یہ بن کھلے مرجھا جانے والے
والدہ نے حالات کو سنبھالا اور بیٹیوں کی مدد سے دفتروں اور گھروں پہ ٹفن فراہم کرنا شروع کیا۔
ISLAMABAD:
عابد ایک بائیس سالہ نوجوان ہے۔ نہایت سلجھا ہوا، ذہین اور اسمارٹ۔ والدہ اور بڑی بہنوں پہ مشتمل یہ خاندان کراچی میں مقیم ہے۔ چند سال پہلے والد کا انتقال ہو گیا۔ مالی پریشانیاں سامنے کھڑی تھیں۔ چھوٹا موٹا کاروبار تھا اور عابد کم عمر، وہ ایک اچھے کالج کا طالب علم تھا۔ پڑھا لکھا اور مہذب خاندان۔
والدہ نے حالات کو سنبھالا اور بیٹیوں کی مدد سے دفتروں اور گھروں پہ ٹفن فراہم کرنا شروع کیا۔ گھر کا پکا ہوا تازہ کھانا لوگوں کو پسند ہوتا ہی ہے اور پھر زیادہ مہنگا بھی نہیں پڑتا۔ ہر قسم کی ورائٹی کا مینو موجود تھا۔ جس میں سبزی، دال، چکن، حلیم، نہاری، قورمہ وغیرہ مع روٹی اور چاول سب شامل تھا۔ عابد یہ ٹفن تعلیمی اداروں اور دفتروں میں لے کر جاتا تھا۔ حالات اچھے ہونے شروع ہوئے تو والدہ نے ایک اور شخص کو بھی ملازم رکھ لیا۔ اس طرح ان کا کاروبار بھی بڑھا کیونکہ انھوں نے دوسروں کی طرح چند دن بعد کھانے کی مقدار اور معیار دونوں کو گرنے نہیں دیا تھا۔ ہر ہفتے عابد جا کر پارٹیوں سے رقم وصول کرتا اور ماں کو لا کر دے دیتا۔
پھر اچانک عابد نے آنا بند کر دیا اور صرف ملازم ہی اپنی بائیک پہ کھانا بھی پہنچاتا اور رقم بھی وصول کرتا۔ لوگوں نے جب عابد کے بارے میں ان کی والدہ سے معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ اسے ملک سے باہر بھیج دیا ہے۔ لیکن ملازم نے جو کہانی اور حقیقت بیان کی وہ بہت بھیانک اور عبرت ناک تھی۔ نہ جانے کتنے باصلاحیت نوجوان اس لعنت کی نذر ہو چکے ہیں۔ ہوا یوں کہ ایک دن عابد کو گلشن اقبال کے علاقے میں چند دوستوں نے لنچ فراہم کرنے کے بعد زبردستی ہیروئن کے نشے کی سگریٹ پلا دی اور یوں رفتہ رفتہ عابد اس کا ایسا شکار ہوا کہ وہ ٹفن کی وصول کردہ تمام رقم ہیروئن کے نشے کی نذر کرنے لگا۔
بہت دن بعد ملازم کی زبانی جب والدہ کو علم ہوا تو انھوں نے بیٹے کے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی۔ اسے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ لیکن جب نشہ نہ ملنے سے اس کا بدن اینٹھنے لگا تو مجبوراً خود بیٹے کے بتائے ہوئے پتے پر جا کر ہیروئن کی پڑیاں لانے لگیں۔ خود بیٹے کو پینے کے لیے دینے لگیں اور لوگوں میں یہ مشہور کر دیا کہ بیٹا ملک سے باہر چلا گیا ہے تا کہ کسی کو پتا نہ چلے کہ بیٹا ہیروئنچی ہو گیا ہے۔
قبل اس کے کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ عابد کی ماں کا فیصلہ غلط تھا یا صحیح؟ انھوں نے علاج کے لیے اسپتال میں داخل کیوں نہ کرایا اور یہ کہ نشہ چھڑانے والے اسپتالوں کے بارے میں بھی اس قسم کی اطلاعات آ رہی ہیں کہ یہ بظاہر تو ہیروئن سے نشہ چھڑوانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اندر ہی اندر یہ اپنی دواؤں کے ذریعے دوسرے نشوں کا عادی بنا کر مال بنانے میں شہرت بھی رکھتے ہیں۔ بعض لوگ یہ بھی کہیں گے کہ ہیروئنچی کا انجام انتہائی تباہ کن ہے۔
اس لیے عابد کی والدہ کو دل کڑا کر کے اسے نشے سے محروم رکھنا چاہیے تھا، نہ کہ خود ہیروئن خرید کر اس کی نشے کی عادت کو مضبوط سے مضبوط کرنا۔ کہاں تک وہ یہ کر پائیں گی؟ سنا ہے کہ اس مصیبت کی وجہ سے ان کا بہت مالی نقصان تو ہوا ہے۔ ساتھ ہی کھانے کا معیار، مقدار، اور ذائقہ گرنے سے بہت سے گاہک چھٹ گئے۔
انھوں نے ملازم کو بھی فارغ کر دیا اور اب ماں اور بہن رکشہ کر کے خود ٹفن پہنچانے جاتی ہیں۔ عابد اب بھی گھر میں پڑا نشے کی پڑیاں لے کر سوتا رہتا ہے۔ کھاتا ہے اور نشہ کر کے پھر سو جاتا ہے۔ نتیجہ بہرحال تباہی ہے۔ عابد کی طرح اور اس کی ماں کی طرح نہ جانے کتنے نوجوان اور ان کے ماں باپ کن کن عذابوں سے گزرے ہوں گے۔ کسے پتا؟
ضیا الحق کا امریکا کا اتحادی تھا۔ قبر ایک تھی اور دفن ہونے والے دو۔ لیکن اپنی اور امریکا کی خواہش پوری کرنے کے بعد جب موصوف افغانیوں اور ہیروئن کو پاکستان لائے تو ملک میں ہیروین کلچر پھیلا لیکن ان کے پیش نظر محض اپنا اقتدار تھا جس کے لیے انھوں نے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا، صحافیوں کو کوڑے لگوائے اور دیگر ''کارہائے نمایاں'' انجام دیے، وہیں مملکت پاکستان کی پاک سرزمین کو مجرموں، دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور ہیروئن فروشوں کی جنت بنا دیا۔گلی گلی لوگ گروپ کی صورت میں نشہ کرتے دکھائی دینے لگے۔ جو پولیس کی مٹھی گرم کر کے اپنا کاروبار نہایت منظم طریقے سے چلانے لگے۔
ہمارے یہ ٹریفک پولیس اہلکاروں کو رشوت لینے کے نایاب طریقے پتا ہیں۔ گاڑیاں اور اسکوٹر روک کر وہ کاغذات طلب کرینگے جو اس وقت ڈرائیور یا مالک کی جیب میں نہ ہوں۔ مثلاً لائسنس کی صرف فوٹو کاپی کیوں ہے؟ انشورنس کا کاغذ کیوں نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ فوراً چالان کا پرچہ کٹنے لگتا ہے۔
جوں ہی ڈرائیور ہاتھ پیر جوڑ کر سو روپے دینے کی کوشش کرتا ہے تو فرماتے ہیں ''100 کا میں کیا کروں گا، اتنے تو مجھ سے لے تُو'' اور وہ جو پچاس لے کر جان چھوڑ دیتے تھے اب مالک کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر 200 یا 300 سے کم کی بات نہیں کرتے۔ انھیں ہاتھ کے اشارے سے وہ گاڑیاں روکنا تو خوب آتا ہے جس میں خواتین بیٹھی ہوں، لیکن گلی گلی ہیروئن کی پڑیاں بیچنے والے اور خریدنے والے دکھائی نہیں دیتے، کیونکہ وہ ان کے کاروباری شراکت دار ہیں۔
صوبائی حکومتوں کو سب معلوم ہے، افسوس یہ کہ جب حکومتی صفوں میں اور اقتدار کے ایوانوں میں ہیروئن اور ہتھیار فروش موجود ہوں تو ان کے کارندوں پہ کون ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے سیاست دانوں کو بھی انھی جرائم پیشہ لوگوں کی مالی مدد درکار ہوتی ہے، جس کے عوض وہ من مانی شرائط پوری کرواتے ہیں۔
ایسے میں اپنے بچوں کو نشے سے دور رکھنے کے لیے والدین کو لڑکوں کی سرگرمیوں اور حلقہ احباب پہ ضرور نظر رکھنی چاہیے۔ کیونکہ لڑکوں کی تربیت لڑکیوں سے زیادہ کٹھن اور مشکل ہوتی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جب بھی کوئی نوجوان ہیروئن کی لت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی ماں کے دل سے کس کے لیے بددعائیں نکلتی ہوں گی۔ پاکستان ہر طرح کے جرائم پیشہ لوگوں کی آماجگاہ ہے اور کوئی ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔