پاک امریکا دوستی

کھال،چمڑا برآمد کر کے بھی ملک کےعوام 100 روپے کا لنڈے کا جوتا خریدنے پر مجبور ہیں ۔


Zuber Rehman November 11, 2012
[email protected]

بقول امریکی دانشور اور ماہر لسانیات پروفیسر نوم چومسکی ''امریکا بلا واسطہ اور بالواسطہ اب تک 88 ملکوں میں مداخلت کر چکا ہے۔

جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ واضح رہے کہ 1962 میں امریکی CIA ، علمائے سو اور جنرل سوہارتو کی سازشوں کے نتیجے میںانڈونیشیا میں 15 لاکھ کمیونسٹوں، سوشلسٹوں، انقلابیوں، انارکسٹوں اور جنگ مخالف آزاد لوگوں کا قتل عام ہوا۔ امریکا کے زیر استعمال اس وقت 10,000 ڈرون ہیں جن کا سالانہ بجٹ 5 ارب ڈالر ہے جب کہ امریکا میں ہی 3 کروڑ افراد بے روزگار ہیں۔ ''جنگ ایسی قوت ہے جو ہمیں معنی دیتی ہے'' نامی کتاب میں 'کرس بسچز' نے انکشاف کیا ہے کہ بیسویں صدی کی جنگوں میں 6 کروڑ 20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں پر ہونے والے 44 ہزار ارب ڈالر میں سب سے بڑا حصہ جنگی صنعت اور میڈیا کمپنیوں کو گیا۔ امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتا ہے۔ اسی سال امریکی جنگی بجٹ 600 ارب ڈالر جب کہ پاکستان کا 510 ارب روپے ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی غیر ملکی سرمایہ کاری میں 67 فیصد کمی ہو ئی ہے۔ گزشتہ سال 26.3 کروڑ ڈالر سے کم ہو کر اس سال 8 کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہ گئی ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہو کر 14.4 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔ صرف کراچی میں 350 سیکیورٹی کمپنیاں کام کرتی ہیں جن میں 3 لاکھ ملازمین کام کرتے ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے لیے ایک ارب 70 کروڑ روپے کی مالیت کا ہوائی جہاز خریدا جارہا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 60 ارب روپے سالانہ خرچ کیا جا رہا ہے اور فی خاندان کو ماہانہ1000روپے دیے جارہے ہیں۔ اگر ان پیسوں سے صنعتیں قائم کی جائیں تو ان 3 لاکھ افراد کو بھکاری بنانے کے بجائے با روزگار کیا جاسکتا تھا۔ فی خاندان کو اگر 5 افراد پر جوڑ لیا جائے تو 15 لاکھ افراد اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے یا پھر ایک لاکھ میگا واٹ بجلی کی گنجائش اور 59 ہزار میگا واٹ کے ادھورے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر نہ صرف صنعت کاری کے راستے کی بڑی رکاوٹ دور کی جاسکتی تھی بلکہ تیل کی درآمد برآمد کے بھاری اخراجات میں کمی کی جاسکتی تھی۔

اگر واپڈا کی بجلی پورے 24 گھنٹے مہیا ہو تو روزانہ پرائیویٹ جنریٹرز سے چلنے والے کروڑوں لیٹرز پیٹرول، ڈیزل اور اتنی ہی گیس کو بچایا جاسکتا ہے۔ ایک مشروب ساز کمپنی نے کراچی، گجرانوالہ، سیالکوٹ، رحیم یار خان، ملتان اور لاہور میں سیکڑوں مزدوروں کو برطرف کر دیا گیا ۔ اور ہزاروں سے ٹھیکیداری نظام کے تحت کام لیا جارہا ہے، کراچی میں اس مشروب ساز کمپنی کو 22 فیصد گروتھ حاصل ہو ئی ہے اس کے باوجود ملازمین کو برطرف کیا گیا۔ گجرانوالہ میں 600 ملازمین ٹھیکیداری کے تحت کام کر رہے ہیں، ٹینری ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف عید قرباں میں 130 ارب روپے کا چمڑا اور کھال برآمد ہوئی۔ کھجور کی برآمد میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔ اس بار 5 لاکھ 80 ہزار ٹن کھجور برآمد کی گئی۔ اسی طرح سبزیاں اور پھلوں کی برآمد بھی ہوئی 1.80 ملین ٹن یعنی 18 لاکھ ٹن اضافی گندم موجود ہے۔ جب کہ دوسری جانب اتنے کھال،چمڑا برآمد کر کے بھی عوام 100 روپے کا لنڈے کا جوتا خریدنے پر مجبور ہیں 50 فیصد کسان برہنہ رہتے ہیں۔

گندم، کھال، چمڑے اور کھجور اربوں روپے کا برآمد تو کر لیتے ہیں لیکن گندم کی پیداوار میں 38 لاکھ ٹن کی کمی آئی ہے یعنی 18 لاکھ ٹن اضافی گندم کے علاوہ مزید 38 لاکھ ٹن گندم پیدا کی جاسکتی تھی، اس لیے کہ جن اجناس میں سرمایہ دار کو منافع کی شر ح زیادہ ہوتی ہے ان پیداوار میں اضافہ کرتا ہے اور اگر گندم کی پیداوار میں منافعے کی شرح کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار کم کردی جاتی ہے، اس لیے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار عوام کی ضرورتوں کے لیے نہیں کی جاتی بلکہ منافعے میں مزید اضافے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ براحال کسانوں کا ہے۔

ایک محتاط اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بارانی علاقوں کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 35 سے 40 من ہے جو کہ کسی بھی صورت تسلی بخش نہیں ہے۔ ایک کسان اپنی فصل کی دیکھ بھال اس طریقے سے کرتا ہے کہ 6 ماہ تک وہ دن و رات کھیتوں میں ہی گزاردیتا ہے لیکن جب اسے محنت کا صلہ ملنے کی امید ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو خود خالی ہاتھ ہے۔ کسانوں کے فصلوں پر پڑنے والے اخراجات کے اعداد شمار کے مطابق دھان کی پینری کا خرچہ 1500 روپے زمین کی تیاری پر 3200 روپے فی ایکڑ یوریا کھاد 600 روپے، ڈی اے پی کھاد 50/50 کلو کے 400 روپے جو کہ دھان کی فصل تیار ہو کر پکنے تک 2/2 بار کھیت میں ڈالی جاتی ہے۔ فی ایکڑ فصل کی بوائی کا خرچ 400 روپے، کٹائی 3500 روپے، پانی کا بل 16000 روپے، زنک دوائی 500 روپے کیڑے مار اسپرے 1200 روپے یعنی کل تقریباً 27100 روپے فی ایکڑ لاگت فصل پر تیار ہوتی ہے، اس میں خود کسان کی محنت شامل نہیں ہے اور اوسطاً 35 من کے حساب سے فصل کی قیمت جو کہ حکومت پاکستان کے طے شدہ ریٹ کے مطابق 35000 روپے بنتے ہیں جب کہ لاگت 27100 روپے اور قیمت و فروخت کے مطابق فی ایکڑ بچت 7900 روپے ہوتی ہے درمیانے درجے کا کاشتکار جس کی ملکیت 5 ایکڑ سے لے کر 10 ایکڑ تک ہے۔

6 ماہ کی محنت کے بعد کسان ان رقوم سے کس طرح گزارہ کر سکتا ہے اور اپنے بچوں کے اخراجات پورا کرسکتا ہے۔ کبھی کھاد کا بحران پیدا کردیتے ہیں اور ڈیزل اور بجلی کی قیمت بڑھانے کے نئے جواز تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ ہمارے نام نہاد انقلابی رہنما یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم اقتدار میں آ کر یہ سب کچھ ٹھیک کردیں گے۔ لیکن پاکستان کی 60 فیصد دیہی آبادی جو کہ کسانوں پر مشتمل ہے کبھی ایک لفظ تک ان پر کسی نے نہیں بولاکیونکہ یہ خود صاحب جائیداد طبقات کے لوگ نہیں نا کہ کسی کسان کاشتکار یا کسی ہاری کے خاندان سے ان کا تعلق ہے۔ پنجاب میں حکمران پچھلے چار سال سے کبھی سستی روٹی کے نام پر اور کبھی بس ٹرانزٹ منصوبہ ،کبھی دانش اسکولوں اور آج کل انڈر پاس اور فلائی اوور پل بنانے میں مصروف نظر آتی ہے اور وہ بھی صرف شہروں تک محدود ہے۔

دیہی لوگوں اور کسانوں کی طرف دھیان دینے کی بھی ضرورت ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت تو صرف دکھاوے کی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے اپنے اقتدار کے دوران غریب آدمی کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ ہماری نام نہاد ملکی اور غیر ملکی NGOs کو صرف اور صرف شہروں کی مخصوص حدود میں غربت اور مسائل نظر آتے ہیں اور وہ بھی کچھ لچکدار تقریروں تک، عوامی مسائل ان کی سوچ سے بھی دور ہیں۔ شہر میں تو غریب آدمی اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کوئی نہ کوئی (بھیک مانگ کر یا چھین کر) بندوبست کر ہی لیتا ہے لیکن دیہی علاقوں میں رہنے والے اپنے پیٹ کی آگ کیسے بجھاتے ہیں یہ تو وہی جانتے ہیں۔ جو دوپہر کی سلگتی گرمی اور سخت سردی میں بھی صبح سویرے ننگے پائوں، پھٹے پرانے کپڑوں میں گھر سے نکلتے ہیں اور رات ڈھلنے پر خالی ہاتھ واپس گھرآتے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے کسان، ہاری یا مزارعے جنھیں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے اس جہنم نما دنیا سے نجات اور پیداواری کارکنوں کا پیداوار پر قبضہ کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ داری کے جوئے سے پیداواری کارکنوں کو آزاد کرایا جائے، 18کروڑ کی آبادی کو فوجی تربیت دلوائی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں