قومی سلامتی اورسول ملٹری لیبل
ہم وہ قوم ہیں جو ہر دوسرے اور تیسرے دن ایک نئے اور تاریخی موڑ پر آ کھڑی ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں آجکل چند مخصوص '' ڈائیلاگ'' کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ ڈائیلاگ یا مکالمہ بازی عموماً دو کرداروں کے مابین ہوتی ہے۔
یہ کردار عام طور پر ایک جیسے سوشل اسٹیٹس اور کلاس سے ہوتے اور کبھی کبھار '' لڑا دے ممولے کو شہباز سے'' والا وقوعہ بھی ہو جاتاہے۔ وطن عزیز میں رونما ہونے والا تازہ وقوعہ یہ ہے کہ9 سابق جرنیلوں کے خلاف آئین اور قانون سے انحراف کرنے کا الزام ثابت کرنے کی مشق ِ نو جاری ہے۔ ادھر یہ کہا گیا کہ... قومی مفادات کے تعین کی ذمے داری کسی ایک فرد یا ادارہ پر عائد نہیں ہوتی... دوسرے روز سپریم کورٹ نے ایک رٹ پٹیشن سنتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آخری فیصلہ سپریم کورٹ کا ہو گا، کوئی غلط فہمی میں نہ رہے۔
دو بڑوں کے مابین آئین، قانون اور اختیارات کی تشریح کے معاملات پر ان کی رائے واضح ہے مگر قومی تنازعات پر ''سب ٹھیک ہے'' کا لیبل چسپاں کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ سمیت دیگر رہنماوں میں مقابلہ ہے کہ وہ ایسا ''اکسیری بیان'' جاری فرمائیں جو عدلیہ کی آزادی اور فوج سے منسوب قومی سلامتی کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے قربانی اور بہادری کے روایتی تصور کا احاطہ کرتا ہو۔ آرمی چیف کیانی نے اپنے ادارہ کا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لیا لیکن ان کے بیان کی جو تشریح ''بیگ گیس پیپر'' سے کی جا رہی ہے، وہ کچھ اور ہے۔ جنرل (ر) بیگ نے کہا ہے کہ... ''فوج کے سیاسی عزائم نہیں ہیں۔
جنرل کیانی نے صرف خبردار کیا ہے کہ فوج کی توہین مت کرو، ہماری قربانیوں کو مت بھلاؤ، ہمارے ہزاروں شہدا کا مذاق مت اُڑاؤ، قومی سلامتی یا آئین پاکستان کے تحفظ کے ذمے دار صرف سپریم کورٹ یا فوج نہیں بلکہ 18کروڑ عوام ہیں اور عوام کی تائید و حمایت کے بغیر ادارے کچھ بھی نہیں، کوئی ادارہ اپنی ذمے داری اتنی نہ بڑھا لے کہ جمہوریت کی بساط سمیٹ دی جائے۔ چیف جسٹس نے دو تین مرتبہ کہا ہے کہ اب فوج مداخلت نہیں کرے گی، مارشل لاء نہیں لگے گا، ٹینکوں اور میزائلوں کی بنیاد پر استحکام کے دن گئے۔ بھٹو نے بھی کہا تھا کہ مارشل لاء ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا ہے۔
نواز شریف نے بھی جنرل مشرف کو فارغ کر دیا تھا لیکن جہاں فوج کی عزت، روایات کا سوال آتا ہے تو پھر جنرل ضیاء بھی شب خون مارتے ہیں، جنرل مشرف کے حق میں بھی کور کمانڈرز کھڑے ہو جاتے ہیں لہٰذا جنرل کیانی کے بیان اور پیغام کو سمجھا جائے''... متذکرہ قومی کیس کے حوالے سے دو اہم کرداروں کے '' ڈائیلاگ'' بھی سن لیں تو ہمیں فلم کی کہانی، اسکرین پلے اور پیغام سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔1990 میں بنائے جانے والے سیاسی اتحاد آئی جے آئی کے سلسلے میں سیاستدانوں میں قومی دولت تقسیم کرنے والے ملٹری انٹیلی جنس سندھ کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) حامد سعید نے کہا ہے کہ 1990کے انتخابات میں دھاندلی نہ کی جاتی تو آج پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا۔ انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ پیپلز پارٹی ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا چاہتی ہے اور یہ وقت کا تقاضا تھا کہ ایسی حکومت سے جان چھڑائی جائے۔
زیر نظر کیس کے سب سے اہم کردار اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل اسد درانی کہتے ہیں کہ سیاستدانوں میں رقوم جنرل اسلم بیگ کے حکم پر تقسیم کیں۔ جنرل درانی ہر فورم پر کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے رقوم جنرل بیگ کے حکم پر تقسیم کیں مگر مرزا اسلم بیگ سارا ''مُدا'' صدر غلام اسحاق پر ڈالتے رہتے ہیں۔ اسد درانی نے مزید کہا ہے کہ 14 کروڑ روپے کراچی کی بزنس کلاس نے دیے تھے جو پیپلز پارٹی کی معاشی پالسیوں سے خوش نہیں تھے۔ جنرل اسلم بیگ اس سارے آپریشن میں صدر اسحاق کے ساتھ تھے اور یہ تمام معاملات کور کمانڈرز کانفرنس میں لائے جاتے تھے جس کی صدارت وہ خود کیا کرتے اور انھی کے حکم پر سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی گئیں۔
قارئین کرام! ہم وہ قوم ہیں جو ہر دوسرے اور تیسرے دن ایک نئے اور تاریخی موڑ پر آ کھڑی ہوتی ہے۔ اس وقت ہم جس تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں اس کی سچویشن کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ریٹائرڈ جنرل کی نظر میں عدالت، سیاست، جمہوریت اور صحافت جیسے ادارے کیا مقام رکھتے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے وہ تمثیلی منظر کافی ہے جس میں اصغر خان کیس کے مرکزی کردار جنرل اسلم بیگ نجی ٹی وی کے ایک جونیئر رپورٹر کے ہاتھ سے مائیک چھینتے ہوئے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسلم بیگ نے اس کوشش میں اچھی خاصی شوٹنگ کر ڈالی مذکورہ'' SKY FALL'' (جیمز بانڈ کی تازہ فلم) کا ٹریلر یو ٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرح میں بھی جنرل بیگ کو بہادری، شجاعت اور جمہوریت کا پیکر سمجھتا تھا مگر سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سے متعلق موصوف کے تازہ بیانات جاننے کے بعد مجھ پر یہ راز کھلا ہے کہ 'ڈیمو کریسی ایوارڈ' کسی غلط ایڈریس پر ارسال کر دیا گیا تھا۔ جنرل صاحب نے فرمایا ہے کہ... وہ عدالت میں نظر ثانی کی اپیل دائر نہیں کریں گے اور دیکھیں گے کہ پارلیمنٹ ان کا کیا کر لیتی ہے؟
جنرل بیگ کے ایک پیٹی بند بھائی سے منسوب ایک ڈائیلاگ تو ''ریٹنگ'' میں سب سے آگے ہے جو کچھ یوں ہے کہ SHUT UP YOU IDIOT۔ انگریزی زبان کی اس نیم گالی اور ننگی دھمکی کا ہومیو پیتھی اردو ترجمہ یوں ہو سکتا ہے کہ (بے وقوف انسان اپنا منہ بند کرو)۔ ریٹائرڈ فوجی افسر کی طرف سے ایک رپورٹر کو یوں ڈانٹ پلانا ''توہین صحافت'' کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں آزادیِ اظہار کے علمبرداروں نے اس پر اپنا فیصلہ نہیں سنایا۔ ریٹائرڈ فوجی افسر کی طرف سے میڈیا کے نمایندہ کو ''چار حرفی'' سنانے کا نفسیاتی، تاریخی اور سماجی تجزیہ کریں تو بات دور تک نکل جاتی ہے ۔
لفظ IDIOTکے ماخذ کا سراغ لگائیں تو اس کا سرا ہمیں ارسطو کے یونان سے ملتا دکھائی دیتا ہے۔ ارسطو کا قول ہے کہ ''جو شخص شہری نہ ہو وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں ہے'' اہل یونان ہر اس شخص کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو شہری اور سیاسی معاملات میں عملی دلچسپی لینے سے گریز کرتا تھا۔ اس قسم کے آدمی کے لیے یونانی زبان میں جو لفظ ہے اسی سے انگریزی لفظ IDIOT اخذ کیا گیا ہے۔ آج کی دنیا میں اگرچہ IDIOT سے مراد ایسے شخص سے نہیں ہے جسے انسان ہوتے ہوئے انسان نہ سمجھا جائے مگر وطن عزیز میں یہ رواج رہا ہے کہ ملک اور اس کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے پہنی وردی کو کھال سمجھ کر آئین کو چیر پھاڑ دیا گیا اور ملک پر جنگل کا قانون نافذ کر دیا گیا۔
آ اصغر خان کیس کے مرکزی کردار صدر غلام اسحاق خان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ '' قومی سلامتی کے عظیم الشان پراجیکٹ '' جسے ہماری تاریخ میں آئی جے آئی کے نام سے جانا جاتا ہے اس نے ہمارے مقدر پر کیا مثبت اثرات مرتب کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ مذکورہ کیس کے ملزمان نے اس بابت ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کا وقوعہ گڑھنا چاہا ہے مگر اس ملک کے عوام جانتے ہیں کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو تھا جس نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی دھمکی کے بعد ایٹم بم بنایا۔ دوسری طرف جنرل ضیاء الحق نے سیاچن پر بھارت کے خلاف معرکہ کرنے کے بجائے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس کے بعد کمانڈو جنرل مشرف نے تو ایک ٹیلی فون کال پر قوم کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا تھا۔ براہ کرم قومی سلامتی اور حب الوطنی کے جذبوں پر سول اور ملٹری لیبل چسپاں کرنے بند کیے جائیں اس سے پہلے ہمیں ناقابل تلافی نقصان ہو چکا ہے۔