے اساتذہ سے کم معیار نہیں، جب تک قومی زبان کو پہل کرتے ہوئے حکومت، سندھ پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحانات کی زبان قرار نہیں دیتی، اس کی وقعت میں اضافہ نہیں ہو گا۔

پچھلے چند سال کے دوران ثانوی اور اعلیٰ ثانوی، بی اے، بی ایس سی کے امتحانات میں اگر ہم ''اردو'' میں خصوصاً اُن طلباء کے نمبروں کا جائزہ لیں، جنھوں نے اچھے درجات میں کام یابی حاصل کی ہے، تو افسوس ہوتا ہے کہ 80 فی صد سے بھی کم طلباء 60 اور 70نمبرز سے زیادہ نہیں لے سکے۔ اساتذہ بھی اس معاملے میں مکمل طور پر بری الذمہ نہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ جامعہ کراچی نے الحاق شدہ کالجز کے بی کام کے نصاب سے اردو لازمی کے پرچے کو نامعلوم وجوہ کی بناء پر نکال دیا۔ حیران کن امر ہے کہ بغیر سنڈیکٹ اور اکیڈمک کونسل کی منظوری کے یہ کیسے ہوگیا۔

کیا شیخ الجامعہ کراچی اور رئیس کلیہ فنون اس سلسلے میں کوئی وضاحت فرما سکتے ہیں۔ اس تشویش ناک صورت حال پر بزم اساتذہ اردو (کالجز) کراچی کی سیکریٹری پروفیسر فرزانہ خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ کالج اساتذہ متعدد بار چیئرمین اعلیٰ ثانوی بورڈ، شیخ الجامعہ، رئیس کلیہ فنون اور صدر شعبۂ اردو کی توجہ مبذول کروا رہے ہیں اور حال ہی میں ملاقاتوں کے ساتھ تحریری معروضات پیش کی ہیں۔ انھوں نے متفکرانہ لہجہ میں کہا کہ جب تک امتحانی معاملات میں جامعہ کراچی، کالج اساتذہ کو شامل نہیں کرے گی، خصوصاً ڈگری کے امتحانی پرچہ جات، کلی طور پر کالجز کے اساتذہ کو نہیں دیے جائیں گے۔

امتحانی کاپیوں کی جانچ حاضر سروس اساتذہ اور نتائج دیانت سے تشکیل نہیں دیے جائیں گے اور شعبۂ اردو جامعہ کراچی کی مجلس مطالعات (کورس کمیٹی) میں نمایندگی قانون کے مطابق پانچ اراکین کی نہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ پرچہ جات طلباء کی ذہنی استعداد کے مطابق ترتیب پائیں۔ کالج اساتذہ اپنے طلباء کے تخلیقی ہنر اور علمی استعداد سے براہ راست واقفیت رکھتے ہیں، جب کہ پچھلے کئی سال سے جامعہ کراچی کا شعبہ اردو، کالج اساتذہ کو ان کے حق سے محروم کیے ہوئے ہے۔ ہر سال تمام اہم پرچہ جات شعبے کے اساتذہ خود تربیت دیتے ہیں، جب کہ جامعہ کے قوانین کے مطابق سالانہ طریقۂ امتحان کے تحت الحاق شدہ تعلیمی اداروں کے پرچہ جات انہی کے اساتذہ سے بنوائے اور جانچ کروائے جائیں گے۔

اسی طرح اعلیٰ ثانوی بورڈ کے معاملات ہیں۔ امتحانی کاپیوں کی جانچ میں من پسند افراد کو معاون ممتحن کے طور پر شامل کر لیا جاتا ہے اور اس کا خمیازہ بے چارے کو طلباء زندگی بھر بھگتنا پڑتا ہے۔ بزم اساتذہ اردو (کالجز) کی صدر و پرنسپل گورنمنٹ ڈگری گرلز کالج بفرزون، پروفیسر رضیہ حکمت، جوائنٹ سیکریٹری، پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد خان، نائب صدر پروفیسر کرن سنگھ، معتمد نشر واشاعت پروفیسر صفدر علی خان، پروفیسر فرح سید، پروفیسر نسرین زہرا نے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ اور کالجز کا نصاب الگ ہونا چاہیے۔

اعلیٰ سطح پر ''زبان'' کے مسائل اور ساخت، اس کے لسانی روابط اور ڈگری کالجز میں اردو ادب سے طلباء کو آشنا کرانا چاہیے۔ جامد نصاب اور اس کے متعین جوابات، جو نوٹس اور ٹیوشن سینٹر مافیا نے طلباء کے ہاتھوں میں پہنچا دیے ہیں، اس نے دماغ سوزی کی مشق سے طلباء کو عاری کر دیا ہے۔ زبان میں ''رٹّا'' لگانے سے نہیں سمجھنے سے مہارت اور دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ پروفیسر فرزانہ خان نے زور دے کر کہا کہ جب تک عصری تقاضوں کے مطابق ازسر نو اردو کے نصاب کو مرتب نہیں کیا جاتا اس وقت تک امتحان کے ذریعے طلباء کی اصل استعداد کی جانچ ممکن نہیں، اور نہ ہی قومی زبان کی تدریس سے اعلیٰ تعلیمی مقاصد کا حصول ممکن ہے۔

گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان، جو صوبے کی جامعات کے چانسلر بھی ہیں اور صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق ماہرین تعلیم، اساتذہ اردو زبان، ماہرین سماجیات اور اہل دانش پر مشتمل آزاد ادارہ تشکیل دیں، جو قومی زبان کے نصاب اور اس کی جدید انداز میں تدریس کے مواقع پیدا کرے اور مختلف اقدامات کرے، تجاویز اور ان پر عمل درآمد کے نتائج کو تسلسل کے ساتھ ہر سال عام طلباء، اساتذہ اور منصوبہ سازوں کے مطالعے کے لیے رپورٹ کی صورت میں شایع کرے تاکہ اس ضمن میں وقت کے ساتھ مثبت تبدیلی آسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں