کچھ نیا باسی پرانا

ایران اور اسرائیل کی سرد جنگ اب نئی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اس جنگ کا حصہ امریکا بھی بن چکا ہے۔


Shehla Aijaz November 11, 2012
[email protected]

باراک اوباما دوسری بار بھی الیکشن جیت گئے، صدارت کی کرسی کا دوسری بار ذائقہ اب ان سے کیا کچھ کرواتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

لیکن الیکشن سے پہلے ہی ان کی ایران جیسے بلند عزائم والے اسلامی ملک کے ساتھ سیاسی قلا بازیاں خاصی حیرت انگیز تھیں۔ جلدی جلدی مہرے بدلنا اوباما کی فطرت ہے یا ان کے اس مخصوص تھینک ٹینک کی صلاح جس کی انگلی پکڑ کر چلنا اب ان کی عادت میں شامل ہوگیا ہے۔ یہ درست ہے کہ رومنی نے ببانگ دہل اعلان کیا تھا کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ ڈرون حملوں کا سلسلہ بند نہیں کرینگے، لیکن باراک اوباما نے سب کچھ کرتے کرواتے اتنا چلا کر ڈرون حملوں کے مطابق کچھ نہ کہا تھا۔

ایران اور اسرائیل کی سرد جنگ اب نئی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اس جنگ کا حصہ امریکا بھی بن چکا ہے، ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹم سے محبت کرنے کی سزا جس انداز میں ایران کو دی گئی تھی اس نے خود امریکا کے لیے بھی خاصی دشواریاں کھڑی کر دی تھیں۔ سمندر پر پہرے بٹھانے سے جو راستے امریکی افواج کے لیے بند کر دیے گئے تھے اس سے قریب ہی تھا کہ ایک کھلی جنگ چھڑ جاتی لیکن اوباما نے اس جنگ کا اشارہ نہ دیا۔ایک امریکی فوجی آفیشل کے مطابق امریکا اس جنگ کے لیے پوری طرح تیار تھا لیکن انھیں اس کے لیے اوباما کی جانب سے سگنل نہ ملا، یقینا اس جنگ سے مسلم اور یورپی ممالک کے درمیان ایک لکیر سی کھنچ جاتی خود امریکی عوام دنیا بھر کے مسلم ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں اور ایران سے جنگ مول لینے کا مطلب تیسری جنگ عظیم کو آواز دینا ہے یوں وہ وقت تو ٹل گیا لیکن اسرائیل کی شر انگیزیاں نہ رکیں ۔

حال ہی میں اسرائیل نے سوڈان پر اپنے حملوں سے ثابت کر دیا کہ وہ شتر بے مہار ہو چکا ہے اب امریکا کے ہاتھوں اس کی رسی کھل چکی ہے ۔ یوں یہودی قرضوں میں جکڑے امریکا کے لیے اسرائیل کے پیچھے چلنا اب اس کی مجبوری بن چکا ہے۔ 1998 میں یاسر عرفات کے جس اہم رکن کو شہید کرنے کا اب اسرائیل کھل کر اقرار کر رہا ہے وہ یہ ہی ظاہر کر رہا ہے کہ اسرائیل کی پوزیشن1998 کے مقابلے میں کیا ہوچکی ہے ،گزشتہ چودہ برسوں میں اس کا قد کتنا بلند ہو چکا ہے۔

دنیا بھر میں ایران کو اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے بدنام کرنیوالے امریکا نے ایران کے مجاہدین خلق گروپ کو دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کر دیا۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے یہ اعلان خاصا حیران کن تھا بقول امریکی وزیر خارجہ،ہلیری کلنٹن نے مجاہدین خلق گروپ کو دہشت گردی کی فہرست سے خارج کر دیا کیونکہ اس گروپ نے گزشتہ دس برسوں سے دہشت گردی کی کوئی واردات نہ کی۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مطابق مجاہدین خلق نے عراق میں اپنے اڈے پر امن طریقے سے ختم کرنے میں بھی معاونت کی، یہ وہی مشہور زمانہ گروپ ہے جسے1977 میں امریکا نے اس کی دہشت گردی کی وارداتوں کے باعث اسے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ مجاہدین خلق نے امریکا کے اس فیصلے کو سراہا، مجاہدین خلق کے رہنماء مریم راجا مری نے اپنے ایک بیان میں امریکی حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا، جب کہ دوسری جانب امریکا کے اس فیصلے کی ایرانی حکومت نے مذمت کی ہے۔

امریکا کی جانب سے الیکشن سے پہلے یہ عمل انتہائی پیچیدہ اسٹرٹیجی کی جانب اشارہ کرتا ہے گویا اب کھلے دروازے سے داخل ہونا یا دستک دینے کی بجائے زمینی بلوں کی مدد سے نئے راستے اختیار کیے گئے ہیں۔ یہ زمینی بل کہاں سے کھلتے ہیں اس کا یقین شاید کر لیا گیا ہے۔امریکا اسرائیل اور ایران ایک ایسی مثلث بن چکے ہیں جن کے سرے ایک دوسرے سے ملتے ہی ہیں اور جلتے بھی ہیں۔ اسرائیل جو ایران کی ایٹمی طاقت سے خائف ہے ، اپنے حق میں دوسرے ممالک کو ہمنوا بنانے کی محض کوششیں ہی نہیں کر رہا بلکہ خود سے ایران کے ایٹمی وسائل کو سائبر وار کے ذریعے زیر کرنے کی جدوجہد میں بہت بڑا سرمایہ خرچ کر رہا ہے۔

اسرائیل کا مقصد ایران کو اس کی طاقت سے محروم کرکے اسے سرنگوں کرنا ہے تاکہ وہ بھی دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح اس کے ہمعصرامریکا سے سر جھکا کر ملے جب کہ امریکا نے اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دوسری جانب ہاتھ پیر مارنا شروع کر دیے ہیں۔ باراک اوباما کے دوسری دفعہ صدارتی انتخابات میں جیتنا اسی تھنک ٹینک کے مقصد کو تقویت دینا ہے جس کے تحت ایران کو اس کی ہٹ دھرمی کی سزا دینا اور اپنے اور اسرائیل کے لیے میدان صاف کرنا ہے۔ ایران نہایت سمجھداری سے مسلمان ممالک میں اپنی راہیں ہموار کرتا ہوا جس طرح سعودی عرب تک پہنچا اور اسے کھلے دل سے اپنا بڑا بھائی تسلیم کیا اس سے ایران کے لیے مسلمان ممالک میں نرم گوشے ہموار ہو چکے ہیں ۔جب کہ فلسطینیوں کے مسئلے پر ہمیشہ اسرائیل کو مسلمان ممالک میں نا پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا گیا ہے لہذا اسرائیل کا نام بہت سے مسلمان ممالک کی فہرست سے خارج ہے۔

سوڈان پر حالیہ حملے کے باعث اسرائیل تشدد پسندی کا پارہ اب عروج پر آچکا ہے اس حملے کی ٹھوس وجوہات کیا ہیں اسرائیل کے پاس اس کا واضح جواب نہیں ہے، لیکن بھارت کی جانب سے اس کی مستقل بڑھتی دوستی پاکستان کے لیے کیا تشویش کا باعث بن سکتی ہے اس کا جواب ذرا ٹیڑھی کھیر کی مانند ہے لیکن ایران اور پاکستان کے درمیان دوستی کا رشتہ امریکا سمیت بہت سے یورپی ممالک کو بری طرح کھٹکتا ہے اور اس پر خاصی آوازیں بھی بلند ہوتی ہیں۔

حال ہی میں سائبر سیکیورٹی سے متعلق سابق امریکی اہلکار، جیمز ہوز کے مطابق امریکی ایجنسیاں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ سعودی عرب کی تیل کمپنی پر سائبر حملوں میں ایران ملوث ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے چھوڑے گئے وائرس شموں نے ہزاروں کمپیوٹرز کو ناکارہ کر دیا تھا، پینٹاگون کی جانب سے امریکا کو بھی پیشگی اپنے سائبر نیٹ ورک کی حفاظت کے لیے اشارہ کیا گیا تھا۔ پاکستان میں طالبان اور دنیا بھر میں ایران امریکا کے لیے ایک ایسے شرارتی بچے کی مانند ہو گئے ہیں جو ان کے مطابق پلک جھپکتے نجانے کیا کچھ کر جائیں۔ کیا یہ سب کچھ ایران اور سعودی عرب کے رشتے کے درمیان شگاف ڈالنے کی کوشش ہے ۔اوباما حکومت میں ایک بار پھر نئے دم خم کے ساتھ آچکے، بیرونی اور مسلم دنیا کے لیے اوباما کے قدم نئے انداز سے اٹھتے ہیں یا پرانے قدموں پر نئے قدم ثبت کرتے جائیں گے یہ دیکھنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں