محنت کشوں کی حالت زار
آج کے دور میں محنت کشوں کا جتنا استحصال ہورہا ہے، شاید ہی کسی اور کا اتنا استحصال ہوتا ہو
MADRID:
آج کے دور میں محنت کشوں کا جتنا استحصال ہورہا ہے، شاید ہی کسی اور کا اتنا استحصال ہوتا ہو۔ بڑے بڑے ہیوی کمپلیکس جہاں ہزاروں مزدور کام کرتے تھے، آج انتہائی برے حالات سے دوچار ہے۔ ان اداروں میں مکمل سیمنٹ پلانٹ، بوائلرز، شوگر ملز، روڈ رولرز اور دیگر اہم اور بھاری صنعتوں کی پیداوار ہوتی ہے۔
ان اداروں سے مزدور نکال دیے جاتے ہیں۔ مزدوروں کے سر پر بے روزگاری کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں۔ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی میں کئی ماہ تک تنخواہیں نہ ملنے پر مزدوروں کا کیا حشر ہوگا، اس کا اندازہ کوئی بھی لگاسکتا ہے۔ بچے اسکول نہیں جاسکتے اور ملازمین نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال بہت سے اداروں کی ہے۔
تنخواہوں اور کالونی میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی پرایک ٹیکسٹائل مل کی انتظامیہ کے خلاف ملازمین نے احتجاج کیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس پہنچ گئی۔ فائرنگ سے ایک مزدور جاں بحق جب کہ پندرہ زخمی ہوگئے۔ جاں بحق ملازم کے ورثا نے لاش کو پھاٹک پر رکھ کر احتجاج کیا اور ریلوے ٹریک سمیت انڈس ہائی وے بلاک کردی۔ ایک ٹیکسٹائل ملز کے ملازمین نے چھ ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے اور رہائشی کالونی میں گیس اور بجلی بند کرنے پر فیکٹری انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔
مشتعل ملازمین نے فیکٹری میں انتظامیہ کو کمرے میں بند کردیا۔ پولیس کے پہنچنے پر مزدوروں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا۔ پولیس نے اسے جواز بنا کر مزدوروں پر گولیاں چلادیں، جس کے نتیجے میں 18 سالہ مزدور شہید ہوگیا، جس کا نام محمد لطیف بروہی ہے۔ خواتین سمیت پندرہ مزدور زخمی بھی ہوئے۔ نوجوان کے ورثا نے پہلے اسپتال کے سامنے اور بعد میں کوٹری ریلوے پھاٹک کے پاس لاش سمیت دھرنا دے کر انڈس ہائی وے اور ریلوے ٹریک بلاک کردیا۔ دھرنے کے باعث ٹریفک اور ٹرینوں کی آمدورفت کئی گھنٹے معطل رہی۔
ریلوے حکام نے کوٹری اسٹیشن پر گرین لائن، حیدرآباد اسٹیشن پر شالیمار ایکسپریس، علامہ اقبال، پاکستان ایکسپریس جب کہ بھولاری، جھمپیر سمیت دیگر اسٹیشنز پر مختلف ٹرینوں کو روک دیا، جس کی وجہ سے مسافروں کو کئی گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ مظاہرین مطالبہ کررہے تھے کہ فائرنگ کرنے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے، بصورت دیگر احتجاج جاری رہے گا۔ بعد ازاں حکام کی جانب سے مظاہرین کو پولیس اہلکاروں اور فیکٹری انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی، جس پر آٹھ گھنٹے بعد احتجاج ختم کردیا گیا۔
اسی طرح ضلع بدین میں بجلی کے سنگین بحران کی وجہ سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بدین شہر اور نواحی علاقوں میں بجلی کی سولہ گھنٹے غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دو سو سے زائد چھوٹی صنعتیں بند ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے اعلانات کو حیسکو نے ہوا میں اڑا دیا ہے۔ سولہ گھنٹے سے زائد کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ معمول بن گئی۔
ضلع ہیڈکوارٹر سمیت بدین کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بیس گھنٹے تک پہنچ گیا، جس کے باعث ضلع بھر میں چلنے والی صنعتوں میں کام معطل ہوگیا ہے، ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ گولارچی، تلہار، ماتلی، ٹنڈو باگو، نندہ کڈہن، سیرانی اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں۔
ادھر حیدرآباد میں آل ریونیو سندھ ایمپلائز ایسوسی ایشن نے سرکاری ملازمین کی اپ گریڈیشن نہ کیے جانے کے خلاف ہڑتال کی، مظاہرین نے ریونیو کے مرکزی دفتر کے سامنے علامتی بھوک ہڑتال بیسویں دن بھی جاری رکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے صوبوں میں ایک سے اٹھارہ گریڈ کے سرکاری ملازمین کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے، مگر سندھ میں سرکاری ملازمین کو ابھی تک اپ گریڈ نہیں کیا گیا ہے۔
اسی طرح کے جبر کا شکار مٹھی کے محنت کش بھی ہوئے۔ مٹھی پولیس وڈیروں کی تابعدار بن گئی ہے، ایک اشارے پر محنت کش کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ گزشتہ دنوں سادہ لباس میں سابق پولیس افسر گاؤں بپوہار سے مٹھی آنے والے ایک شخص اور اس کے بیٹے کو شہر کے قریب گاڑی سے اتار کر تھانے لے گیا اور وہاں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب تھانے میں ایک سماجی کارکن نے پہنچ کر تھانے دار سے سوال کیا کہ کیوں اس شخص کو پکڑا ہے، تو تھانے دار نے اسے مقامی ایم این اے کی ایک چٹ دکھائی، بعد ازاں عوام کے بے حد اصرار پر تھانیدار اسے رہا کرنے پر مجبور ہوا۔
حال ہی میں فیصل آباد میں پاور لومز کے مزدوروں نے کئی دنوں سے اپنے مطالبات کے لیے پرامن دھرنا دے رکھا تھا، اچانک پولیس اہلکاروں نے ان پر دھاوا بول دیا اور ان پر لاٹھی چارج کیا، گرفتار کیا اور بہیمانہ تشدد کیا۔ گزشتہ دنوں کراچی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے وزیراعلیٰ ہاؤس تک اپنے مطالبات منوانے کے لیے مارچ کیا، لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انھیں چیف منسٹر ہاؤس جانے سے روک دیا۔
محنت کشوں پر اس قسم کا ظلم و جبر اس وقت سے ہوتا آرہا ہے جب سے ریاست کسی نہ کسی شکل میں وجود میں آئی ہے۔ یہ جبر پاکستان میں ہو، بلوچستان میں ہو، یا دنیا بھر میں، جب تک اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کرکے ایک کمیونسٹ نظام، یعنی امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم نہیں ہوتا اس وقت تک یہ طبقاتی جبر جاری رہے گا۔
وہ دن پاکستان میں بھی جلد آنے والا ہے جب ملکیت، جائیداد کا خاتمہ ہوجائے گا اور سب انسان برابر ہوں گے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن سب دیکھیں گے، جب کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔
آج کے دور میں محنت کشوں کا جتنا استحصال ہورہا ہے، شاید ہی کسی اور کا اتنا استحصال ہوتا ہو۔ بڑے بڑے ہیوی کمپلیکس جہاں ہزاروں مزدور کام کرتے تھے، آج انتہائی برے حالات سے دوچار ہے۔ ان اداروں میں مکمل سیمنٹ پلانٹ، بوائلرز، شوگر ملز، روڈ رولرز اور دیگر اہم اور بھاری صنعتوں کی پیداوار ہوتی ہے۔
ان اداروں سے مزدور نکال دیے جاتے ہیں۔ مزدوروں کے سر پر بے روزگاری کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں۔ آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی میں کئی ماہ تک تنخواہیں نہ ملنے پر مزدوروں کا کیا حشر ہوگا، اس کا اندازہ کوئی بھی لگاسکتا ہے۔ بچے اسکول نہیں جاسکتے اور ملازمین نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال بہت سے اداروں کی ہے۔
تنخواہوں اور کالونی میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی پرایک ٹیکسٹائل مل کی انتظامیہ کے خلاف ملازمین نے احتجاج کیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس پہنچ گئی۔ فائرنگ سے ایک مزدور جاں بحق جب کہ پندرہ زخمی ہوگئے۔ جاں بحق ملازم کے ورثا نے لاش کو پھاٹک پر رکھ کر احتجاج کیا اور ریلوے ٹریک سمیت انڈس ہائی وے بلاک کردی۔ ایک ٹیکسٹائل ملز کے ملازمین نے چھ ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے اور رہائشی کالونی میں گیس اور بجلی بند کرنے پر فیکٹری انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔
مشتعل ملازمین نے فیکٹری میں انتظامیہ کو کمرے میں بند کردیا۔ پولیس کے پہنچنے پر مزدوروں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا۔ پولیس نے اسے جواز بنا کر مزدوروں پر گولیاں چلادیں، جس کے نتیجے میں 18 سالہ مزدور شہید ہوگیا، جس کا نام محمد لطیف بروہی ہے۔ خواتین سمیت پندرہ مزدور زخمی بھی ہوئے۔ نوجوان کے ورثا نے پہلے اسپتال کے سامنے اور بعد میں کوٹری ریلوے پھاٹک کے پاس لاش سمیت دھرنا دے کر انڈس ہائی وے اور ریلوے ٹریک بلاک کردیا۔ دھرنے کے باعث ٹریفک اور ٹرینوں کی آمدورفت کئی گھنٹے معطل رہی۔
ریلوے حکام نے کوٹری اسٹیشن پر گرین لائن، حیدرآباد اسٹیشن پر شالیمار ایکسپریس، علامہ اقبال، پاکستان ایکسپریس جب کہ بھولاری، جھمپیر سمیت دیگر اسٹیشنز پر مختلف ٹرینوں کو روک دیا، جس کی وجہ سے مسافروں کو کئی گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔ مظاہرین مطالبہ کررہے تھے کہ فائرنگ کرنے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے، بصورت دیگر احتجاج جاری رہے گا۔ بعد ازاں حکام کی جانب سے مظاہرین کو پولیس اہلکاروں اور فیکٹری انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی، جس پر آٹھ گھنٹے بعد احتجاج ختم کردیا گیا۔
اسی طرح ضلع بدین میں بجلی کے سنگین بحران کی وجہ سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بدین شہر اور نواحی علاقوں میں بجلی کی سولہ گھنٹے غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دو سو سے زائد چھوٹی صنعتیں بند ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے اعلانات کو حیسکو نے ہوا میں اڑا دیا ہے۔ سولہ گھنٹے سے زائد کی غیر علانیہ لوڈشیڈنگ معمول بن گئی۔
ضلع ہیڈکوارٹر سمیت بدین کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بیس گھنٹے تک پہنچ گیا، جس کے باعث ضلع بھر میں چلنے والی صنعتوں میں کام معطل ہوگیا ہے، ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔ گولارچی، تلہار، ماتلی، ٹنڈو باگو، نندہ کڈہن، سیرانی اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے معمولات زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئے ہیں۔
ادھر حیدرآباد میں آل ریونیو سندھ ایمپلائز ایسوسی ایشن نے سرکاری ملازمین کی اپ گریڈیشن نہ کیے جانے کے خلاف ہڑتال کی، مظاہرین نے ریونیو کے مرکزی دفتر کے سامنے علامتی بھوک ہڑتال بیسویں دن بھی جاری رکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ دوسرے صوبوں میں ایک سے اٹھارہ گریڈ کے سرکاری ملازمین کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے، مگر سندھ میں سرکاری ملازمین کو ابھی تک اپ گریڈ نہیں کیا گیا ہے۔
اسی طرح کے جبر کا شکار مٹھی کے محنت کش بھی ہوئے۔ مٹھی پولیس وڈیروں کی تابعدار بن گئی ہے، ایک اشارے پر محنت کش کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ گزشتہ دنوں سادہ لباس میں سابق پولیس افسر گاؤں بپوہار سے مٹھی آنے والے ایک شخص اور اس کے بیٹے کو شہر کے قریب گاڑی سے اتار کر تھانے لے گیا اور وہاں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ جب تھانے میں ایک سماجی کارکن نے پہنچ کر تھانے دار سے سوال کیا کہ کیوں اس شخص کو پکڑا ہے، تو تھانے دار نے اسے مقامی ایم این اے کی ایک چٹ دکھائی، بعد ازاں عوام کے بے حد اصرار پر تھانیدار اسے رہا کرنے پر مجبور ہوا۔
حال ہی میں فیصل آباد میں پاور لومز کے مزدوروں نے کئی دنوں سے اپنے مطالبات کے لیے پرامن دھرنا دے رکھا تھا، اچانک پولیس اہلکاروں نے ان پر دھاوا بول دیا اور ان پر لاٹھی چارج کیا، گرفتار کیا اور بہیمانہ تشدد کیا۔ گزشتہ دنوں کراچی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے وزیراعلیٰ ہاؤس تک اپنے مطالبات منوانے کے لیے مارچ کیا، لیکن پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انھیں چیف منسٹر ہاؤس جانے سے روک دیا۔
محنت کشوں پر اس قسم کا ظلم و جبر اس وقت سے ہوتا آرہا ہے جب سے ریاست کسی نہ کسی شکل میں وجود میں آئی ہے۔ یہ جبر پاکستان میں ہو، بلوچستان میں ہو، یا دنیا بھر میں، جب تک اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کرکے ایک کمیونسٹ نظام، یعنی امداد باہمی کا آزاد معاشرہ قائم نہیں ہوتا اس وقت تک یہ طبقاتی جبر جاری رہے گا۔
وہ دن پاکستان میں بھی جلد آنے والا ہے جب ملکیت، جائیداد کا خاتمہ ہوجائے گا اور سب انسان برابر ہوں گے۔ سچے جذبوں کی قسم وہ دن سب دیکھیں گے، جب کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔