پانی سے زندگی نہیں پانی ہی زندگی ہے

پانی کو محفوظ کرنے کا یہ طریقہ انتہائی سستا اور سادہ ہے کیونکہ دھاتی جالیاں بنانا زیادہ پیچیدہ اور مشکل عمل ہرگز نہیں۔


ریحان نقوی March 22, 2016
اگر سنجیدگی سے پانی کے حصول کے آسان طریقوں پر توجہ دی جائے تو تھر میں پانی کی فراہمی فی زمانہ اتنی بھی مشکل نہیں ہے۔

پانی انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پانی کے بغیر زمین پر انسانی زندگی کا کوئی تصور تک نہیں۔ انسانوں کی زندگی سے لیکر جانوروں، پھولوں حتیٰ کہ ہر جاندار کی زندگی کا دارومدار پانی پر ہی ہے۔ سائنس کے مطابق پانی زمین پر کیسے آیا یہ مسئلہ اب تک مکمل طور پر حل نہیں ہوسکا ہے۔ اکثر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چونکہ شہابیے اور سیارچے اپنی سطح پر برف کی ایک بڑی مقدار رکھتے ہیں اسی لئے لاکھوں سال پہلے ممکنہ طور پر وہ زمین سے ٹکرائیں ہوں گے اور انہی سے پانی زمین پر منتقل ہوا ہوگاـ

زمین پر پانی کا تناسب 71 فیصد ہے لیکن اس میں سے صرف ڈھائی فیصد پانی ہی صاف اور تازہ ہے جو کہ پینے کہ قابل ہے اور اس میں سے صرف ایک فیصد تک باآسانی سے قابل رسائی ہے۔ جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی جارہی ہے قابلِ استعمال پانی تک رسائی بھی اسی تناسب سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ صدی میں جس طرح آبادی کا اضافہ ہوا اس لحاظ سے 2025ء تک 1 ارب 80 کروڑ لوگوں تک پانی کی رسائی کافی حد تک قلیل ہوجائے گی۔ جبکہ 780 ملین لوگوں کی صاف پانی تک رسائی ممکن نہیں اور سالانہ 40 سے 80 لاکھ لوگ پانی کی عدم دستیابی اور خراب پانی کے نتیجہ میں ہونے والی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں بھی ایسےعلاقے بکثرت موجود ہیں، جہاں پانی کی دستیابی ایک سنگین مسئلہ ہے، اور ان تمام میں تھر سب سے نمایاں علاقہ ہے، جہاں پانی کی عدم دستیابی اور غیر شفاف پانی کے استعمال کی وجہ سے آئے روز اموات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں کے غریب عوام کا حال یہ ہے کہ پانی جمع کرنے پر ان کے روز قیمتی 5 سے 6 گھنٹے صرف ہوجاتے ہیں اور اگر حکومت تھوڑی سنجیدگی سے پانی کے حصول کے آسان اور سادہ طریقوں پر توجہ دے تو تھر میں پانی کی دستیابی فی زمانہ اتنی بھی مشکل نہیں ہے۔

پاکستان کونسل فار ریسرچ آن واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبیلیو آر) کے مطابق تھر میں سالانہ ایک ٹریلین لیٹر بارش ہوتی ہے جو کہ 3 سال تک تھر کے رہائشیوں کی آبی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے، لیکن بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کی سہولیات ناکافی ہونے کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ جبکہ سرحد پار بھارت میں رین ہارویسٹنگ (Rain Harvesting) پراجیکٹس کے ذریعے پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے، جو ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرتا ہے، لیکن کیا کیا جائے ہمارے حکومت کا جس کی ترجیحات ہی نرالی ہیں، جو بنیادی ضروریات سے توجہ ہٹائے میٹرو اور اورنج لائن ٹرین اور اس جیسے دوسرے کثیر لاگت والے منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کرنے میں مصروف ہے اور پانی کی فراہمی جیسی بنیادی ضرورت سے نظریں چرائے ہے۔

دنیا بھر میں جہاں جہاں پانی بہت کم مقدار میں ہے وہاں سستے طریقوں سے پانی محفوظ اور حاصل کرنے کے طریقوں اور منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے جس میں ایک طریقہ دھاتی ترپال کے ذریعے دھند کو جمع کرکے اس سے پانی کشید کرنا بھی ہے۔ پانی کو محفوظ کرنے کا یہ طریقہ انتہائی سستا اور سادہ ہے کیونکہ دھاتی جالیاں بنانا زیادہ پیچیدہ اور مشکل نہیں۔ اس عمل میں دھاتی جالیاں Fog Collectors یعنی دھند جمع کرنے کے آلہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ جن میں ایک ترپال (Canvas) لگائی جاتی ہے جوکہ دھند کو فضا سے کشید کرتے ہیں اور جب کثیف دھند کی کثیر مقدار جمع ہوجاتی ہے تو یہ گاڑھی ہو کر پانی کہ قطروں میں تبدیل ہوجاتی ہے جو انسانی ضروریات کے لئے قابل استعمال ہے۔

دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح اگر پاکستان میں بھی اس منصوبہ پر سنجیدگی سے دھیان دیا جائے تو آسانی سے تھر جیسے علاقوں میں پانی کی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے اور اس پر اگر عمل درآمد ہوجائے تو تھر کے رہائشی بھی روز پانچ پانچ گھنٹے پانی اکٹھا کرنے اور صاف پانی دستیاب نہ ہونے پر گدلا پانی پی کر مختلف بیماریوں کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ پانی کے ذخیروں کو محفوظ بنانا اور اس کی فراہمی ہر شہری تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری کے ساتھ وقت کا تقاضہ اور دانشمندی بھی ہے، اگر اس پر اب عمل نہیں کیا گیا تو آئندہ سالوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہونے سے صورتحال مزید تشویش ناک ہوسکتی ہے۔

[poll id="1028"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں