سونامی کو کیا ہوگیا

عمران خان جس سیاسی حکمت عملی پر پندرہ سال قائم رہے وہ بالآخر کام آنے لگی تھی۔

30 اکتوبر 2011 کے لاہور جلسے سے پہلے اور 25 دسمبر 2011 کے کراچی جلسے تک ہر طرف سونامی کی باتیں ہو رہی تھیں۔ نہ صرف سیاسی تجزیہ کار عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کی آیندہ الیکشن میں ممکنہ جیت کو سنجیدہ لینے لگے تھے بلکہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی شدید دبائو کا شکار نظر آنے لگی تھیں۔

ہر آنے والا سروے تحریک انصاف کے گراف کو مزید بلند دکھاتا نظر آتا تھا۔ لاہور کے جلسے نے تو گویا ملکی سیاست کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ عمران خان جس سیاسی حکمت عملی پر پندرہ سال قائم رہے وہ بالآخر کام آنے لگی تھی۔ وہ اپنے ریکارڈ جلسوں اور مختلف سرویز میں اپنی بلند ہوتی ریٹنگز کا ہر ٹاک شو میں ذکر کرتے اور بھر پور اعتماد سے اس عزم کا اظہار کرتے کہ تحریک انصاف کا سونامی اسٹیٹس کی تمام قوتوں کو اگلے الیکشن میں بہاکر لے جائے گا۔ کوئی عمران خان کے نظریات کی وجہ سے ان کا حامی بنا تو کوئی اس لیے کہ دو جماعتوں کو بہت موقعے دے کر دیکھ لیے اب ایک موقعے عمران خان کو بھی دے کر دیکھنا چاہیے۔ مگر پھر ایک سال کے اندر یہ بھی میں نے دیکھا کہ تحریک انصاف کا گراف تیزی سے نیچے آیا اور عمران خان نے اس سروے کو بھی قبول کیا۔ مگر لگتا نہیں ہے کہ وہ ان عوامل کی نشاندہی کر پائے ہیں کہ جن کی وجہ سے ان کی حمایت کی مقبولیت میں اتنی تیزی سے کمی ہوئی۔

کیونکہ اس گراف کے نیچے آنے میں کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی سازشوں اور سیاسی چالوں کا کم اور عمران خان کی اپنی سیاسی غلطیوں کا ہاتھ زیادہ نظر آتا ہے۔ سیاست میں اگر ایک سیاسی حکمت عملی انتہائی کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہو اور کامیابی کا راستہ ہموار کررہی ہو تو یہ قطعی طور پر دانشمندی کا اقدام تصور نہیں کیا جاتا کہ سیاسی حکمت عملی بدل دی جائے۔ مگر عمران خان نے وہ سیاسی حکمت عملی ہی بدل ڈالی کہ جس نے 30 اکتوبر 2011 کا ریکارڈ جلسہ کرا کر تحریک انصاف کو آیندہ الیکشن کے لیے مضبوط پارٹی کے طور پر ابھارا تھا۔

نیا لیڈر، نیا وژن، نئی پالیسی، نئی ٹیم کا وہ کامینیشن کہ جسے دیکھ کر لوگ عمران خان کی طرف مائل ہوئے، اس میں نئی ٹیم کی جگہ پرانے لوگ لاکر ایک کامیاب سیاسی حکمت عملی ہی بدل ڈالی۔ نیا لیڈر، نیا وژن، نئی پالیسی مگر پرانی ٹیم کا پہلا مظاہرہ 25 دسمبر 2011کو کراچی کے جلسے میں ہوا کہ جب اسٹیج پر 30 اکتوبر 2011 کے جلسے میں موجودہ لوگوں کی جگہ عوام کو عمران خان کے ساتھ وہی پرانے چہرے نظر آئے جو کئی بار وزیر رہے مگر اپنی وزارتوں میں کوئی کارہائے نمایاں انجام نہ دے سکے۔ اس ملک کے حالات اگر اسٹیٹس کو کی وجہ سے اس نہج پر پہنچے ہیں تو یہ وہی اسٹیٹس کو ہے کہ جو حلقے کی سیاست، خاندانی سیاست اور electables کی بنیاد پر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں۔

اور عمران خان اور ان کی ٹیم اس اسٹیٹس کو سے آزاد نظر آنے لگی تھی۔ مگر جب عمران خان نے اپنے دروازے ہر ایک کے لیے نہ صرف کھول دیے بلکہ انھیں پارٹی کے ٹاپ عہدوں پر بھی تعینات کردیا تو پاکستان تحریک انصاف محور امید سے محور تنقید بن گئی۔ اور اس کام کے لیے مخالفین کو محنت نہیں کرنی پڑی بلکہ پرانے لوگوں کے آنے سے گراف خود ہی متاثر ہونے لگا۔ خواجہ آصف کی طرف سے شوکت خانم کے فنانشل معاملات پر الزامات ہوں یا ن لیگ کی طرف سے عمران خان کے اثاثوں کے خلاف مہم۔


عمران خان کو کبھی ان معاملات پر اتنا دفاع نہیں کرنا پڑا کہ جتنا پرانے چہروں کو پارٹی میں شامل کرکے ان کا دفاع کرنا پڑا۔ عام طور پر ٹاک شوز میں پارٹی کے مختلف رہنما پارٹی لیڈر شپ پر لگے الزامات کا دفاع کرتے نظر آتے مگر تحریک انصاف ایک ایسی انوکھی مثال بن گئی کہ جس میں عمران خان خود پارٹی میں نئے شامل ہونے والے پرانے سیاستدانوں کا دفاع کرتے نظر آئے۔ عمران خان کبھی حکومت میں نہیں رہے اس لیے ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شوکت خانم اسپتال اور نمل کالج ان کا انتہائی قابل تحسین کارنامہ ہے۔ مگر وہ کبھی اس بات کا دفاع کرتے نظر آئے کہ مشرف کا ساتھ دینے والے وزراء آپ کے ساتھ ہیں، لال مسجد آپریشن کے حق میں آواز اٹھانے والے آپ نے پارٹی میں لے لیے ہیں۔ کیری لوگر بل کی حمایت اور اس کا دفاع کرنے والوں کو آپ نے پارٹی میں بڑے عہدے سے نواز دیا ہے۔

آپ اصغر خان کیس کی بات کرتے ہیں مگر آپ کی جماعت میں بھی متاثرین موجود ہیں، آپ کی جماعت میں دو ایسے سابق وزراء ہیں جو ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے ہیں، یہ وزراء اپنی وزارتوں میں کچھ نہیں کرسکے تو آپ کی ٹیم میں کیا کریں گے، جنھیں آپ نے انفارمیشن سیکریٹری بنایا ہے وہ تو دو سال پہلے اپنے کالموں میں آپ پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور اس قسم کے درجنوں سوالات۔ اور ان سب سوالات کا سامنا عمران خان کو نہ تو ان کی اپنی ماضی کی غلطی کی وجہ سے اور نہ ہی پارٹی کے کسی پرانے نظریاتی کارکن کی وجہ سے کرنا پڑا۔ بلکہ ان تمام لوگوں کی وجہ سے کہ جو 30 اکتوبر 2011کے بعد جوق در جوق پارٹی میں آئے اور تحریک انصاف کے لیے یہ الزام بھی ساتھ لائے کہ یہ سب حساس ادارے کے ایک اہم شخص کے کہنے پر تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔

30 اکتوبر 2011سے پہلے جب عمران خان یہ کہتے تھے کہ میں نے کرکٹ میں ثابت کیا ہے کہ ٹیم کیسے بنانی ہے اور میں ملک چلانے کے لیے بھی بہترین ٹیم بنائوں گا تو ایک الگ بات تھی مگر انھی پرانے چہروں کی شمولیت کے بعد بھلا ایک بہترین ٹیم کیسے بن پائے گی۔ یہ لوگ جو حلقے اور خاندانی سیاست کی وجہ سے Electables کہلاتے ہیں کیا اگر تحریک انصاف کی حکومت آگئی تو منتخب ہوکر خاموشی سے بیٹھ جائیں گے اور عمران خان کو اپنی مرضی کی ٹیم یعنی اپنی مرضی کے لوگوں کو وزیر بنانے دیں گے کہ جو ملک کو اسٹیٹس کو سے نجات دلا کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ نہیں جناب نہیں۔ 30 اکتوبر 2011کے بعد اگر تحریک انصاف میں جوق در جوق سیاستدانوں نے شمولیت اختیار کی تو وہ عمران خان کی شخصیت یا نظریات سے متاثر ہوکر نہیں بلکہ ایک ایسی سیاسی جماعت میں کی کہ جو پاور میں آنے کا اور وزارتوں کا ایک اور موقع فراہم کرسکتی تھی۔

اور جب ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا تو وہ تبدیلی اور سونامی کی محبت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہیں بیٹھے رہیں گے۔ بہت سے لوگ تو چند ماہ میں ہی ن لیگ اور ق لیگ کا دوبارہ رخ کرچکے ہیں۔ اور ان کی وجہ سے بہت سے نظریاتی لوگ جو پارٹی سے 15 سال سے وابستہ تھے یا تو مستعفی ہوگئے ہیں یا پھر مایوس ہوکر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ اب اگر عمران خان نے حکومت میں آکر اپنی ٹیم میں پرانے ہی لوگوں کو وزیر بنا بھی دیا تو پھر کونسی تبدیلی۔ جو لوگ ماضی میں وزارتوں میں رہ کر اسٹیٹس کو کا حصہ رہے وہ آیندہ کیا تبدیلی لے آئیں گے۔ خان صاحب یہ دلیل دیتے ہیں کہ لیڈر سے فرق پڑتا ہے۔ تو جناب آپ ایک اچھے کپتان تھے کیونکہ آپ نے ایسی ٹیم بنائی کہ جو آپ کے ساتھ صرف جیت کے جذبے کے تحت کھیلتی تھی۔ اور یہاں پارلیمانی نظام میں جب اپنے مطلب کی ٹیم نہیں بنا پائیں گے تو ایسے لوگ بھی ٹیم میں ہوں گے جو آپ کے وژن پر عمل درآمد کے لیے نہیں بلکہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے آپ کے ساتھ ہوں گے۔ تو پھر نیا لیڈر، نیا وژن، نئی پالیسی مگر پرانی ٹیم ہوگی تو ملک میں اسٹیٹس کو کیسے ٹوٹے گا۔

میری ناقص رائے میں یہی وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کا گراف تیزی سے نیچے آیا جس طرح سیاست میں ایک کامیاب حکمت عملی کو بدلنا مناسب نہیں ہوتا اسی طرح ایک ناکام حکمت عملی کو نہ بدلنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ خان صاحب نے 30 اکتوبر 2011 کے جلسے کے بعد کامیاب حکمت عملی تو فوراً بدل دی تھی مگر آئی آر آئی کے سروے کو آئے کافی وقت ہوگیا اور گرتے ہوئے گراف کو پھر سے اٹھانے کے لیے اس ناکام حکمت عملی میں فی الحال کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔
Load Next Story