عامر سہیل کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ
تشنگی کا پہلو دور دور تک نظر نہیں آتا ہے، کتاب کو 10 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے
تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب مجھے عامر سہیل کا ایم فل کا مقالہ کتابی صورت میں بعنوان ''حیدر قریشی کا ادبی سفر'' موصول ہوا، یہ بات بے حد خوش آیند اور اطمینان بخش ہے کہ عامر سہیل نے بے حد محنت، لگن اور جہد مسلسل کے نتیجے میں حیدر قریشی کے حوالے سے ایک بھرپور تحریر خلوصِ دل کے ساتھ لکھی، مذکورہ کتاب حیدر قریشی کے تخلیقی کاموں کا مکمل طور پر احاطہ کرتی ہے۔
تشنگی کا پہلو دور دور تک نظر نہیں آتا ہے، کتاب کو 10 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ضخامت کے اعتبار سے 320 صفحات پر مشتمل ہے۔ مقدمہ ڈاکٹر شیخ عقیل احمدنے لکھا ہے جوکہ دہلی یو نیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، ڈاکٹر عقیل احمد نے مقالہ نگار عامر سہیل اور مصنف و نقاد حیدر قریشی کی نگارشات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ حیدر قریشی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، اردو مراکز سے دور جرمنی میں رہ کر بھی وہ ادبی دنیا میں اپنی موجودگی کا احساس گزشتہ چار دہائیوں سے دلاتے آرہے ہیں۔
جیساکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ بیک وقت ایک اچھے ناقد، محقق اور تخلیق کار ہیں لہٰذا ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا کسی عام ناقد اور محقق کے بس کا کام نہیں، ایسی ہمہ جہت شخصیت پر کام کرنا کسی رشی منی کی طرح تنبیہ کرنے کے مترادف ہے۔ اردو ادب میں تنبیہ کرنے والے تپسوی میں سے ایک ہیں۔ پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں رہ کر پاکستان کی یونیورسٹیوں کی لائبریریز، اساتذہ اور دوستوں کی ذاتی کتب خانوں کی مدتوں خاک چھانتے رہے اور حیدر قریشی کی شخصیت اور فن سے متعلق مواد حاصل کرتے رہے جو یقیناً انتہائی مشکل کام ہے، اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے ہاتھ پاؤں توڑ کر ایک تپسوی کی طرح بیٹھنا اور تمام مواد کا مطالعہ کرنا اور پھر اپنی تنقیدی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر حیدر قریشی کے فن اور شخصیت کو متعین کرنا، عامر سہیل نے اس کام کو انجام دینے میں تحقیق و تنقید کا حق ادا کردیا ہے۔''
بے شک عامر سہیل نے حیدر قریشی کے فکری و فنی جہتوں کا تنقیدی جائزہ لے کر مصنف کی علمی و ادبی کاوشوں کو بے حد نفاست کے ساتھ اجاگر کیا ہے، یہ ایک بڑا اور اہم کام ہے۔ عامر سہیل نے مقالے کے پانچوں ابواب میں حیدر قریشی کی شاعری ، افسانہ، خاکہ نگاری، سفرنامہ نگاری، تحقیق اور تنقیدی بصیرت پر بحث کی ہے، پہلا باب تخلیقی نثر کے گرد گھومتا ہے، ڈاکٹر انور سدید نے حیدر قریشی کے فن افسانہ کے حوالے لکھا ہے کہ ''حیدر قریشی بظاہر ادب کی کئی اصناف میں ایک طویل عرصے سے بڑی پختہ کاری سے تخلیقی کام کررہے ہیں، تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اصناف کے دیار میں قدم رکھتے ہیں تو فطرت اپنے اسرار کی گتھیاں ان پر بہ انداز دگر گھولتی ہے''۔اردو ادب میں حیدر قریشی کا نام بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
انھوں نے کوچہ ٔ ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے، وہ ادب کے پر خار راستوں پر برہنہ پا چلے ہیں، تب کہیں گوہر مراد ہاتھ آیا ہے اور قارئین و ناقدین ان کے تخلیقی سفر پر مبارکباد پیش کررہے ہیں، پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالات اس کا ٹھوس ثبوت ہیں کہ انھوں نے شعر و افسانوں کے سحر میں اپنے آپ کو گم کرلیا ہے۔ وہ آج بھی اس طلسماتی دنیا کے مکین ہیں اس کی وجہ سچے ادیب کا رشتہ قلم کے ساتھ اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک سانسوں کی ڈور سلامت رہتی ہے تو ادب اور ادیب بھی سلامت رہتا ہے۔
عامر سہیل نے حیدر قریشی کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حیدر قریشی کے افسانے جدید طرز احساس، منفرد اسلوب نگارش اور دلکش فنی و فکری اقدار کی بدولت جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں، ان کے ہاں خالص تخیل کے بجائے حقیقی دنیا کے تجربات و مشاہدات اور زندگی کے اصل نشیب و فراز کا بیانیہ ملتا ہے، مغربی تہذیب و تمدن سے متاثر ہونے کے باوجود ان کے افسانوں میں خالص مشرقی وضع داری نہایت خوش اسلوبی سے اپنی جگہ بناتی چلی جاتی ہے''۔
عامر سہیل نے حیدر قریشی کی افسانہ نگاری کو مختلف زاویوں سے دیکھا ہے اور پرکھا ہے اور افسانوں کے ترش و شیریں ذائقوں سے لطف اندوز ہوئے ہیں، انھوں نے افسانوں کا موضوعاتی مطالعہ تصوف اور روحانیت کے عناصر، فلسفہ توحید، قومی سوچ کے دھارے، تجزیات اور اصول سازی جیسے موضوعات کا انتخاب کرکے سیر حاصل گفتگو، حاصل مطالعہ کی شکل میں موثر انداز میں اس طرح کی ہے کہ قاری، افسانے پڑھے بغیر ہی افسانوں کی روح تک باآسانی پہنچ جاتا ہے، عامر سہیل کے مقالے کی یہ خوبی ان کی علمی کاوشوں سے روشناس کراتی ہے۔
عامر سہیل نے جس طرح نثر نگاری میں محنت و مشقت اور تخلیقی وجدان کی آبیاری مضامین کی شکل میں کی ہے، بالکل اسی طرح انھوں نے حیدر قریشی کی شاعری پر بھی بھرپور انداز میں روشنی ڈالی ہے، اس ضمن میں انور سدید فرماتے ہیں کہ ''وحید قریشی کی غزل نے بیسویں صدی کے ربع آخر میں آنکھ کھولی، اس لیے آوازوں کے جنگل میں کھوجانے کے بجائے اس نے جنگل کے درختوں کی گھنی چھاؤں سے آسودگی حاصل کرنے کی آرزو کی ہے''۔
حیدر قریشی کی شاعری فکر و فلسفے سے معمور ہے، وہ صرف حسینوں کی قصیدہ خوانی نہیں کرتے پھرتے بلکہ وہ اس سماج کو اپنی زندگی سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، اپنی زندگی سے حاصل ایک ایک تجربے کو وہ اپنی شاعری میں بہت ہی فلسفیانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ عامر سہیل نے اشعار کا انتخاب بھی موقع محل کی مناسبت سے کیا ہے جو پڑھنے میں بھلا معلوم ہوتا ہے اسی تناظر میں غزل کا مقطع اور مطلع پیش خدمت ہے۔
کسی بھی لفظ کا جادو اثر نہیں کرتا
وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا
عجیب طور طریقے ہیں اس کے بھی حیدر
وہ مجھ سے پیار تو کرتا ہے پر نہیں کرتا
حیدر قریشی کے ہاں عشق کی صدارت اور سچائی نے ان کی شاعری میں ایک ایسی تاثیر اور دھنک کے دلفریب رنگ نمایاں کردیے ہیں جس کا ذکر عامر سہیل اور منزہ یاسمین جنھوں نے ایم اے اردو کا تخلیقی مقالہ 2002 میں مکمل کیا ''حیدر قریشی فن اور شخصیت'' کے عنوان سے انھوں نے حیدر قریشی کی شاعری میں محبت کی شدت کا ذکرکرتے ہوئے ذیل میں لکھے گئے اشعار پیش کیے ہیں۔
اس کے ہونٹوں پہ میں پھر مہکوں تمنا بن کر
پھر وہ چاہت جو کبھی اس نے تھی چاہی، مانگوں
اس کو پانے کی تمنا پہ یقین کب ہے مگر
ہاتھ جب اٹھ ہی گئے ہیں تو دعا ہی مانگوں
یا پھر یہ اشعار
زباں ایسی کہ ہر اک لفظ مرہم سا لگے اس کا
نظر ایسی کہ اٹھتے ہی دلوں میں تیر ہوجائے
خود اپنے حسن کے نشے میں چور لگتا ہے
جو سر سے پاؤں تلک رنگ و نور لگتا ہے
میں اپنی تحریر کے ذریعے عامر سہیل کو اتنا جامع اور مدلل مقالہ لکھنے پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔