بھارتی حکومت کا نیا ’’باغی‘‘ کنہیا کمار

طالب علم راہ نما کی للکار سے بھارتی حکومت لرز گئی

طالب علم راہ نما کی للکار سے بھارتی حکومت لرز گئی ۔ فوٹو : فائل

شام ڈھل چکی ہے، مگر دلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے احاطے میں خوب رونق ہے۔۔۔ پرجوش طلبہ وطالبات کا ایک بڑا ہجوم ہے۔۔۔ جو اپنے بیچوں بیچ درمیانے قد کے ایک لڑکے کی شعلہ بیانی پر ہمہ تن گوش ہے۔۔۔ چاروں طرف سے گھرا ہوا یہ لڑکا طالب علم راہ نما کنہیا کمار ہے، جو کسی منجھے ہوئے مقرر کی طرح ایک ایک جملے اور فقرے کے تیر بنا کر اپنی حکومت پر نشانہ باندھ رہا ہے۔۔۔ اس کے گرجتے برستے لہجے کا یہ کاٹ دار طنز ہے، جس نے اسے غداری کے مقدمے تک پہنچا دیا ہے۔ سامعین اس کے ایک ایک بات پر ردعمل دیتے ہیں، کہیں شیم، شیم، تو کہیں انقلاب، تو کہیں لہجے کے اتار چڑھاؤ توکہیں نپے تلے الفاظ کی بُنت پر بے ساختہ داد وتحسین اور کبھی کسی شگفتہ جملے پر جھوم جھوم جاتے ہیں، پھر دیر تک 'آزادی، آزادی' کے نعروں سے دلی کی یہ آزاد یونیورسٹی گونجتی رہتی ہے۔

یہ غداری کے الزام میں گرفتار ہونے والے طالب علم راہ نما کنہیا کمار کی رہائی کے بعد کا منظر ہے۔ غداری کے الزامات کے تانے بانے حیدرآباد یونیورسٹی میں خودکُشی کرنے والے ایک دلت طالب علم روہت ویمولا سے ملتے ہیں۔ امبیدکر اسٹوڈنٹس یونین سے وابستہ روہت ویمولا نے جب ممبئی بم دھماکوں کے ملزم یعقوب میمن کی پھانسی پر احتجاج کیا، تو دوسری طلبہ تنظیم 'اے بی وی پی' (اکھل بھارتی ودیارتھی پرشد) کے انتہا پسند طلبہ گویا تلواریں سونت کر آن موجود ہوئے۔

ان کے خلاف شکایت کرا کے ان کا 25 ہزار روپے کا تعلیمی وظیفہ رکوا دیا گیا۔ اس کے بعد دونوں طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم ہوا، روہت اور ان کے ساتھیوں پر تشدد کا الزام لگا کر انہیں ہاسٹل سے نکال دیا گیا۔ اس معاملے کے لیے قائم کردہ کمیٹی نے روہت اور اس کے ساتھیوں کو جامعہ سے بے دخل کرنے کی سفارش کی، شیخ الجامعہ نے اس پر عمل کرنے سے انکار کیا، تو ان کا تبادلہ کرادیا گیا، نئے شیخ الجامعہ نے آکر روہت اور اس کے ساتھیوں کو یونیورسٹی سے نکالا تو 17 جنوری 2016ء کو روہت ویمولا نے دل برداشتہ ہو کر خودکُشی کرلی۔ جس پر ملک بھر کی طرح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں بھی زبردست احتجاج ہوا۔

جواہر لعل یونیورسٹی میں اس معاملے پر زبردست احتجاج کی لہر جاری ہی تھی کہ اس دوران نو فروری آگئی، جب بھارتی پارلیمان پر حملوں کے ملزم افضل گرو کی برسی پر یونیورسٹی میں ایک تقریب ہوئی، جس میں مبینہ طور پر کچھ بھارت مخالف نعرے لگے اور ایک بھونچال آگیا۔ جے این یو کی طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کر کے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔

افضل گرو حوالے سے ایک دوسری تقریب پریس کلب میں بھی ہوئی، جس کے حوالے سے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی اور جے این یو کے شعبہ اردو کے صدر اور آل انڈیا ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر علی جاوید پر شبہہ کیا گیا۔ پریس کلب آف انڈیا نے ان کی رکنیت ختم کردی، حالاں کہ انہوں نے تقریر میں افضل گرو اور مقبول بٹ کو شہید قرار دینے کی مذمت کی تھی۔ اس کے ساتھ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر سید عبدالرحمٰن گیلانی کو بھی غداری کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین اور کنہیا کمار نے ایسے نعروں سے لاتعلقی اور بی جے پی کی طلبہ تنظیم 'اے بی وی پی' (اکھل بھارتی ودیارتھی پرشد) کی سازش اور انتقامی کارروائی قرار دیا۔

یونین صدر کی گرفتاری کے بعد جے این یو کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا کہ یہ کیسے اصول ہیں کہ جن کے تحت موہن داس گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈ سے تو واجب الاحترام قرار پاتا ہے، لیکن افضل گرو کے معاملے پر ذرا سی بات کرنے پر ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو پر بھی سخت تنقید کا سلسلہ جاری ہے، لیکن کبھی کسی نے ایسی تنقید کرنے والوں پر ملک دشمنی یا غداری کا الزام نہیں دھرا۔

بوکھلاہٹ میں وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس واقعے میں لشکرطیبہ تک کو ملوث قرار دے دیا اور اندھا دھند چھاپے اور طلبہ سے پوچھ گچھ شروع کردی گئی۔ جو بھی داڑھی والا یا بائیں بازو کا معلوم ہوا، اسے دھر لیا گیا۔ حتیٰ کہ دلی میں جاری ادبی تقریب 'جشن ریختہ' کی تقریب سے بھی جے این یو کے طلبہ دیو برت، اتل اور انیر ودھ کو حراست میں لے کر چار گھنٹے تھانے میں تفتیش کی گئی، نام، پتا اور سرگرمیوں کے علاوہ ان سے یہ پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسے بال کیوں بنائے ہوئے ہیں، داڑھی کیوں رکھی ہوئی ہے اور ایسا حلیہ کیوں بنایا ہوا ہے۔



جے این یو کی ریسرچ اسکالر نورجہاں مومن کہتی ہیں،''اس یونیورسٹی میں آپ کو ملک کے تمام حصوں اور سماج کے سب ہی طبقوں سے وابستہ لوگ مل جائیں گے، جس یونیورسٹی پر آج ملک مخالف ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے، وہ دراصل ملک کو متحد رکھنے کا کام انجام دے رہی ہے۔ جب ملک ذات پات، رنگ ونسل، زبان اور معاشی اونچ نیچ کی بنیاد پر تقسیم ہو، ایسے میں نہرو یونیورسٹی میں کشمیر سے کیرالہ تک کے طلبہ ایک ساتھ دکھائی دیں گے۔ 1984ء کے مذہبی فسادات میں جے این یو کے اساتذہ اور طلبہ ہی نے کیمپس کو پناہ گزین کیمپ میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہ جامعہ ملک بھر میں بہترین درجہ بندی حاصل کرنے والی جامعہ ہے۔''

کنہیا کمار کی گرفتاری کے اگلے روز کانگریسی راہ نما راہول گاندھی طلبہ کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے طلبہ کی آواز دبانے کو سب سے بڑی غداری قرار دیا۔ غداری کے الزامات میں زی ٹی وی کی ایک فوٹیج نے اہم کردار ادا کیا، جو کہ پورا دن زی ٹی وی پر نشر ہوتی رہی، اس تنازعے کے بعد زی سے وابستہ ایک صحافی وشو دیپک نے اپنی ذمہ داریوں سے استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک کوخانہ جنگی میں دھکیلنے کی کوششوں کا حصہ نہیں بن سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی ویڈیو جس ادارتی بورڈ کے پاس آئی، میں اس میں شریک تھا، اس میں پاکستان زندہ باد اور افضل گرو کی حمایت میں نعرے ضرور لگ رہے تھے، لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ نعرے لگا کون رہا ہے۔ اس کے باوجود اسے نشر کیا گیا، اس کے بعد حالات خراب ہوئے، تو میرے ضمیر نے ملامت کیا اور میں خود کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے مستعفی ہوگیا۔

اِدھر تین روزہ ریمانڈ ختم ہونے کے بعد جب کنہیا کمار کو پیشی کے لیے لایا گیا، تو ان پر بی جے پی کے کارکنوں نے دھاوا بول دیا۔ بی جے پی کی رکن اوپی شرما بھی اس مارپیٹ میں ملوث ہوئے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پیشی کے موقع پر انہوں نے 'پاکستان زندہ باد' کے نعرے سنے، جس پر صورت حال خراب ہوئی۔ پولیس نے اوپی شرما کو اس وقت حراست میں لے لیا، بعد میں ان کی ضمانت ہوگئی۔ ساتھ ہی ان مناظر کی عکس بندی کرنے والے صحافیوں اور فوٹو گرافروں پر بھی ہلہ بولا۔

دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا ہے کہ بی جے پی اور راشٹریہ سوک سنگھ کی مخالفت ہی کنہیا کمار کا سب سے بڑا جرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ سرکاری جماعت سے ہوں، پھر چاہے آپ کسی کو بھی پیٹ ڈالیں، کوئی پوچھے تو الزام لگا دیں کہ وہ ہند مخالف نعرے لگا رہا تھا۔

واقعے میں نام زَد 20 ملزمان میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹ یونین کے صدر عمرخالد کا نام بھی شامل تھا، ان کے والد اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ڈاکٹر قاسم رسول نے اپنے بیٹے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسے مسلمان ہونے کی بنا پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کنہیا کمار کی گرفتاری کے فوری بعد باقی طلبہ روپوش ہوگئے، لیکن 21 فروری کی رات عمر خالد یونیورسٹی میں سامنے آئے اور احتجاج کرنے والے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا،''میرا نام عمر خالد ہے اور میں دہشت گرد نہیں۔ میں نے کیمپس میں خود کو کبھی مسلمان کے طور پر پیش نہیں کیا۔ ہم نے ہمیشہ مسلمانوں کے استحصال کو دلت، قبائلی اور دوسرے پس ماندہ طبقے کے استحصال کے طور پر دیکھا۔'' انہوں نے بتایا کہ وہ اس لیے چھپے ہوئے تھے کہ انہیں ڈر تھا کہ انہیں مار مار کر ہلاک کردیا جائے گا۔ حالات بہتر لگے، تو وہ کیمپس لوٹ آئے۔ رات کو وہ انربان بھٹا چاریہ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ یونیورسٹی سے نکلے اور پولیس کو گرفتاری دے دی اور اب بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔

22 روز کی حراست کے بعد کنہیا کمار کو 10 ہزار روپے کے عوض چھے ماہ کے لیے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ کے پچھلے فیصلوں کی روشنی میں محض نعروں پر غداری جیسے الزامات کا مقدمہ نہیں بنتا۔ کنہیا کے دو ساتھی عمر خالد اور انربھٹا چاریہ فی الحال تہاڑجیل ہی میں قید ہیں۔

رہائی کے بعد نہرو یونیورسٹی کے پرجوش طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افضل گرو اس ملک کا شہری تھا، جسے اس ملک کے قانون نے سزا دی، لیکن وہی قانون اس ملک کے شہری کو اس سزا کے خلاف بولنے کا حق بھی دیتا ہے۔ میرے لیے افضل گرو ہیرو نہیں تھے، میرے لیے روہت ویمولا ہیرو تھے۔ انہوں نے نعرہ لگایا،'تم کتنے روہت مارو گے، ہر گھر سے روہت نکلے گا۔'


رہائی کے بعد انتہاپسندوں کی جانب سے کنہیا کمار کو گولی مارنے پر 11 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے کنہیا کمار کی حفاظت کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں، جس سے ساتھی طلبہ کو شکایت ہے کہ اس طریقے سے حکومت کنہیا کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا کام لے رہی ہے۔

عالمی یوم خواتین کی تقریب میں جب انہوں نے بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات ذکر کیا، تو ایک اور بھونچال آگیا۔ یہ بیان آنا تھا کہ ان پر ایک طالبہ کی جانب سے دھمکانے کے الزامات لگے اور ان پر جرمانہ ہوا۔

کنہیا کمار کے واقعے سے واضح ہے کہ بھارتی حکومت کے لیے راج دہانی میں واقع نہرو یونیورسٹی کی علم وفکر کی آزادی ہضم کرنا آسان نہیں تھا۔ نام نہاد حب الوطنی کی پرچارک بننے والی سرکار نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے واقعے کے بعد تمام جامعات میں ترنگا لہرانے کا حکم صادر کیا، لیکن وہ یہ بھول گئی کہ جبر اور گھٹن کا شکار معاشرے پنپ نہیں سکتے۔

اساتذہ کا ردعمل
کنہیاکمار کی گرفتاری کے بعد ممبئی کے 42 اساتذہ نے مشترکہ بیان میں حکومتی اقدام کی مذمت کی اور اسے جامعہ میں بے جا مداخلت سے تعبیر کیا۔ دین دیال اپادھیائے گورکھ پور یونیورسٹی کے وائس چانسلر اشوک کمار نے اظہار یک جہتی کیا اور ان واقعات کے خلاف دستخطی مہم کا حصہ بنے تو انتہاپسندوں نے ان کا پتلا نذرآتش کیا۔ نام وَر امریکی دانش وَر نوم چومسکی اور جیوڈتھ بٹلر سمیت 84 سے زاید ماہرین تعلیم نے کنہیا کمار کی گرفتاری کی سخت مذمت کی ہے اور اسے ایک جامعہ کی خودمختاری اور آزادی اظہار پر حملہ قرار دیا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں بھی کنہیا کمار کے حق میں مظاہرہ کیا گیا۔

سیاسی راہ نما کیا کہتے ہیں؟
٭وزیراعلیٰ بہار نتیش کمار نے کہا ہے کہ مرکز، اختلافی نظریہ رکھنے کے باعث 'جے این یو' کو نشانہ بنا رہا ہے۔ مودی سرکار سمجھتی ہے کہ فقط وہی دھرتی سے محبت کرتی ہے۔ وہ ذرا بتائیں تو آخر حب الوطنی کا پیمانہ کیا ہے۔ مودی سرکار دراصل بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کی جذباتیت کو فروغ دے رہی ہے۔

٭کانگریسی راہ نما اور سابق وزیر داخلہ پی چدم برم نے کہا ہے کہ افضل گرو کے حق میں نعرے بازی غداری نہیں بے وقوفی ہے۔

٭جنتا دَل یونائیٹڈ (جے ڈی یو) کے صدر شردیادو نے جے این یو کو چھوٹا ہندوستان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نعروں سے قسمت نہیں بدل سکتی، بی جے پی غیرضروری مسائل پر ہنگامہ کھڑا کر رہی ہے۔

٭سابق بھارتی جج جسٹس کولسے پاٹل کنہیا کمار کو دوسرا بھگت سنگھ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کنہیا کمار کا قصور صرف یہ ہے کہ اس نے انتہاپسند تنظیم آر ایس ایس (راشٹریہ سوک سنگھ) کو للکارا۔ اس کا باپ فالج کا شکار ہے، ماں ایک چھوٹی سی ملازمت کرکے اسے پی ایچ ڈی کرا رہی ہے۔ کنہیا نے تحریک آزادی میں آر ایس ایس کے کردار پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ حکومت وقت کی آنکھوں میں چبھ رہا ہے۔

کنہیا افریقیات کے طالب علم ہیں
29 سالہ کنہیا کمار بھارتی ریاست بہار کے ضلع بیگو سرائے کے رہنے والے ہیں۔ مستقبل میں کنہیا کمار درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ ہونے کے خواہش مند ہیں، لیکن 22 دن کی حراست کے بعد رہائی پانے کے بعد انہوں نے ڈیڑھ گھنٹے طلبا سے خطاب کیا اور کسی منجھے ہوئے سیاست داں کی طرح صحافیوں کے سوالات کے جواب دیے۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے شعبہ افریقیات میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔

ان کے والد مفلوج ہیں۔ والدہ مزدوری کرکے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ رہائی کے بعد انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ میں وزیر نہیں ہوں، سوال سے نہیں بھاگوں گا۔ انہوں نے ہریانہ کی حکومت سے بھگت سنگھ سے منسوب ہوائی اڈے کا نام بدل کر انتہاپسندوں کے نام پر رکھنے پر سخت تنقید کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے 80 فی صد غریبوں کے لیے لڑنا ہی اصل حب الوطنی ہے۔ حکومت ہمیں اس لیے دباتی ہے کہ کم زور طبقے کا کوئی طالب علم پی ایچ ڈی نہ کرسکے۔ حکومت ہر متحد ہونے والی آواز کو دبا دینا چاہتی ہے۔ سورج کو ہزار بار چاند کہنے سے وہ کبھی چاند نہیں بنے گا۔ یہ لمبی لڑائی ہے، حکومت بنیادی سوالات سے فرار چاہتی ہے۔ ہاں، ہم آزادی چاہتے ہیں، ملک لوٹنے والوں سے آزادی!

گرفتاری سے قبل کی گئی تقریر کے اہم نکات
٭ہمیں آر ایس ایس سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں چاہیے۔ ہم اس ملک میں جاری ذات پات کے نظام پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم اقلیتوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، تو کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں جہادی رہتے ہیں۔

٭میں جے این یو کی طرف سے آر ایس ایس کے نظریات کو چیلینج کرتا ہوں۔ ہم 'اے بی وی پی' کے جنونی نعروں پر سوال اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان کے اس نعرے پر کہ وہ خون سے تلک لگائیں گے۔ وہ کس کا خون بہانا چاہتے ہیں؟ انھوں نے خود انگریز حکومت کا ساتھ دیا تھا اور مجاہدین آزادی پر گولیاں چلائی تھیں۔

٭انہیں تکلیف ہوتی ہے، جب لوگ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، جب لوگ مجاہدین آزادی کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے۔ برطانوی حکومت کی حامی غدار آر ایس ایس آج حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ تقسیم کر رہی ہے۔

٭کوئی ملک اس کے عوام سے بنتا ہے اور آپ کے تصورِوطن میں غریبوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، تو پھر یہ ملک ہی نہیں۔ اگر ہم نے دوسروں کے عقائد، حقوق کا احترام نہیں کیا تو ہمارا ملک قائم نہیں رہ سکتا۔

٭یہ سچ ہے کہ 'جے این یو' سرکاری زرتلافی پر چل رہی ہے، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ یونیورسٹیاں ہوتی کس لیے ہیں؟ یونیورسٹیاں سماج کے اجتماعی ضمیر کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے ہوتی ہیں۔ اگر یونیورسٹیاں اپنا کام نہ کرسکیں، تو کوئی ملک نہیں بن سکتا۔
Load Next Story