نئی نسل کے مستقبل پر ایک فکر انگیز تحریر
ایک زمانہ تھا کہ سب سے کم اہمیت بچوں کو دی جاتی تھی۔ اس وقت صرف غریب گھرانوں میں ہی نہیں،
ISLAMABAD:
ایک زمانہ تھا کہ سب سے کم اہمیت بچوں کو دی جاتی تھی۔ اس وقت صرف غریب گھرانوں میں ہی نہیں، امیر خاندانوں میں بھی یہ چلن تھا کہ بچے پیدا کرتے چلے جاؤ اور انھیں پیدا کر کے بھول جاؤ۔ ان کی تعلیم، ان کی تربیت پر چند ہی گھرانوں میں زور دیا جاتا تھا اور ان ہی میں سے اکثر بچے تعلیم یافتہ، شائستہ اور مہذب ہوتے تھے اور اپنی روایات سے بھی جڑے ہوئے ہوتے تھے۔
گزشتہ دنوں میں عصمت چغتائی پر کچھ لکھنے کے لیے ان کی بعض تحریریں پھر سے پڑھ رہی تھی۔ انھوں نے اپنے والدین، خاندانی در و بست اور بچوں کی طرف سے بے اعتنائی کا جو احوال لکھا ہے، وہ حیران کر دیتا ہے۔ عصمت ہندوستان کے متوسط طبقے کے ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جس میں وکیل اور جج ہوتے تھے۔
شعر کہے جاتے تھے، ادبی اور سیاسی بحثیں ہوتی تھیں۔ باپ کبھی مجسٹریٹ، کبھی کلکٹر ہوئے لیکن ان کے ذہن میں کبھی یہ نہ آیا کہ بیگم ہر ڈیڑھ برس بعد اگر انھیں اولاد کی دولت سے سرفراز نہ کریں تو کیا ہی اچھا ہو۔ عصمت خود ماں باپ کی دسویں اولاد تھیں۔ یہ سلسلہ جاری رہتا اگر ایک بندر کو ان کی اماں پر رحم نہ آ جاتا۔ عصمت نے لکھا ہے کہ ان کی اماں ہندوستان کی آبادی میں ایک اور فرد کا اضافہ کرنے والی تھیں، نڈھال بے حال آنگن میں پلنگ پر لیٹی تھیں، پیٹ پر ایک کٹوری دھری تھی، جس میں چنے رکھے تھے۔
وہ اس میں سے ایک ایک دانہ اٹھا کر منہ میں ڈال رہی تھیں۔ آنگن میں لگے ہوئے ہرے بھرے پیڑوں پر بیٹھے ہوئے ایک بندر کو یہ خیال آیا کہ اسے بھی کٹوری سے چنے کھانے چاہیئں۔ بہ قول عصمت 'بندر نے اوپر سے اماں کے پیٹ پر چھلانگ لگائی۔ اماں کا حمل ضایع ہو گیا اور پھر ان کے یہاں کوئی بچہ نہیں ہوا۔
فیملی پلاننگ کا یہ طریقہ یقیناً مناسب نہیں تھا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عصمت اپنے والدین کی دسویں اولاد ہی رہیں۔ انھوں نے اپنے خاندان اور گھرانے میں بچوں کی افراط کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ اتنا پُر لطف ہے کہ ہم اسے پڑھ کر ہنستے ہنستے دہرے ہو جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر لڑکے نہیں پڑھ رہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ زمینداری ہے، باغات ہیں، کچھ نہ کچھ تو کر ہی لیں گے۔ نکھٹو بیٹے مالدار سسرالوں میں بیاہ دیے جاتے ہیں اور بہت سے مسائل بیوی کا میکہ سمیٹ لیتا ہے۔
بیٹیوں کے پڑھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، گھر میں جتنی اردو اور قرآن پڑھا دیا جاتا ہے، وہ عمر گزارنے کے لیے بہت ہے۔ چند ایک روشن دماغ مردوں نے بیٹیوں یا چھوٹی بہنوں کو اسکول بھیجنے کی کوشش کی تو کنبے میں غدر مچ گیا۔ یہ اپنی لڑکیوں کو 'کرشٹان' کرنا تھا۔ ان لوگوں کا حقہ پانی بند ، برادری باہر۔ آخر کار اسکول سے لڑکیاں اٹھا لی گئیں۔
عصمت نے ایک ایسے خاندان میں کیسے اور کتنا پڑھا یہاں اس کے بیان کی گنجائش نہیں۔ بس اتنا ہے کہ عصمت کو تعلیم اور بہ طور خاص لڑکیوں کی تعلیم پر بہت اصرار تھا۔ زمانہ تیزی سے بد ل رہا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ پھر تعلیم کا ایسا سیلاب آیا کہ جس کا مقصد صرف ملازمت حاصل کرنا تھا۔ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی علم حاصل کرنے کے لیے نہیں، روپے کمانے کے لیے پڑھنے لگیں اور اس کے ساتھ ہی مغرب کی نقالی کو ایک شان سمجھا جانے لگا۔
وہ چاہتی تھیں کہ نئی نسل روزگار کی خاطر یقیناً پڑھے لیکن اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ علم حاصل کریں جس سے سماج کو حقیقی معنوں میں بدلا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی روایات کو یکسر مسترد کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھیں۔ وہ اپنی چٹخارے دار اور پُر لطف زبان کے لیے مشہور ہیں لیکن یہ ایک ایسا معاملہ تھا جسے انھوں نے بہت سنجیدگی سے لیا اور اس بارے میں کئی تحریریں لکھیں۔ ان میں سے ایک آپ کی نذر ہے:
وہ لکھتی ہیں کہ ہم اپنے بچے کو پیدا ہوتے ہی بتاتے ہیں کہ وہ پیسہ کمانے کی مشین ہے۔ اسے صرف پیسہ کمانا ہے اور خصوصاً لڑکے کے لیے یہ ضروری ہے۔ لڑکیوں کو شادی کرنا ہے، لیکن اب لڑکی کے دل میں بھی ڈال رہے ہیں کہ تجھے بھی پیسہ کمانا ہے، پیسہ کما، کسی طرح سے کما، کہیں سے کما، ظاہر ہے کہ مشرق سے زیادہ مغرب میں پیسہ کمانے کے مواقع زیادہ ہیں۔
اس وقت لڑکا مغرب کی طرف جا رہا ہے۔ وہ مغرب کی محبت میں نہیں جا رہا ہے، وہ مغرب کی تہذیب کی محبت میں نہیں جا رہا ہے، مغرب میں جو اسے دولت ملتی ہے وہ اس کی لالچ میں جا رہا ہے، مغرب میں رہتا ہے، مغرب میں رہنا فخر سمجھتا ہے، مغرب کی نقل کرنا فخر سمجھتا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد صرف زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔
بڑا سا بنگلہ خریدو، موٹر خریدو اور دنیا کی آسائش خریدو، مغرب کی نقل کرو، یہ تو ہم بچے کو پیدا ہوتے ہی سکھا دیتے ہیں کہ وہ صرف مغرب کی ہی پیروی کرے۔ ہم اس کے لیے بچپن میں کاؤ بوائے کا لباس خریدتے ہیں۔ اس کو انگریزی لباس پہناتے ہیں۔ بچی کو فراک پہناتے ہیں ہم اسے پینٹ پہناتے ہیں۔ وہ بچہ کیوں نہ مغرب کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔ پھر ہم شکایت کرتے ہیں کہ مغرب کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ جب وہ مغرب کی پوجا کرنے لگتا ہے تو ہم شکایت کس طرح کر سکتے ہیں۔ ہم اسے مغرب کی پوجا سکھاتے ہیں اور مغرب کی پوجا ہم اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں دولت ہے، وہاں صنعتکاری ہے۔
صنعت کاری دولت لاتی ہے۔ یہ دولت کی ہوس ہے جو ہمارے دلوں میں مشرقی تہذیب کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہے اور مغرب کی تہذیب کو اپنانے کی دعوت دیتی ہے۔ ہمارا کلچر کیا ہے...؟ ہمارا کلچر آج کی زندگی میں بے کار ہے۔ ہمارا کلچر مٹتا جا رہا ہے۔ اب کہاں چاندنی اور قالین بچھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نہ وہ گاؤ تکیے ہیں اور نہ وہ مسند ہے اور نہ وہ تخت ہیں۔ اب سب صوفہ سیٹ پر بیٹھتے ہیں۔ دسترخوان غائب ہو گیا ۔ اب کھانے کے لیے کھانے کی خصوصی میز اور کرسیاں ہیں۔ ہم اپنے بچے کو مغرب کی نقل کرنے کے لیے ہی پالتے ہیں۔ ہمیں اس سے شکایت ہے، وہ مغرب کی اچھائیاں بھی لیتا ہے۔
ہم اسے مغرب کی طرف بھیجتے ہیں۔ فخر سمجھتے ہیں کہ وہ وہاں سے ڈگری لائے۔ بچہ کا کوئی قصور نہیں ہے، نوجوانوں کا کوئی قصور نہیں ہے اگر وہ دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ان سے کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی تہذیب کی طرف دھیان دو لیکن ہماری تہذیب ہے کہاں! کتنے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو اپنی تہذیب و تمدن کی تعلیم دیتے ہیں، کتنے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو موئن جو دڑو دکھانے لے جاتے ہیں۔ کتنے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو عجائب گھر لے جا کر انھیں اپنے ملک کے آثارِ قدیمہ سے روشناس کراتے ہیں۔ سب مغربی رہائش اور طرز گفتگو کی نقل کرتے ہیں۔ آج بھی ہمارا طریقہ تعلیم مغربی ہے۔
آپ ہی دیکھئے کہ انگریز چلا گیا لیکن انگریزی اب بھی ہماری زندگی کا سہارا ہے۔ نوکری انگریزی سے ملتی ہے، انگریزی تعلیم سے ملتی ہے۔ ہندی اور اردو صفِ دوم پر ہے۔ غریب آدمی کو ہندی پڑھاتے ہیں تا کہ وہ محدود دائرے میں گھومتا رہے اور جنھیں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے وہ مغربی تعلیم حاصل کرتے ہیں، مغربی تعلیم سے حکومت کی جاتی ہے۔ حاکم بننے کے بعد دولت جمع کی جا سکتی ہے۔ جب ہم اپنے ملک میں رہتے ہوئے مغربی اندازِ فکر رکھتے ہیں اور اس پر عمل کر رہے ہیں تو پھر کس طرح بچوں اور جوانوں کو مغربی تہذیب کے اثر سے دور رکھ سکتے ہیں۔
جب ہم نے اپنی تہذیب کو خیر باد کہہ دیا تو پھر ہم کس منہ سے اپنے بچوں سے کہیں کہ مغرب سے دور بھاگو، اس لیے کہ مغرب اور اس کی باتیں ہمارے گھرانوں میں داخل ہو چکی ہیں جن کو ہم گھر سے باہر نہیں نکال سکتے ہیں یا نکالنا نہیں چاہتے۔ اسے ملک بدر تو کیا شہر بدر بھی نہیں کر سکتے ہم نے سفید فام اقوام سے آزادی حاصل کی مگر ہم آج بھی معاشی طور پر مغربی اقوام کے غلام ہیں۔ مغربی اقوام خوشحال اور دولت مندبینکر ترقی پذیر ملکوں کو غریب سے غریب تر دیکھنا چاہتی ہیں۔ اب اہمیت اس امر کی ہے کہ ہم خود اعتمادی پیدا کریں، اور خود اعتمادی ترقی پسند ادب ہی پیدا کر سکتا ہے۔
اگر ہمارے ادیبوں نے عوام کی بہتری کے لیے اپنے قلم کو استعمال نہ کیا تو ہمیں افسوس ہو گا اس لیے کہ جو ادیب، صحافی اور مفکر حالات حاضرہ سے منہ موڑ کر محض ذاتی اغراض کی خاطر مضامین لکھیں گے۔ ان میں کوئی جان نہ ہو گی اور بے جان شے بے معنی ہوتی ہے۔''
اس تحریر کو پڑھیے تو احساس ہو تا ہے کہ عصمت خانم چغتائی جن پر ان کے بے باک افسانوں اور ناولوں کے حوالے سے انگلیاں اٹھتی تھیں، مقدمے چلتے تھے، انھیں اپنی روایات کا اور نئی نسل کے مستقبل کا کیا درد تھا۔