ایوب خان سے پرویز مشرف تک

اب یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسے ابتدا ہی میں ایسے گوناگوں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا


Amjad Islam Amjad March 20, 2016
[email protected]

کل ساری شام بلکہ رات تک کم و بیش ہر ٹی وی چینل پر جنرل پرویز مشرف کو دی جانے والی بیرون ملک روانگی کی اجازت کی اخلاقی، سیاسی اور قانونی حیثیت زیر بحث رہی۔ اس کے حق اور مخالفت میں ہر طرح کی دلیلیں پیش کی گئیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے اسے مسلم لیگ ن کی ناکامی اور نااہلی قرار دے کر تنقید اور طنز کے نشتر خوب خوب چلائے لیکن ایک انگریزی محاورے کے مطابق Last laugh یعنی آخری اور فیصلہ کن قہقہہ مرکزی وزیر محمد زبیر کے حصے میں آیا جنھوں نے تمام معترضین کو یہ کہہ کر ایک دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا کہ اگر اس وقت آپ حکومت میں ہوتے تو کیا فیصلہ کرتے؟

یہ تھی تو ایک مناظرے والی دلیل مگر اس کے جواب میں جس طرح سے ہر اعتراض کنندہ نے آئیں بائیں شائیں کی وہ لائق افسوس تھی اور قابل غور بھی۔ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کا آغاز کب کیوں اور کیسے ہوا اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور یہ جاننا بھی لازمی ہے کہ کیا چند جرنیلوں کے سیاسی عزائم کو فوج کا اجتماعی فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ فوج کا ادارہ اپنی تربیت اور نوعیت کے اعتبار سے ہائی کمان کے کیے گئے فیصلے اور دیے گئے حکم کی تعمیل کا پابند ہوتا ہے۔

اب یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسے ابتدا ہی میں ایسے گوناگوں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جن سے کماحقہ نمٹنے کی صلاحیت اس وقت کی سیاسی قیادت میں نسبتاً کم تھی اور قائد کے بعد اس کی کمی اور زیادہ نمایاں ہو گئی۔ پاکستان کے حصے میں آنے والی فوج بھی اگرچہ اس وقت کوئی بہت اچھی حالت میں نہیں تھی لیکن فسادات اور کشمیر کی جنگ آزادی میں اپنے مثبت کردار کے باعث وہ بہت جلد ملک کا سب سے محکم اور منظم ادارہ بن گئی۔

ابتدائی برسوں کی سیاسی افراتفری اور سیاستدانوں کی عمومی ناتجربہ کاری کے باعث بیوروکریٹس اور فوجی جرنیل اپنے اصل قد سے بڑے ہونا شروع ہو گئے جس کے نتیجے میں غلام محمد گورنر جنرل اور حاضر سروس کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان وزیر دفاع بن گئے۔ ملک کو مسائل کے بھنور سے کیسے نکالا اور بہتر طریقے سے چلا جائے؟ یہ سوال قوم کے ہر طبقے کو پریشان کر رہا تھا ایک طرف جہاں آئے دن وزیراعظم بدل رہے تھے اور سیاسی سطح پر ہم نو سال میں آئین تک نہیں بنا پائے تھے وہاں فوج اور اس کے چند جرنیلوں کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی اور دیکھا جائے تو پنڈی سازش کیس اور ایوب خان کا مارشل لاء دونوں نے اسی بے چینی کی کوکھ سے جنم لیا۔

ایوب خاں کے مارشل لا کے نفاذ کا اولین عمومی اور عوامی ردعمل مثبت تھا کہ عوام گیارہ برس کے سیاسی خلفشار سے اس قدر تنگ اور مایوس ہو چکے تھے کہ ذہنی طور پر ان کے لیے ایک کرن بھی آفتاب کا کام کر رہی تھی۔ اقتدار کی اس تبدیلی کا ایک اور مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ قومی سطح کے فیصلے مختلف الخیال اور کم تجربہ کار سیاستدانوں کی بھیڑ کے ہاتھوں سے نکل کر چند ہم خیال جرنیلوں اور ان کے منتخب کردہ مشیروں کے پاس آ گئے۔

دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر امریکا اور روس کی سرد جنگ میں پاکستان کا جھکاؤ امریکا اور اس کے ساتھیوں کی طرف ہوتا چلا گیا جس سے اکانومی اور صنعتوں کے شعبوں میں بہتری آئی لیکن وہ جو بابا گورو نانک کا ایک قول ہے کہ ''مندی کمی نانکا جو کد مندا ہوئے'' کہ غلط کام کا نتیجہ دیر سے نکلے یا سویر سے نکلتا غلط ہی ہے اب چونکہ ملک چلانا، لوگوں کو فیصلے کا اختیار دینا اور زندگی کے تمام شعبوں کو ان کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھانا نہ تو فوج کا کام تھا اور نہ استحقاق اس لیے بجا طور پر عوام میں اس کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہونا شروع ہوا۔

جس کے نتیجے میں وہ بھی سیاستدانوں کی طرح اپنی گیارہ سالہ اننگز کھیل کر میدان بدر ہو گئے لیکن اس غلطی کا نتیجہ قوم کو آدھا ملک گنوانے کی صورت میں ملا۔ بھٹو نے فوجیوں سمیت شملہ معاہدے میں 93 ہزار پاکستانی جنگی قیدی رہا کرا لیے۔ اسلامی ملکوں کے سربراہان کی کانفرنس اور ایٹمی پروگرام کے آغاز کے علاوہ کئی اور اچھے کام بھی کیے مگر ان کی جلد بازی، تیز طبیعت اور جاگیرداری وابستگیوں نے بہت جلد رنگ دکھانا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ملک ایک بار پھر بحران کا شکار ہو گیا جس کی وجہ سے ایک اور جرنیل یعنی ضیاالحق کو قسمت آزمائی کا موقع مل گیا۔

اگرچہ اس بار فوج کی اس دراندازی کو ایوب خان کے مارشل لاء کے ابتدائی دور جیسی عوامی پذیرائی تو نہ مل سکی مگر بھٹو مخالف اور ہر طرح کے سیاسی طالع آزماؤں نے اس کا پرجوش استقبال کیا اور یوں ایک بار پھر گیارہ برس کے لیے ملک ایک ایسے جرنیل کی بازی گاہ بن گیا جس نے ''اسلام'' کے نام پر تفرقہ انگیزی اور ایک ایسے جہادی کلچر کو فروغ دیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

اس کے بعد پھر گیارہ برس تک سیاستدانوں نے پنگ پانگ کھیلی جس کی بساط جنرل پرویز مشرف نے ''روشن خیالی'' کے نام پر لپیٹی جس کو نائن الیون کے بعد غیر مشروط امریکی تابعداری کی وجہ سے کچھ دیر تک تو تقویت ملی لیکن الیکٹرانک میڈیا کے غیر متوقع انقلاب اور انفارمیشن کے سیلاب کے باعث عوام میں شعور اور مزاحمت کے جو نئے دروازے کھلے ان کی وجہ سے بالآخر انھیں بھی سین سے ہٹنا پڑا یہ اور بات ہے کہ ذہنی سطح پر وہ اب بھی اپنے آپ کو ملک کا نجات دہندہ سمجھتے ہیں ان کے خلاف آرٹیکل 6 سمیت جو مختلف مقدمات قائم ہوئے ہیں۔ ان کی وجہ سے سیاسی حکومتوں اور فوج میں ایک عجیب طرح کا تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ موجودہ فوجی قیادت اور فوج کا عمومی رویہ مشرف کی سیاست اور پالیسیوں کے حق میں نہیں لیکن اپنے ادارے کی حرمت اور اعتماد کی حفاظت کی وجہ سے وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ اس کے سابقہ چیف کو عدالتوں میں گھسیٹا اور اس پر غداری جیسے شرمناک الزام پر مقدمہ چلایا جائے۔

ہماری سیاسی تاریخ کا پس منظر ایسا ہے کہ حکومت وقت اور عدالتیں بھی انفرادی طور پر اس کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں جو یقینا کوئی مناسب صورتحال نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ''مناسب اور صحیح'' صورتحال اس وقت کسی کو بھی وارا نہیں کھاتی یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اس مسئلے کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں حالانکہ اس کا براہ راست تعلق محترمہ بے نظیر کی شہادت سے بھی تھا جس کے نتیجے میں آصف علی زرداری اقتدار میں آئے تھے اسی طرح وزیراعظم میاں نواز شریف کی جلاوطنی کا تعلق بھی جنرل مشرف ہی سے جا ملتا ہے جب کہ عمران خان بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ فوج بے شک مشرف پر لگائے گئے الزامات کے خلاف ہو مگر وہ یقینا انھیں سزا دلوانے کے حق میں نہیں ہو گی کہ اس کی یہ مجبوری جذباتی بھی ہے اور حقیقی بھی۔

جنرل ایوب، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف تینوں کے پاس اپنے اس غیر آئینی اقدام کے لیے کچھ ایسے جواز ہیں جن میں کچھ نہ کچھ وزن ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ تینوں نے اپنے اپنے دور اقتدار میں کچھ اچھے کام بھی کیے لیکن یہ دونوں باتیں اس لیے قابل لحاظ نہیں کہ جو غلط ہے وہ بہرحال غلط ہے۔ گھر کے اندر کے معاملات کو ٹھیک طرح سے چلانا اور مسائل کو حل کرنا اور اس میں کامیاب ہونا یا نہ ہونا ان کا اندرونی معاملہ ہے سو اس کو ان ہی کے درمیان رہنا چاہیے۔ بلاشبہ فوج بھی اسی گھر کا حصہ ہے لیکن اس کی بنیادی ذمے داری گھر کی چار دیواری کا تحفظ ہے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب دونوں طرف اس فرق کی پاسداری کا شعور بڑھ رہا ہے سو اسے بڑھنے دیجیے۔

اپنی پستی کا نہ الزام کسی پر رکھو

پاؤں پھسلے تو اسے پھر سے جما کر رکھو

قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے

اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔