میری بزم سے کشادہ میری غم سرائے رکھنا

خالد احمد محض ایک بڑے شاعر و لکھاری نہیں بلکہ اس فن میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔


جاہد احمد March 19, 2016
آج بھی خالد احمد کے ذکر پر ان کے چاہنے والوں کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اب شہر میں طبعی طور پر نہ ویسی محبت دینے والا بچا ہے اور ناں اپنے پاس بٹھا کر باعزت طور پر تربیت دینے والا۔

خالد احمد کے لئے لکھنے کی کیا اہمیت تھی اس کا حقیقی اندازہ مجھے ان کی زندگی کے آخری چند ماہ میں ہوا۔ بحیثیت اُن کا بیٹا مجھے لگتا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ شاعری کرنا اور لکھنا ان کے لئے کیا معنی رکھتا ہے، لیکن کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں مکمل آگاہی نہیں رکھتا تھا۔

ابھی خالد احمد کے جسم میں پھیپھڑوں کے سرطان جیسے موذی مرض کی تشخیص نہیں ہوئی تھی، تکلیف بڑھ جانے کے سبب چند دن اسپتال میں گزارنے کے باعث طبیعت میں پیدا ہوئی بہتری محض عارضی ثابت ہوئی۔ ابتدائی طور پر ڈاکٹروں نے طبعیت کی خرابی کو دل کا عارضہ قرار دیا تھا جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔ ڈاکٹروں کی جانب سے ایک طرف بیماری کی درست تشخیص کے مقصد سے روزانہ کی بنیاد پر مختلف اقسام کے تکلیف دہ ٹیسٹ کئے جا رہے تھے تو دوسری طرف تکلیف ہر گزرتے لمحے زور پکڑتی چلی جا رہی تھی۔ برداشت کے بند کمزور ہو چلے تھے۔ اسی کھینچا تانی میں ایک دن طبیعت زیادہ گبھرائی تو دل کے اسی ڈاکٹر کے پاس چل دیئے جو ابو کا علاج اسپتال میں کرچکا تھا اور صورتحال سے کسی حد تک آگاہ تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا، خالد صاحب طبیعت کیسی ہے، کیا ہوگیا؟ ابو نے جواب دیا،
''ڈاکٹر صاحب! بہت تکلیف میں ہوں، 28 دن ہوگئے، کچھ لکھ نہیں سکا، سوچ نہیں پا رہا''۔

میں جو کونے میں کھڑا سر جھکائے ابو اور ڈاکٹر کی بات چیت سن رہا تھا، ایسا غیر متوقع جواب سن کر سیدھا ہوگیا، کن اکھیوں سے ابو کو دیکھا اور دماغ میں جھماکا ہوا، یہ ابو کیا بات کر رہے ہیں؟ وہ اتنی سخت تکلیف میں ہیں، بیماری کی تشخیص نہیں ہو پا رہی، روزانہ اتنے سارے ٹیسٹ کروائے جاررہے ہیں، سوئیاں لگوا لگوا کر بازو اور جسم چھدے پڑے ہیں، وہ اس قدر کمزور ہوگئے ہیں اور یہ اپنی تکلیف کیا بتا رہے ہیں کہ 28 دن ہوگئے، کچھ لکھ نہیں سکا، سوچ نہیں پا رہا، کیا ہوگیا ہے ابو کو؟ تبھی دماغ منمنایا، ابو میرے ابو تو ہیں لیکن وہ خالد احمد بھی تو ہیں۔

یہ تخلیق کار خالد احمد نے اپنی تکلیف بیان کی ہے جس کی زندگی لکھنا، شعر کہنا اور تخلیق میں محو رہنا ہے۔ ایسے نابغہ روزگار شخص کے لئے تخلیق نہ کر پانا زندگی تھم جانے کے مانند ہے۔ ان کی زندگی 28 دن سے تھمی پڑی ہے۔ وہ واقعی تکلیف میں ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں ان کی اصل تکلیف کو سمجھ پایا۔ اُس لمحے ان کے چہرے پر تکلیف و کرب کے جو تاثرات دیکھے اور آواز میں جو ارتعاش محسوس کیا، وہ میرے ذہن پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوگئے۔ اس ایک لمحے کی سرگزشت مجھے ''ابو'' کو بطور ''خالد احمد'' سمجھا گئی۔

خالد احمد کے لئے ہر قسم کی جسمانی تکلیف قابلِ برداشت تھی۔ اگلے چند دنوں میں پھیپھڑوں کے سرطان کی تشخیص و تصدیق ہوگئی۔ جس دن انہیں اپنی جان لیوا بیماری کے بارے علم ہوا اس کے بعد سے 19 مارچ رات 12 بج کر 20 منٹ تک جب انہوں نے آخری ہچکی لی، نہ کبھی اپنی بیماری کے بارے میں کوئی شکایت زبان پر لائے اور نہ کبھی کسی بھی طرح کی جسمانی تکلیف کا اظہار کیا۔ اپنی تمام تر توانائی یکجا کرکے بیماری کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ آخری ایک ماہ میں ریڈی ایشن جیسے تکلیف دہ مرحلے سے بھی گزرے، لکھنا بھی شروع کردیا اور اپنے شعری مجموعے ''نم گرفتہ'' کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد بھی کیا۔ ان کا آخری کالم وفات سے دو دن پہلے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا۔

علم و ادب اور خصوصاً شاعری سے اس درجہ کی وابستگی ہی کسی شخص کو اس قابل کرسکتی ہے کہ وہ اپنا گھر چلانے کے لئے روز سویرے دفتر بھی جائے، شہر میں شام کے وقت بلاناغہ ادبی محفلیں بھی سجا کر رکھے، نوجوان لکھاریوں کی بے لوث تربیت بھی کرے، انہیں عزت اور محبت سے بھی نوازے، راتوں کو جاگ جاگ کر شاعری کرے، پڑھے بھی، لکھے بھی، ڈرامے بھی تخلیق کرے اور ریڈیو کے لئے کام بھی کرے۔ گیت بنائے، مشاعرے پڑھے، کالم لکھے اور پھر اپنے گھر والوں کو وقت بھی دے۔ یہ کسی ایک دن کا احوال نہیں بلکہ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کے حامل خالد احمد کی زندگی کے شب و روز کا معمول تھا۔

آج بھی خالد احمد کے ذکر پر ان کے چاہنے والوں کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ اب شہر میں طبعی طور پر نہ ویسی محبت دینے والا بچا ہے اور ناں اپنے پاس بٹھا کر باعزت طور پر تربیت دینے والا۔ خالد احمد محض ایک بڑے شاعر و لکھاری نہیں بلکہ اس فن میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ آج خالد احمد زندہ ہیں، اپنی شاعری میں، اپنے لکھے ہوئے الفاظ میں، اسی لئے آج کی تاریخ میں بھی خالد احمد کی شخصیت اور فن پر پی ایچ ڈی مقالے لکھے جا رہے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا تھا کہ خالد احمد ایک بڑا شاعر ہے۔ کئی جگہ وہ اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ بڑے بڑوں کو اپنی پگڑیاں سنبھالنا پڑتی ہیں۔ حمید نسیم صاحب نے خالد احمد کو آج کے دور کا ولی دکنی ٹھہرایا، جبکہ انتظار حسین صاحب نے کہا کہ ولی دکنی نہیں بھی ہوں تو کیا مضائقہ ہے بہرحال وہ خالد احمد تو ہے۔ یہ ان کی محبت اور سیکھ ہی ہے کہ ادارہ بیاض ہر ماہ عمران منظور صاحب کی ادارت میں باقاعدگی سے ماہنامہ بیاض شائع کرتا ہے۔ بیاض ہی کے زیرِ انتظام 2014 میں خالد احمد ایوارڈ کا اجراء کیا گیا جو ہر سال شاعر اور لکھنے والوں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی میں مشغولِ عمل ہے۔ خالد احمد نے کہا تھا،
کبھی پھول ڈال جانا کبھی دھول ڈال جانا
میری بزم سے کشادہ میری غم سرائے رکھنا

خالد احمد کے تیسرے یوم وفات پر محبانِ خالد ان کی زندگی کو یاد کرتے ہیں اور انہی کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کا اعادہ کرتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں